آرٹی فیشل انٹیلی جینس (مصنوعی ذہانت)

جاسم محمد

محفلین
آرٹی فیشل انٹیلی جینس (مصنوعی ذہانت)
ذیشان الحسن عثمانی جمعرات 4 جولائ 2019
1730148-artificialintelligencex-1562234011-933-640x480.jpg

اگر آپ کو اپنا مستقبل محفوظ بنانا ہے تو مصنوعی ذہانت کو پڑھے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ (تصاویر: انٹرنیٹ)

آرٹی فیشل انٹیلی جینس (مصنوعی ذہانت) یا عرفِ عام میں اے آئی (A.I) کمپیوٹر سائنس کی سب سے دلچسپ شاخ ہے۔ اے آئی میں آپ کمپیوٹرسائنس کے علاوہ نیورولوجی، انسانی طرزِ عمل (Human behavior)، سماعت، بصارت، حرکت، سائیکالوجی اور ایسی ہی دیگر شاخوں کے متعلق بھی پڑھتے ہیں۔

کیا کمپیوٹر خود سے سوچنے سمجھنے کے قابل ہوجائیں گے؟

کیا انہیں معلوم ہوگا کہ وہ کیا کررہے ہیں؟

کیا وہ خود اپنے وجود سے آگاہ (Self-Aware) ہوسکیں گے؟

کیا وہ نئے اور پیچیدہ حالات میں خود سے فیصلہ کرسکیں گے؟

کیا کمپیوٹر اپنے آپ کو خود ٹھیک کرسکیں گے؟

ایسے میں کیا وہ احکامات کی پابندی کریں گے، اخلاقیات اور معاشرتی ضابطوں کی پاسداری کریں گے؟

یہ ہیں وہ سوالات جن کے جوابات جاننے کےلیے اے آئی اب تک سرگرداں ہے۔

کمپیوٹر کا آواز کو سن کر لکھنا (Speech Recognition)، تصویروں کی شناخت کرنا، شطرنج میں عالمی چیمپئن کو شکست دینا، خودکار گاڑیاں چلانا، لوگوں کی آواز اور ویڈیو کی نقل بنانا، آئندہ ہونے والی خریداری اور گاہک کے بارے میں پیش گوئی کرنا اور سیارہ مریخ پر زندگی کی تلاش جیسے کام کرنے کے بارے میں آپ رپورٹس پڑھ ہی چکے ہوں گے۔

000-altus-1562234070.jpg


امریکی فضائیہ میں شامل ’’ایلٹس‘‘ (ALTUS) نامی طیارہ، ایک بار کمانڈ ملنے کے بعد ہینگر سے نکل کر خودبخود ٹیک آف کرتا ہے، مطلوبہ جگہ تک پہنچتا ہے، اس کی ویڈیو بناتا ہے اور پھر واپس اتر کر اپنے ہینگر میں چلا جاتا ہے… اور یہ سارا کام وہ بغیر کسی انسانی مدد کے کرتا ہے۔

نیوکلیئر پلانٹس، کیمیکل فیکٹریز اور ان جیسے بہت سے مقامات جہاں انسانی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، وہاں آج جدید ملکوں میں کمپیوٹر نے اہم کام اپنے سر لیے ہوئے ہیں۔

000-john-mccarthy-1562234074.jpg


مصنوعی ذہانت (آرٹی فیشل انٹیلی جنس) کا نام امریکی کمپیوٹر سائنسدان جان مکارتھی نے 1956 میں متعارف کروایا۔ ان کے مطابق انسانی دماغ ایک پیچیدہ کمپیوٹر ہے جو اپنی ’’اِن پٹ ڈیوائسز‘‘ یعنی حواس خمسہ سے ڈیٹا لے کر انہیں ’’پروسیس‘‘ کرتا ہے اور جواب دیتا ہے۔ اگر ہم انسان کے ہر ہر طرزِ عمل/ برتاؤ کو اتنی باریکی سے سمجھ لیں کہ اسے کوڈ کیا جاسکے تو ہم مشینی دماغ بناسکتے ہیں۔

