آزما لے، ابھی تعریفِ ہنر جانے دے
ناخدا کو، کسی طوفان سے گزر جانے دے
تیری فرقت میں، ہر اک سانس پہ موت آئے گی
اپنے ہی سامنے،بہتر ہے کہ مر جانے دے
تیرے کوچے سے پلٹنا نہیں، میرے بس میں
گرد بن کر، اسی کوچے میں بکھر جانے دے
وقت مرہم سہی، کچھ زخم بہت گہرے ہیں
کاش، یہ وقت، ہر اک زخم کو بھر جانے دے
نیند میں ہوں، تُو ابھی نیند سے بیدار نہ کر
اور کسی خواب کی،منزل سے گزر جانے دے
میں تجھے پیش کروں گا، ترے چہرے کی مثال
اور کچھ تو ابھی ،پھولوں کو نکھر جانے دے
پھر ترے شہر کی گلیوں میں نظرآؤں گا
بس، ذرا پاؤں کی، زنجیر اتر جانے دے
آئینہ مجھ کو،مسلسل نہ دکھا، اے کوثر
کچھ تو خود میری بھی، عیبوں پہ نظر جانے دے
( کوثر نقوی )
ناخدا کو، کسی طوفان سے گزر جانے دے
تیری فرقت میں، ہر اک سانس پہ موت آئے گی
اپنے ہی سامنے،بہتر ہے کہ مر جانے دے
تیرے کوچے سے پلٹنا نہیں، میرے بس میں
گرد بن کر، اسی کوچے میں بکھر جانے دے
وقت مرہم سہی، کچھ زخم بہت گہرے ہیں
کاش، یہ وقت، ہر اک زخم کو بھر جانے دے
نیند میں ہوں، تُو ابھی نیند سے بیدار نہ کر
اور کسی خواب کی،منزل سے گزر جانے دے
میں تجھے پیش کروں گا، ترے چہرے کی مثال
اور کچھ تو ابھی ،پھولوں کو نکھر جانے دے
پھر ترے شہر کی گلیوں میں نظرآؤں گا
بس، ذرا پاؤں کی، زنجیر اتر جانے دے
آئینہ مجھ کو،مسلسل نہ دکھا، اے کوثر
کچھ تو خود میری بھی، عیبوں پہ نظر جانے دے
( کوثر نقوی )