ناصر علی مرزا
معطل
گل نوخیز اختر
پاکستان میں لوگ انٹرنیٹ بھی استعمال کرتے ہیں، ٹی وی بھی دیکھتے ہیں، سینما بھی جاتے ہیں، پینٹ شرٹ بھی پہنتے ہیں، گانے بھی سنتے ہیں، کلین شیو بھی کرواتے ہیں، خواتین دفاتر میں کام کرتی ہیں، اپنے کولیگز کے ساتھ گفتگو بھی کرتی ہیں، ہنسی مذاق بھی چلتا ہے، لیکن ’’حاجی نیک دین‘‘ کے نزدیک یہ سب غیر اسلامی کام ہیں۔حاجی صاحب کا اصرار ہے کہ ہمیں سنت نبویﷺ پر عمل کرتے ہوئے ہر ایسی چیز سے دور ہوجاناچاہیے جس کا سنت میں کوئی ذکر نہ ہو۔ میں نے حاجی صاحب سے پوچھا کہ آپ نے یہ جو گھر کی نیم پلیٹ پر اپنے نام سے پہلے ’’حاجی‘‘ لکھوا رکھا ہے یہ کون سی سنت ہے؟ کیا نبی پاکﷺ نے حج کے بعد خود کو حاجی کہلوایا تھا؟ جواب میں ’’حاجی نیک دین ‘‘ نے مجھے خبردار کیا کہ میں ایک مذہبی انسان پر تنقید کرنے سے باز رہوں ورنہ آقاﷺ کے دیوانے میرا جینا محال کردیں گے۔ میں نے غصے سے کہا’’کیا میں آقاﷺ کا دیوانہ نہیں؟کیا صرف چھریاں ، کلاشنکوف اور ڈنڈے اٹھائے لوگ ہی آقا ﷺ کے دیوانے ہوتے ہیں؟ ‘‘ حاجی صاحب چلائے’’ہاں! یہی لوگ آقا ﷺ کے دیوانے ہوتے ہیں جنہیں اپنی زندگی کی بھی پروا نہیں ہوتی‘‘۔
کاش ہمیں اپنی اور دوسروں کی زندگی کی پروا ہوتی۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو خدا کی عطا کردہ زندگی کو اتنا حقیر جانتے ہیں۔نہ خود زندہ رہنا چاہتے ہیں نہ کسی کو زندہ دیکھنا چاہتے ہیں۔کیا خدا اور اس کے رسولﷺ کو صرف اپنی مالا جپنے والے لوگ درکار ہیں؟ اس کام کے لیے تو خدا نے فرشتوں کی الگ دنیا قائم کر رکھی ہے۔۔۔تو پھر ہم مسلمانوں کو کیوں یقین ہے کہ ہم اس دنیا کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کیے بغیر محض روز انہ اللہ اللہ کرکے جنت میں چلے جائیں گے؟کیا مسلمان کا ذہانت سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے؟ مسلمان کو خوش لباس، ہنستا مسکراتا نہیں ہوناچاہیے؟ کیا مسلمان کے چہرے سے زندگی کی بجائے موت جھلکنی چاہیے؟؟؟ یہ کون لوگ ہیں جو دن رات خود کو مسلمان اور ہمیں کافر ثابت کرنے کے مشن پر لگے ہوئے ہیں۔میں ایسے بے شمار مذہبی لوگوں کو اندر تک جانتا ہوں جن کی خفیہ زندگی کے گوشے بے نقاب ہوجائیں تو عوام جوتیوں سے ان کا استقبال کریں، لیکن چونکہ یہ مذہبی لوگ اپنے لاؤ لشکر سمیت خود کو اسلام کے پردے میں چھپائے ہوئے ہیں اس لیے کوئی کچھ نہیں کہتا۔یہ کبھی اپنی اولاد کو اپنی طرح نہیں بناتے بلکہ اسے جدید دور کے مطابق تعلیم دلاتے ہیں، ان کی اولادیں انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھتی اور گاڑیوں میں گھومتی ہیں۔ لیکن یہ خود ہر طرف مدرسوں کی تعلیم کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کو زکام بھی ہوجائے تو ڈاکٹر کے پاس دوڑے چلے جاتے ہیں اور ان کے مرید کو کینسر بھی ہوجائے تو اسے ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی بجائے کوئی وظیفہ پڑھنے پر لگا دیتے ہیں۔