یہاں ایمرسن پیوگ کا 1977 کا مشہور زمانہ قول لکھنا چاہتا ہوں: ’’اگر انسانی دماغ اتنا سادہ ہوتا کہ اسے آسانی سے سمجھا جاسکتا، تو ہم خود اتنے سادہ ہوتے کہ اسے نہ سمجھ سکتے۔‘‘

یوں تو ذہانت کی کوئی باضابطہ تعریف نہیں مگر کچھ برتاؤ (behaviors) ہیں جن کےلیے ذہانت درکار ہوتی ہے۔ مثلاً منطق، دلیل، پیش گوئی، ہمدردی اور نئے حالات میں فیصلہ کرنا وغیرہ۔

000-alan-turing-1562234068.jpg


اب اگر کوئی پروگرامر دعوی کرے کہ اس نے ’’ذہین کمپیوٹر‘‘ بنا لیا ہے، تو اس کے دعوے کو کیسے پرکھا جائے گا؟ اس سوال کا جواب مشہور ریاضی داں ایلن ٹیورنگ نے اپنے مشہورِ زمانہ ’’ٹیورنگ ٹیسٹ‘‘ کے عنوان سے 1950 میں دیا تھا: ’’ایک آدمی سوالات پوچھے اور دیوار کے دوسری طرف سے ایک اور آدمی یا کمپیوٹر اسے جواب دے۔ اگر آدمی نہ بتاسکے کہ جواب دینے والا انسان ہے یا کمپیوٹر، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جواب دینے والا کمپیوٹر ’ذہین‘ ہے۔‘‘

ٹیورنگ نے پیش گوئی کی تھی کہ 2000 تک کمپیوٹر یہ ٹیسٹ پاس کر جائے گا، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اس ٹیسٹ کو پاس کرنے کی غرض سے ہر سال ’’لوئبنر پرائز‘‘ (Loebner Prize) کےلیے مقابلہ ہوتا ہے۔ یہ 1991 سے شروع ہوا ہے اور اس کا انعام ایک لاکھ ڈالر ہے۔ مصنوعی ذہانت کا ایک اور مشہور سالانہ مقابلہ ’’روبو کپ‘‘ ہے جس میں کمپیوٹرائزڈ روبوٹس ایک دوسرے کے خلاف فٹ بال کھیلتے ہیں، بغیر انسانی مداخلت کے! روبو کپ مقابلے کا مقصد 2050 تک ایسے روبوٹس تیار کرنا ہے جو روبو کپ 2050 میں انسانوں پر مشتمل امریکی ٹیم کو ہرا سکیں۔ یہ دونوں چیلنج خاصے مشکل ہیں مگر بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے بعد بھی اس بات کا فیصلہ نہیں ہوسکے گا کہ کیا واقعی کمپیوٹر ’’سوچنے‘‘ کے قابل ہوگیا ہے۔

1970 میں مصنوعی ذہانت کی شاخ ’’نیچرل لینگویج پروسیسنگ‘‘ کو استعمال کرتے ہوئے پروگرامز بنائے گئے جو زبان کے اصول، گرامر اور معنی کو مدِنظر رکھتے ہوئے عام فہم سوالوں کے جوابات دے سکتے تھے۔ مثلا کمپیوٹر کو یہ کہانی دی جائے:

’’اسلم ہوٹل میں گیا اور بریانی اور زردہ آرڈر کیا۔ بیرے نے بتایا کہ زردہ نہیں، تو اس نے ربڑی منگوالی۔ کھانے کے بعد اس کا موڈ بہت خراب تھا۔‘‘

اس اسٹوری کے بعد کمپیوٹر ان سوالات کے جوابات دے سکتا ہے:

اسلم نے کیا کھایا؟ اسلم نے زردہ کھایا یا نہیں؟ اسلم نے ربڑی کیوں منگوائی؟ اسلم کو کھانا پسند آیا یا نہیں؟ وغیرہ۔

