زبیر مرزا
محفلین
اِک بُت مُجھے بھی گوشئہ دل میں پڑا مِلا
واعظ کو وہم ہے کہ اُسی کو خُدا مِلا
حیرت ہے، اس نے اپنی پرستش ہی کیوں نہ کی
جب آدمی کو پہلے پہل آئینہ مِلا
خورشیدِ زندگی کی تمازت غضب کی تھی
تو راہ میں مِلا تو شجر کا مزا مِلا
دیکھا جو غور سے تو مجسّم تجھی میں تھا
وہ حُسن جو خیال سے بھی ماورا مِلا
سینے میں تیری یاد کے طوفان جب اُٹھے
ذہن اِک بگولا بن کے ستاروں سے جا مِلا
مُجھ سے بچھڑ کے، یوسفِ بے کارواں ہے تو
مُجھ کو تو، خیر، درد مِلا، تُجھ کو کیا مِلا
دن بھر جلائیں مَیں نے اُمیدوں کی مشعلیں
جب رات آئی، گھر کا دِیا تک بُجھا مِلا
یارب، یہ کس نے ٹکڑے کیے روز حشر کے
مُجھ کو تو گام گام پہ محشر بپا مِلا
محکوم ہو کچھ ایسا کہ آزاد سا لگے
انساں کو دَورِ نَو میں یہ منصب نیا مِلا
ماضی سے مُجھ کو یوُں تو عقیدت رہی، مگر
اس راستے میں جو بھی نگر تھا، لُٹا مِلا
دشتِ فراق میں وہ بصیرت مِلی، ندیمؔ
جو مُجھ سے چھن گیا تھا، وہی جا بجا مِلا