عبقری ریڈر
محفلین
کچھ عرصہ پہلے حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے طائف کی دعا پر مکمل درس دیا تھا اور اس کے کمالات بیان کیے تھے۔ سامعین کی خواہش پر اس انمول دعا کو مع ترجمہ شائع کیا جارہا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا کہ’’ کیا آپ ﷺپر احد کے دن سے زیادہ سخت دن بھی گزرا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں عائشہ! (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) طائف کا دن‘ اُحد کے دن سے زیادہ سخت تھا۔‘‘
طائف کا واقعہ آج بھی جو کوئی احساس کی آنکھ سے دیکھے تو لرز اٹھتا ہے اور سنگدل سے سنگدل شخص بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ ذرا تصور کریں کہ وجہ کائنات‘ دو جہاں کے سردار اور وحدہٗ لاشریک کے دین حق کا پیغام جہنم میں گرتے اور نفس میں الجھے لوگوں تک پہنچانے پیدل مکہ سے طائف پہنچتے ہیں۔ کوئی ذاتی غرض نہیں‘ کوئی مفاد نہیں‘ اگر ہے تو صرف یہ کہ ۔۔۔۔۔ غم‘ کڑھن‘ درد‘ہمدردی اور دلگدازی۔۔۔۔۔کاش! کسی طرح طائف والے ہدایت کی راہ پر آجائیں اور ہمیشہ کی کامیابی پاجائیں۔ لیکن جوسلوک طائف والوں نے کیا اور اس احسان کا بدلہ جس سفاکانہ انداز میں لوٹایا تصور کرکے ہی دل ٹکڑےہونے لگتا ہے۔ زخموں سے چور اور لہولہان ہونے کے بعد حضور اکرم نبی رحمت رؤف رحیم ﷺ نے جس عاجزانہ‘ والہانہ اور تواضع وانکساری کے ساتھ اپنے مالک کے سامنے اپنے دکھی دل کے ساتھ جو دعا کی۔۔۔۔ وہ دعا کیا تھی؟ جس سے آسمانوں پر کہرام مچ گیا۔ ان لفظوں میں کیسا درد اور اپنی کمزوری کا کیسا اظہار تھا کہ پہاڑوں کا فرشتہ تڑپ کر خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور طائف والوں کو ملیامیٹ کرنے کی اجازت مانگنے لگتا ہے۔ حضورﷺ کی طرف سے جواب میں طائف والوں کیلئے دعائیں کی جاتی ہیں۔ آج بھی یہ نبوی ﷺدعا اپنے اندر وہی کیفیت‘ وہی سوز‘ وہی اظہار کمزوری رکھتی ہے جس سے آسمانوں سے اللہ کی مدد فوراً متوجہ ہوتی ہے۔ قارئین ذرا سوچیں! کیا ہم پر ان سے زیادہ مصائب آتے ہیں یا ہماری مشکلات طائف کے مسافر سے زیادہ ہیں؟ ہم کیوں مایوس ہوکر شکوے کرنے لگتے ہیں۔ آئیے! اس دعا میں چھپے درد کو محسوس کریں اور اسی تواضع اور لجاہِ قلبی اور ٹوٹے دل کے ساتھ مالک کائنات سے مانگیں۔
جو شخص اس دعا کو 11 بار صبح و شام پڑھے گا اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد فوری آئے گی اور مسائل ومشکلا ت حل ہونگے۔
اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضَعْفَ قُوَّتِی
اے اللہ ! میں اپنی طاقت کی ناتوانی
وَ قِلَّۃَ حِیْلَتِیْ
اپنی قوت عمل کی کمی
وَ ھَوَ انِی عَلٰی النَّا سِ
لوگوں کی نگاہوں میں اپنی بے بسی کا شکوہ تیری بارگاہ میں کرتا ہوں۔
یَا اَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ
اے ارحم الراحمین! تو کمزوروں کا رب ہے
وَاَنْتَ رَبِّی
تو میرا بھی رب ہے۔
اِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ
تو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے
اِلٰی بَعِیْدٍ یَتَجَھَّمُنِی
ایسے بعید کے حوالے جو ترش روئی سے میرے ساتھ پیش آتا ہے