000-john-searle-1562234075.jpg


جہاں بہت سے سائنس دان ان پروگرامز کو ’’ذہین کمپیوٹر‘‘ کی طرف ایک بڑی پیش رفت خیال کرتے ہیں وہیں امریکی فلسفی جان سرل (John Searle) اس سے انکاری ہیں۔ 1980 میں اپنے ایک آرٹیکل ’’Mind, Brains and Programs‘‘ میں جان کا کہنا ہے کہ انسان زبان کو سنٹیکس (Syntax) اور سمینٹکس (Semantics) دو طرح سے پروسیس کرنا ہے۔ جب ہم کوئی کہانی سنتے ہیں تو ہم زبان کی گرامر کے علاوہ ہر ہر واقعہ کو مختلف احساسات سے جوڑتے بھی چلے جاتے ہیں؛ جبکہ کمپیوٹر صرف سنٹیکس سمجھتا ہے، وہ بھی دیئے گئے کوڈ کے مطابق۔ اپنے اسی نظرئیے کو ثابت کرنے کےلیے انہوں نے ’’چائنیز روم‘‘ کی تھیوری پیش کی۔

000-chinese-room-1562234072.jpg


’’فرض کیجیے کہ آپ ایک کمرے میں بند ہیں جس میں ہر طرف الماریوں میں مختلف کارڈز پڑے ہوئے ہیں جو سب کے سب چائنیز زبان میں لکھے ہوئے ہیں، یہ سب سوال و جواب ہیں۔ کمرے میں صرف ایک کھڑکی ہے، جس سے باہر موجود لوگ (جو چائنیز زبان جانتے ہیں) اپنے سوالات ایک کارڈ پر لکھ کر کھڑکی سے اندر ڈالتے ہیں۔ آپ کا کام صرف اتنا ہے کہ ملنے والے سوال کی علامات (Symbols) کو دیکھ کر ویسی ہی علامات والا کارڈ انہیں واپس کردیں۔ یہ ان کے سوال کا جواب ہوگا۔ اب باہر موجود لوگ سمجھ رہے ہوں گے کہ آپ کو چینی زبان آتی ہے جبکہ آپ کو چائنیز نہیں آتی۔‘‘ اسی طرح کمپیوٹر کے جوابات دینے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آپ کی بات سمجھ رہا ہے، اور ٹیورنگ ٹیسٹ سے یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ کمپیوٹر ذہین ہے۔

چائنیز روم کی مخالفت میں بہت سی دلیلیں اور تصویریں دی گئیں۔ مثلاً ایک تھیوری میں، جو ’’سسٹمز ریپلائی‘‘ (Systems Reply) کہلائی، کہا گیا کہ روم، کارڈ، اور کارڈز کو پڑھنے اور جواب دینے کا طریقہ کار اجتماعی طور پر ’’ذہانت‘‘ کہلائے گا۔

دوسری مشہور تھیوری ’’کنیکشنسٹ ریپلائی‘‘ (Connectionist Reply) کہلائی، جس میں کہا گیا کہ فرض کیجیے کمرے میں بہت سے آدمی ہیں اور ہر کوئی چائنیز کے کچھ الفاظ یا جملے جانتا ہے، اب ہر ہر شخص تو ذہین نہ ہوا مگر اجتماعی طور پر ’’روم‘‘ کو چائنیز آتی ہے۔

یہ بحث آج تک جاری ہے اور دونوں اطراف سے دلیلیں آتی رہتی ہیں۔ بہرحال، اس تھیوری نے 1980 کی دہائی میں اے آئی اور اس سے متعلق پروجیکٹس کو ملنے والی فنڈنگ تقریباً ختم کرکے رکھ دی تھی۔

000-marvin-minsky-1562234080.jpg


مارون منسکی کے بقول، ’’ڈیجیٹل کمپیوٹر ہر چیز کی نقل کر سکتا ہے، اور سوچنے کی نقل ’سوچنا‘ ہوا۔‘‘