پاکستان میں مذہب ایک منافع بخش کاروبار کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔صرف اس لیے کہ ہمیں پتا ہے مذہب کی آڑ میں ہم انتہائی محفوظ ہیں، مذہب کی آڑ میں ہم ہر قسم کے قانون سے بالا تر ہیں۔پچھلے دنوں ایسا ہی ایک سین میں خود دیکھ چکا ہوں، لاہور میں ناجائز تجاوزات گرائی جارہی تھیں کہ ایک صاحب نے جلدی سے اپنی ناجائز تعمیر کی ہوئی دکان کے ستون کے ساتھ کلمہ طیبہ والے سٹکرز چپکا دیے اور کہنے لگا’ ’ اگر ان سٹکرز کو کچھ ہوا توتم ہی کافر کہلاؤ گے اور علاقے کے لوگ تمہیں نہیں چھوڑیں گے‘‘۔
اصل میں ہم لوگ مذہب سے نہیں مذہبی لوگوں سے دور ہوتے جارہے ہیں، اس کی دو وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ یہ لوگ اپنی ہر بات کو اٹل قرار دے دیتے ہیں اور دوسرے ان کے اندر مرنے مارنے کا جذبہ فوراً ہی بیدار ہوجاتاہے۔انہوں نے مذہب کو اپنی جاگیر سمجھ لیا ہے اور ہر کسی کو اس میں سے نکالنے کے فتوے جاری کرتے پھر رہے ہیں۔ آپ کبھی کسی کٹر مذہبی شخص کے سامنے نماز پڑھیں اور پھر پوچھیں کہ کیا میں نے صحیح نماز پڑھی ہے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ آپ کی نماز سے مطمئن ہوجائے بلکہ کوئی نہ کوئی سقم ضرور نکالے گا۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ پہلے تو صرف مذہبی عقائد پر اختلافات تھے، اب عجیب و غریب چیزوں پر فتوے صادر ہونا شروع ہوگئے ہیں، کچھ عرصہ پہلے مصر کے ایک مفتی صاحب نے فتویٰ جاری کیا کہ ’’جھولا فرعون کی ایجاد ہے لہٰذا جھولا جھولنا حرام ہے‘‘۔
ہمارے ہاں ہر معاملے میں سعودیہ کی بڑی تقلید کی جاتی ہے، عیدین پر تو یہ تقلید اور زیادہ بڑھ جاتی ہے، ہمارے تو اختیار میں نہیں کہ ہم 14 اگست بھی سعودی عرب کے ساتھ منایا کریں۔لیکن حیرت کی بات ہے کہ سعودیہ میں جمعہ کا خطبہ سرکاری ہوتاہے اور کوئی سعودی امام مسجد اس خطبے سے ہٹ کر ذاتی بات نہیں کر سکتا، اس معاملے میں ہم سعودیہ کی نقل کیوں نہیں کرتے؟تکلیف دہ سچائی تو یہ ہے کہ ہم نے خود کو شریعت کے مطابق ڈھالنے کی بجائے شریعت کو اپنے مطابق ڈھال لیا ہے۔دلائل ایسے کہ مخالف کے چھکے چھڑا دیں، لیکن عمل ندارد۔کیا اس ملک میں کوئی ایسا عالم دین ہے جو کہہ سکے کہ میں پورے کا پورا اسلام میں داخل ہوچکا ہوں؟ ؟؟
پورے ملک میں طاقت کے تین مراکز کام کر رہے ہیں، حکومت، فوج اور مذہبی لوگ، وقت کی اہمیت کے ساتھ ساتھ یہ ترتیب الٹ پلٹ ہوتی رہتی ہے لیکن فریق تین ہی رہتے ہیں۔کس کی مجال ہے کہ وہ مذہبی انتہا پسندوں کو للکار سکے، ان کے پاس سب سے بڑا ہتھیار کسی کو کافر قرار دے دینا ہوتاہے، یہ جانتے ہیں کہ بھولے بھالے عوام ان کے کسی بھی اعلان پر لبیک کہنے کے لیے تیار بیٹھے ہوں گے لہٰذا یہ ہر وقت حکومت کو بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں رہتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جب اس قسم کے گروہ اسلام کا نعرہ لگا کر سینوں سے بم باندھ کر مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو حکومت کے پیروں تلے زمین نکل جاتی ہے۔انہی مذاکراتی فارمولوں نے حکومت کو کمزور اور دہشت گردوں کو مضبوط کیا ہے۔ ہر دفعہ میڈیا میں ایک ہی رٹا رٹایا بیان سننے کو ملتا ہے کہ ’’ایسا گھناؤنا کام کرنے والے مسلمان نہیں ہوسکتے‘‘۔ لیکن ہماری بدقسمتی کہ ایسا کرنے والے مسلمان کے طور پر ہی مشہور ہیں۔
