مہ جبین
محفلین
اِک شعلہ نوا کو غمِ آشوبِ قضا کیا
آواز کی قندیل بجھائے گی ہوا کیا
اک آئینہ خانہ ہے رہِ شوق میں حائل
آشفتہ سری کا ہے سبب اِس کے سوا کیا
غنچے کی چٹک بھی ہو جہاں بارِ سماعت
اک ٹوٹے ہوئے سازِ تمنا کی صدا کیا
جب صبح نمودار ہوئی پردہء شب سے
اشکوں کے سوا دیدہء بیدار میں تھا کیا
موت آئے ترے در پہ تو دوں جان خوشی سے
ہو زیست ہی الزام تو مرنے کا مزا کیا
دیکھیں تو حزیں سرحدِ ہستی سے گزر کر
آخر ہے تماشا پسِ دیوارِ فنا کیا
حزیں صدیقی
(تدوین کر دی ہے)
آواز کی قندیل بجھائے گی ہوا کیا
اک آئینہ خانہ ہے رہِ شوق میں حائل
آشفتہ سری کا ہے سبب اِس کے سوا کیا
غنچے کی چٹک بھی ہو جہاں بارِ سماعت
اک ٹوٹے ہوئے سازِ تمنا کی صدا کیا
جب صبح نمودار ہوئی پردہء شب سے
اشکوں کے سوا دیدہء بیدار میں تھا کیا
موت آئے ترے در پہ تو دوں جان خوشی سے
ہو زیست ہی الزام تو مرنے کا مزا کیا
دیکھیں تو حزیں سرحدِ ہستی سے گزر کر
آخر ہے تماشا پسِ دیوارِ فنا کیا
حزیں صدیقی
(تدوین کر دی ہے)