کیا انسانی رویّے کی نقل ہی ذہانت ہے جیسا کہ ٹیورنگ نے کہا؛ یا اس کےلیے احساسات و جذبات کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ جان سرل کا کہنا ہے۔ آرٹی فیشل انٹلی جینس کو سمجھنے کےلیے لفظ ’’آرٹی فیشل‘‘ (مصنوعی) پر غور کیجیے۔ مثلاً مصنوعی ذائقہ (Artificial Flavor)۔ اب اگر ہم ایسی ہی ذہانت (Intelligence) بنا کر کمپیوٹر کو دے سکیں اور کمپیوٹر انسانوں کی طرح کام کرنے لگے تو یہ ذہین کمپیوٹر کہلائے گا۔

جان سرل کے مطابق یہ ’’مضبوط اے آئی‘‘ (Strong A.I) ہے اور اس کا حصول ناممکن ہے۔ یہ آپ کو صرف سائنس فکشن فلموں میں ہی ملے گی۔ ہاں! اگر کمپیوٹر انسانوں کے کچھ رویّے، کچھ طرزِ عمل، کچھ برتاؤ کی نقل کرسکیں تو یہ ممکن ہے؛ اور جان سرل اسے ’’کمزور اے آئی‘‘ (Weak A.I) کہتے ہیں۔

کمزور اے آئی کا مقصد کارآمد کمپیوٹر پروگرامز ہیں اور مضبوط اے آئی کا مقصد ’خودکار دماغ‘ ہے۔ پوری اے آئی کمیونٹی ان دو گروپس میں بٹی ہوئی ہے۔

انسان بہت سی خصوصیات کا حامل ہے اور اس کے ذہین ہونے میں یہ چند خصوصیات اہم ہیں: سیکھنا، پرکھنا، یادداشت، جذبات و احساسات، اپنے بارے میں اور اردگرد موجود چیزوں کا شعور (consciousness)، ارادہ اور سمجھنا۔

000-kismet-1562234077.jpg


ایم آئی ٹی کے سائنسدانوں نے ایک انتہائی مہنگا کمپیوٹرائزڈ روبوٹ ’’قسمت‘‘ (KISMET) بنایا ہے جو مسکرانے، ناراض ہونے، خوشی اور غمی عکاسی کرسکتا ہے۔ یہ ایک آنکھوں اور ہونٹ والا روبوٹک چہرہ ہے۔

000-rene-descartes-1562234084.jpg


بہت سے یونانی فلاسفرز کا خیال تھا کہ یہ سب کچھ ذہن (Mind) کی وجہ سے ہوتاہے اور ’’ذہن‘‘ انسانی دل میں ہوتا ہے۔ مگر کچھ نے اسے دماغ (Brain) میں بتایا۔ افلاطون انہی میں سے ایک تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ذہن کا طبیعی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ سولہویں صدی کا عظیم فرانسیسی فلسفی اور ریاضی دان رینے دیکارتے (René Descartes) بھی اسی نظرئیے کا قائل تھا اور یہ نظریہ ’’ڈیوئل اِزم‘‘ (Dualism) یعنی دوہرے پن کا تصور کہلایا۔

دیکارتے نے ایک بھیڑ کی مدد سے ثابت کیا کہ جو کچھ بھی بھیڑ کی آنکھ دیکھتی ہے، اس کا عکس، اس بھیڑ کے ذہن کو جاتا ہے اور وہ اس عکس کو دیکھنے کے بعد اس کی تشریح کرتا ہے۔

000-sigmund-freud-1562234086.jpg


انیسویں صدی کے اوائل میں آسٹریا کے نفسیات داں سگمنڈ فرائیڈ فریڈ نے ’’ذہن‘‘ کے مطالعے پر جدید نفسیات کی بنیاد رکھی اور ’’انٹیلی جنٹ کوشنٹ‘‘ (IQ)، غیر شعوری خیالات اور خوابوں کا نظریہ دیا۔ فریڈ کی ’Unconcious Drives‘ (لاشعوری محرکات) پر تحقیق ایک قابلِ قدر کام ہے۔