کاش حکومت حوصلہ کرکے اعلان کرے کہ طالبان کی حمایت میں اٹھنے والی آوازوں کو بھی طالبان سمجھا جائے گا۔کیا آپ نے کسی زلزلہ ، سیلاب یا آفت کے موقع پر طالبان کو پاکستانیوں کی مدد کرتے دیکھا ہے، کبھی دیکھا ہو کہ طالبان نے کسی معذور بچے کے علاج کے لیے رقم دی ہو، کسی جگہ مسجد کی تعمیر کے لیے چندہ دیا ہو؟ کبھی نہیں،کیونکہ یہ لوگ صرف بربادیاں پھیلانے کے قائل ہیں، یہ چندہ بھی تحکمانہ انداز میں مانگتے ہیں۔
آج ہی ایک دوست نے قبائلی علاقے کی ایک دلچسپ تصویر شیئر کی ہے، مجھے نہیں معلوم یہ کتنی پرانی اور کتنی سچی ہے لیکن اس میں ایک کیمپ نظر آرہا ہے جس کے سامنے ایک میز پر آٹھ دس کلاشنکوف ٹائپ ہتھیار پڑے ہیں اور عقب میں جمعیت علمائے اسلام کی طرف سے دو بینر لگے ہیں، ایک بینر پر لکھا ہے’’افغان بیواؤں، یتیموں اور زخمیوں کے لیے خیرات یہاں جمع کرائیے اور دینی غیرت کا ثبوت دیجئے‘‘ جبکہ دوسرے بینر پر تحریر ہے ’’چندہ برائے افغان مجاہدین۔بحکم مولانا فضل الرحمن اینڈ ملا عمر‘‘ ۔ اِس’’And‘‘ کا جواب نہیں۔۔۔خوب!!!
پاکستان میں لوگ انٹرنیٹ بھی استعمال کرتے ہیں، ٹی وی بھی دیکھتے ہیں، سینما بھی جاتے ہیں، پینٹ شرٹ بھی پہنتے ہیں، گانے بھی سنتے ہیں، کلین شیو بھی کرواتے ہیں، خواتین دفاتر میں کام کرتی ہیں، اپنے کولیگز کے ساتھ گفتگو بھی کرتی ہیں، ہنسی مذاق بھی چلتا ہے، لیکن ’’حاجی نیک دین‘‘ کے نزدیک یہ سب غیر اسلامی کام ہیں۔حاجی صاحب کا اصرار ہے کہ ہمیں سنت نبویﷺ پر عمل کرتے ہوئے ہر ایسی چیز سے دور ہوجاناچاہیے جس کا سنت میں کوئی ذکر نہ ہو۔ میں نے حاجی صاحب سے پوچھا کہ آپ نے یہ جو گھر کی نیم پلیٹ پر اپنے نام سے پہلے ’’حاجی‘‘ لکھوا رکھا ہے یہ کون سی سنت ہے؟ کیا نبی پاکﷺ نے حج کے بعد خود کو حاجی کہلوایا تھا؟ جواب میں ’’حاجی نیک دین ‘‘ نے مجھے خبردار کیا کہ میں ایک مذہبی انسان پر تنقید کرنے سے باز رہوں ورنہ آقاﷺ کے دیوانے میرا جینا محال کردیں گے۔ میں نے غصے سے کہا’’کیا میں آقاﷺ کا دیوانہ نہیں؟کیا صرف چھریاں ، کلاشنکوف اور ڈنڈے اٹھائے لوگ ہی آقا ﷺ کے دیوانے ہوتے ہیں؟ ‘‘ حاجی صاحب چلائے’’ہاں! یہی لوگ آقا ﷺ کے دیوانے ہوتے ہیں جنہیں اپنی زندگی کی بھی پروا نہیں ہوتی‘‘۔
