محسن نقوی اِک موجۂ صہبائے جُنوں تیز بہت ہے

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اِک موجۂ صہبائے جُنوں تیز بہت ہے​
اِک سانس کا شیشہ ہے کہ لبریز بہت ہے​
کچھ دِل کا لہُو پی کے بھی فصلیں ہُوئیں شاداب​
کچھ یُوں بھی زمیں گاؤں کی زرخیز بہت ہے​
پلکوں پہ چراغوں کو سنبھالے ہوئے رکھنا​
اِس ہجر کے موسم کی ہوا تیز بہت ہے​
بولے تو سہی، جھوٹ ہی بولے وہ بلا سے​
ظالم کا لب و لہجہ دلآویز بہت ہے​
کیا اُس کے خدوخال کھلیں اپنی غزل میں​
وہ شہر کے لوگوں میں کم آمیز بہت ہے​
محسنؔ اُسے ملنا ہے تو دُکھنے دو یہ آنکھیں​
کچھ اور بھی جاگو کہ وہ "شب خیز" بہت ہے​
(محسن نقوی)​
(کتاب: عذابِ دید، ص647)​
 
اِک موجۂ صہبائے جُنوں تیز بہت ہے​
اِک سانس کا شیشہ ہے کہ لبریز بہت ہے​
پلکوں پہ چراغوں کو سنبھالے ہوئے رکھنا​
اِس ہجر کے موسم کی ہوا تیز بہت ہے​
بولے تو سہی، جھوٹ ہی بولے وہ بلا سے​
ظالم کا لب و لہجہ دلآویز بہت ہے​
محسنؔ اُسے ملنا ہے تو دُکھنے دو یہ آنکھیں​
کچھ اور بھی جاگو کہ وہ "شب خیز" بہت ہے​
:khoobsurat::best::great:
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اِک موجۂ صہبائے جُنوں تیز بہت ہے​
اِک سانس کا شیشہ ہے کہ لبریز بہت ہے​
پلکوں پہ چراغوں کو سنبھالے ہوئے رکھنا​
اِس ہجر کے موسم کی ہوا تیز بہت ہے​
بولے تو سہی، جھوٹ ہی بولے وہ بلا سے​
ظالم کا لب و لہجہ دلآویز بہت ہے​
محسنؔ اُسے ملنا ہے تو دُکھنے دو یہ آنکھیں​
کچھ اور بھی جاگو کہ وہ "شب خیز" بہت ہے​
:khoobsurat::best::great:


محسن نقوی کے بیحد خوبصورت غزل پسند کرنے پہ آپ کا بیحد شکریہ۔
 
Top