1930 میں نیورونز (اعصابی خلیات) پر کام کی داغ بیل پڑی اور سائنسدانوں نے کھوج لگانی شروع کی کہ دماغ میں موجود کروڑوں اربوں اعصابی خلیات کس طرح یادداشت، اکتساب (سیکھنے کے عمل) اور ادراک (Perception) جیسے امور سر انجام دیتے ہیں۔

000-ai-jobless-humans-1562234066.jpg


آج کل مصنوعی ذہانت نے روزمرہ نوکریوں کو خطرے میں ڈالا ہوا ہے اور ایک اندازے کے مطابق اے آئی سن 2030 تک آٹھ کروڑ نوکریاں انسانوں سے چھین کر کمپیوٹروں کے حوالے کردے گی۔ اگر آپ کو اپنا مستقبل محفوظ بنانا ہے تو مصنوعی ذہانت کو پڑھے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
جب مشینیں 'سیکھ' جاتی ہیں، تو کئی شعبوں میں انسان کو مات دے سکتی ہیں۔ایک معنوں میں مصنوعی ذہانت کے اندر دنیا کی تباہی کا نکتہ بھی پوشیدہ ہے، گو کہ اس کی افادیت میں کسی صورت کلام نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
جب مشینیں 'سیکھ' جاتی ہیں، تو کئی شعبوں میں انسان کو مات دے سکتی ہیں۔ایک معنوں میں مصنوعی ذہانت کے اندر دنیا کی تباہی کا نکتہ بھی پوشیدہ ہے، گو کہ اس کی افادیت میں کسی صورت کلام نہیں۔
انسان کی ذہانت کروڑوں سال کے حیاتیاتی ارتقاکا نتیجہ ہے۔ مصنوعی ذہانت اب کہیں جا کر اس قدیم فطرتی ذہانت نے بنائی ہے، یوں اس کا غلط یا صحیح استعمال بھی انسانی اخلاقیات پر ہی منحصر ہے۔
 

آصف اثر

معطل
اربوں نیورونز اور کھرب ہا کھرب سینیپسزکے حامل انسان جیسے ذہن کو بنانا ناممکنات میں سے ہے، اگر اس طرح کا فعال نیٹورک بالفرضِ محال بنابھی لیا گیا تو بھی وہ شعور کے بغیر ہی ہوگا۔ اور جس کو صرف ایک سیمی کولن کے ذریعے موت کے منھ سُلایا جاسکتاہے۔
آپ آج الٹس جہاز کے لیے جی پی ایس کا معمولی سا کوڈ بھی اگر تبدیل کردیں، وہ بھی جی پی ایس نظام میں، تو یہ جہاز گرتو سکتا ہے، اُتر کبھی نہیں سکتا۔ اس کے برعکس اگر ہمیں بتائے گئے یا سمجھائے گئے نقشے میں چند مرکزی تبدیلیاں بھی کی جائے تو بھی انسان اس قابل ہوتاہے کہ وہ ان تبدیلیوں کو نوٹ کرکے منزل تک پہنچ سکتاہے۔
ایک C. elegans جیسی ذہانت بھی فی الحال تیار ہوسکے تو یہ صحرا میں ریت کے ذرے کے مثل ہوگا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اربوں نیورونز اور کھرب ہا کھرب سینیپسزکے حامل انسان جیسے ذہن کو بنانا ناممکنات میں سے ہے، اگر اس طرح کا فعال نیٹورک بالفرضِ محال بنابھی لیا گیا تو بھی وہ شعور کے بغیر ہی ہوگا۔ اور جس کو صرف ایک سیمی کولن کے ذریعے موت کے منھ سُلایا جاسکتاہے۔
اس کی بنیادی وجہ انسانی ذہانت کا بچپن ہی سے خودکار طور پر "ٹرین" ہونا ہے۔ جس میں عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ دماغ کا سائز بڑھنے پر اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
بچے کے دماغ کو کلین سلیٹ اسی لئے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ وقت گزرنے کے ساتھ ہی سب کچھ سیکھتا ہے۔
اس کے برعکس دیگر حیوانات کے بچوں میں دیکھا گیا ہے کہ وہ فطری طور پر کافی حد تک "پری پروگرامنڈ "ہوتے ہیں۔
 