کاش ہمیں اپنی اور دوسروں کی زندگی کی پروا ہوتی۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو خدا کی عطا کردہ زندگی کو اتنا حقیر جانتے ہیں۔نہ خود زندہ رہنا چاہتے ہیں نہ کسی کو زندہ دیکھنا چاہتے ہیں۔کیا خدا اور اس کے رسولﷺ کو صرف اپنی مالا جپنے والے لوگ درکار ہیں؟ اس کام کے لیے تو خدا نے فرشتوں کی الگ دنیا قائم کر رکھی ہے۔۔۔تو پھر ہم مسلمانوں کو کیوں یقین ہے کہ ہم اس دنیا کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کیے بغیر محض روز انہ اللہ اللہ کرکے جنت میں چلے جائیں گے؟کیا مسلمان کا ذہانت سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے؟ مسلمان کو خوش لباس، ہنستا مسکراتا نہیں ہوناچاہیے؟ کیا مسلمان کے چہرے سے زندگی کی بجائے موت جھلکنی چاہیے؟؟؟ یہ کون لوگ ہیں جو دن رات خود کو مسلمان اور ہمیں کافر ثابت کرنے کے مشن پر لگے ہوئے ہیں۔میں ایسے بے شمار مذہبی لوگوں کو اندر تک جانتا ہوں جن کی خفیہ زندگی کے گوشے بے نقاب ہوجائیں تو عوام جوتیوں سے ان کا استقبال کریں، لیکن چونکہ یہ مذہبی لوگ اپنے لاؤ لشکر سمیت خود کو اسلام کے پردے میں چھپائے ہوئے ہیں اس لیے کوئی کچھ نہیں کہتا۔یہ کبھی اپنی اولاد کو اپنی طرح نہیں بناتے بلکہ اسے جدید دور کے مطابق تعلیم دلاتے ہیں، ان کی اولادیں انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھتی اور گاڑیوں میں گھومتی ہیں۔ لیکن یہ خود ہر طرف مدرسوں کی تعلیم کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کو زکام بھی ہوجائے تو ڈاکٹر کے پاس دوڑے چلے جاتے ہیں اور ان کے مرید کو کینسر بھی ہوجائے تو اسے ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی بجائے کوئی وظیفہ پڑھنے پر لگا دیتے ہیں۔
پاکستان میں مذہب ایک منافع بخش کاروبار کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔صرف اس لیے کہ ہمیں پتا ہے مذہب کی آڑ میں ہم انتہائی محفوظ ہیں، مذہب کی آڑ میں ہم ہر قسم کے قانون سے بالا تر ہیں۔پچھلے دنوں ایسا ہی ایک سین میں خود دیکھ چکا ہوں، لاہور میں ناجائز تجاوزات گرائی جارہی تھیں کہ ایک صاحب نے جلدی سے اپنی ناجائز تعمیر کی ہوئی دکان کے ستون کے ساتھ کلمہ طیبہ والے سٹکرز چپکا دیے اور کہنے لگا’ ’ اگر ان سٹکرز کو کچھ ہوا توتم ہی کافر کہلاؤ گے اور علاقے کے لوگ تمہیں نہیں چھوڑیں گے‘‘۔
اصل میں ہم لوگ مذہب سے نہیں مذہبی لوگوں سے دور ہوتے جارہے ہیں، اس کی دو وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ یہ لوگ اپنی ہر بات کو اٹل قرار دے دیتے ہیں اور دوسرے ان کے اندر مرنے مارنے کا جذبہ فوراً ہی بیدار ہوجاتاہے۔انہوں نے مذہب کو اپنی جاگیر سمجھ لیا ہے اور ہر کسی کو اس میں سے نکالنے کے فتوے جاری کرتے پھر رہے ہیں۔ آپ کبھی کسی کٹر مذہبی شخص کے سامنے نماز پڑھیں اور پھر پوچھیں کہ کیا میں نے صحیح نماز پڑھی ہے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ آپ کی نماز سے مطمئن ہوجائے بلکہ کوئی نہ کوئی سقم ضرور نکالے گا۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ پہلے تو صرف مذہبی عقائد پر اختلافات تھے، اب عجیب و غریب چیزوں پر فتوے صادر ہونا شروع ہوگئے ہیں، کچھ عرصہ پہلے مصر کے ایک مفتی صاحب نے فتویٰ جاری کیا کہ ’’جھولا فرعون کی ایجاد ہے لہٰذا جھولا جھولنا حرام ہے‘‘۔