محمد سعد

محفلین
اربوں نیورونز اور کھرب ہا کھرب سینیپسزکے حامل انسان جیسے ذہن کو بنانا ناممکنات میں سے ہے، اگر اس طرح کا فعال نیٹورک بالفرضِ محال بنابھی لیا گیا تو بھی وہ شعور کے بغیر ہی ہوگا۔ اور جس کو صرف ایک سیمی کولن کے ذریعے موت کے منھ سُلایا جاسکتاہے۔
ایک طویل عرصے سے اصل رکاوٹ ہارڈوئیر کی کمی نہیں بلکہ بہتر الگوردمز کی تلاش ہے۔ ڈیپ لرننگ جیسے کچھ طریقے نہایت عمدہ نتائج دیتے ہیں، مستقبل میں مزید بہتری بھی آ سکتی ہے۔ بہرحال، انسان کو بے روزگار کرنے کے لیے اتنا آگے جانے کی ضرورت نہیں بلکہ کسی مخصوص کام کے لیے ٹرین کیا گیا ایک سادہ سا اے آئی بھی یہ کام بخوبی کر سکتا ہے۔
 

آصف اثر

معطل
ڈیپ لرننگ جیسے کچھ طریقے نہایت عمدہ نتائج دیتے ہیں، مستقبل میں مزید بہتری بھی آ سکتی ہے۔ بہرحال، انسان کو بے روزگار کرنے کے لیے اتنا آگے جانے کی ضرورت نہیں بلکہ کسی مخصوص کام کے لیے ٹرین کیا گیا ایک سادہ سا اے آئی بھی یہ کام بخوبی کر سکتا ہے۔
جہاں تک انسان کو بے روزگار کرنے کا تعلق ہے تو یہ المیہ پاکستان جیسے دوسرے تیسرے درجے کے ممالک کے لیے زیادہ زوردار ہوگا جہاں ٹیکنالوجیکل اور تجرباتی اذہان اور ماحول کا شدید فقدان ہے۔ ہم جسمانی مزدوروں میں ہی اضافہ کرتے جارہے ہیں۔ مستحکم قومی حکومت نہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی ایک وجہ نظریاتی ہم آہنگی نہ ہونا اور اس ضمن میں علمی بخل بھی ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
جہاں تک انسان کو بے روزگار کرنے کا تعلق ہے تو یہ المیہ پاکستان جیسے دوسرے تیسرے درجے کے ممالک کے لیے زیادہ زوردار ہوگا جہاں ٹیکنالوجیکل اور تجرباتی اذہان اور ماحول کا شدید فقدان ہے۔ ہم جسمانی مزدوروں میں ہی اضافہ کرتے جارہے ہیں۔ مستحکم قومی حکومت نہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی ایک وجہ نظریاتی ہم آہنگی نہ ہونا اور اس ضمن میں علمی بخل بھی ہے۔
باقی کے ساتھ اتفاق، البتہ نظریات ہم آہنگ ہونا ضروری نہیں، نظریات کے فرق کے باوجود ہم آہنگ ہو کر چلنے کا ہنر آنا چاہیے۔
 
اس بارے میں مردِ قلندر اقبال علیہ رحمہ نے فرمایا:

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

بہرحال اس ٹیکنالوجی کو لے کر پاکستان میں بھی الحمد اللّٰہ کام شروع ہو چکا ہے۔ دیکھئے اب اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
 
Top