ہمارے ہاں ہر معاملے میں سعودیہ کی بڑی تقلید کی جاتی ہے، عیدین پر تو یہ تقلید اور زیادہ بڑھ جاتی ہے، ہمارے تو اختیار میں نہیں کہ ہم 14 اگست بھی سعودی عرب کے ساتھ منایا کریں۔لیکن حیرت کی بات ہے کہ سعودیہ میں جمعہ کا خطبہ سرکاری ہوتاہے اور کوئی سعودی امام مسجد اس خطبے سے ہٹ کر ذاتی بات نہیں کر سکتا، اس معاملے میں ہم سعودیہ کی نقل کیوں نہیں کرتے؟تکلیف دہ سچائی تو یہ ہے کہ ہم نے خود کو شریعت کے مطابق ڈھالنے کی بجائے شریعت کو اپنے مطابق ڈھال لیا ہے۔دلائل ایسے کہ مخالف کے چھکے چھڑا دیں، لیکن عمل ندارد۔کیا اس ملک میں کوئی ایسا عالم دین ہے جو کہہ سکے کہ میں پورے کا پورا اسلام میں داخل ہوچکا ہوں؟ ؟؟
پورے ملک میں طاقت کے تین مراکز کام کر رہے ہیں، حکومت، فوج اور مذہبی لوگ، وقت کی اہمیت کے ساتھ ساتھ یہ ترتیب الٹ پلٹ ہوتی رہتی ہے لیکن فریق تین ہی رہتے ہیں۔کس کی مجال ہے کہ وہ مذہبی انتہا پسندوں کو للکار سکے، ان کے پاس سب سے بڑا ہتھیار کسی کو کافر قرار دے دینا ہوتاہے، یہ جانتے ہیں کہ بھولے بھالے عوام ان کے کسی بھی اعلان پر لبیک کہنے کے لیے تیار بیٹھے ہوں گے لہٰذا یہ ہر وقت حکومت کو بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں رہتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جب اس قسم کے گروہ اسلام کا نعرہ لگا کر سینوں سے بم باندھ کر مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو حکومت کے پیروں تلے زمین نکل جاتی ہے۔انہی مذاکراتی فارمولوں نے حکومت کو کمزور اور دہشت گردوں کو مضبوط کیا ہے۔ ہر دفعہ میڈیا میں ایک ہی رٹا رٹایا بیان سننے کو ملتا ہے کہ ’’ایسا گھناؤنا کام کرنے والے مسلمان نہیں ہوسکتے‘‘۔ لیکن ہماری بدقسمتی کہ ایسا کرنے والے مسلمان کے طور پر ہی مشہور ہیں۔
کاش حکومت حوصلہ کرکے اعلان کرے کہ طالبان کی حمایت میں اٹھنے والی آوازوں کو بھی طالبان سمجھا جائے گا۔کیا آپ نے کسی زلزلہ ، سیلاب یا آفت کے موقع پر طالبان کو پاکستانیوں کی مدد کرتے دیکھا ہے، کبھی دیکھا ہو کہ طالبان نے کسی معذور بچے کے علاج کے لیے رقم دی ہو، کسی جگہ مسجد کی تعمیر کے لیے چندہ دیا ہو؟ کبھی نہیں،کیونکہ یہ لوگ صرف بربادیاں پھیلانے کے قائل ہیں، یہ چندہ بھی تحکمانہ انداز میں مانگتے ہیں۔
آج ہی ایک دوست نے قبائلی علاقے کی ایک دلچسپ تصویر شیئر کی ہے، مجھے نہیں معلوم یہ کتنی پرانی اور کتنی سچی ہے لیکن اس میں ایک کیمپ نظر آرہا ہے جس کے سامنے ایک میز پر آٹھ دس کلاشنکوف ٹائپ ہتھیار پڑے ہیں اور عقب میں جمعیت علمائے اسلام کی طرف سے دو بینر لگے ہیں، ایک بینر پر لکھا ہے’’افغان بیواؤں، یتیموں اور زخمیوں کے لیے خیرات یہاں جمع کرائیے اور دینی غیرت کا ثبوت دیجئے‘‘ جبکہ دوسرے بینر پر تحریر ہے ’’چندہ برائے افغان مجاہدین۔بحکم مولانا فضل الرحمن اینڈ ملا عمر‘‘ ۔ اِس’’And‘‘ کا جواب نہیں۔۔۔خوب!!!