اَمْ اِلٰی عَدُوٍّمَلَّکْتَہٗ اَمْرِیْ
کیا کسی دشمن کو تو نے میری قسمت کا مالک بنادیا ہے
اِنْ لّمْ یَکُنْ بِکَ عَلیَّ غَضَبٌ فَلَا اُبَالِیْ
اگر تو مجھ پر ناراض نہ ہو تو مجھے ان تکلیفوں کی ذرا پروا نہیں۔
وَلٰکِنَّ عَافِیَتُکَ ھِیَ اَوْسَعُ لِیْ
پھر بھی تیری طرف سے عافیت اور سلامتی میرے لیے زیادہ دلکشا ہے۔
اَعُوْذُبِنُوْرِوَجْہِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ
میں پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے نور کے ساتھ۔ جس
لَہُ الظُّلُمَاتُ
سے تاریکیاں روشن ہوجاتی ہیں۔
وَصَلُحَ عَلَیْہِ اَمْرُالدُّنْیَا وَالْآٰخِرَۃِ
اوردنیا و آخرت کے کام سنور جاتے ہیں۔
مِنْ اَنْ تُنَزِلِ بِیْ غَضَبَکَ
کہ تو نازل کرے اپنا غضب مجھ پر
اَوْ یَحِلَّ عَلَیَّ سَخَطُکَ
اور تو اتارے مجھ پر اپنی ناراضگی
لَکَ الْعُتْبٰی حَتیّٰ تَرْضٰی
میں تیری رضا طلب کرتارہونگا یہاں تک کہ تو راضی ہوجائے۔
وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَاِلَّابِکَ
تیری ذات کے بغیر نہ میرے پاس کوئی طاقت ہے نہ قوت۔
(السیرۃ النبویہ ابن کثیر جلد دوم)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا کہ’’ کیا آپ ﷺپر احد کے دن سے زیادہ سخت دن بھی گزرا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں عائشہ! (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) طائف کا دن‘ اُحد کے دن سے زیادہ سخت تھا۔‘‘
طائف کا واقعہ آج بھی جو کوئی احساس کی آنکھ سے دیکھے تو لرز اٹھتا ہے اور سنگدل سے سنگدل شخص بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ ذرا تصور کریں کہ وجہ کائنات‘ دو جہاں کے سردار اور وحدہٗ لاشریک کے دین حق کا پیغام جہنم میں گرتے اور نفس میں الجھے لوگوں تک پہنچانے پیدل مکہ سے طائف پہنچتے ہیں۔ کوئی ذاتی غرض نہیں‘ کوئی مفاد نہیں‘ اگر ہے تو صرف یہ کہ ۔۔۔۔۔ غم‘ کڑھن‘ درد‘ہمدردی اور دلگدازی۔۔۔۔۔کاش! کسی طرح طائف والے ہدایت کی راہ پر آجائیں اور ہمیشہ کی کامیابی پاجائیں۔ لیکن جوسلوک طائف والوں نے کیا اور اس احسان کا بدلہ جس سفاکانہ انداز میں لوٹایا تصور کرکے ہی دل ٹکڑےہونے لگتا ہے۔ زخموں سے چور اور لہولہان ہونے کے بعد حضور اکرم نبی رحمت رؤف رحیم ﷺ نے جس عاجزانہ‘ والہانہ اور تواضع وانکساری کے ساتھ اپنے مالک کے سامنے اپنے دکھی دل کے ساتھ جو دعا کی۔۔۔۔ وہ دعا کیا تھی؟ جس سے آسمانوں پر کہرام مچ گیا۔ ان لفظوں میں کیسا درد اور اپنی کمزوری کا کیسا اظہار تھا کہ پہاڑوں کا فرشتہ تڑپ کر خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور طائف والوں کو ملیامیٹ کرنے کی اجازت مانگنے لگتا ہے۔ حضورﷺ کی طرف سے جواب میں طائف والوں کیلئے دعائیں کی جاتی ہیں۔ آج بھی یہ نبوی ﷺدعا اپنے اندر وہی کیفیت‘ وہی سوز‘ وہی اظہار کمزوری رکھتی ہے جس سے آسمانوں سے اللہ کی مدد فوراً متوجہ ہوتی ہے۔ قارئین ذرا سوچیں! کیا ہم پر ان سے زیادہ مصائب آتے ہیں یا ہماری مشکلات طائف کے مسافر سے زیادہ ہیں؟ ہم کیوں مایوس ہوکر شکوے کرنے لگتے ہیں۔ آئیے! اس دعا میں چھپے درد کو محسوس کریں اور اسی تواضع اور لجاہِ قلبی اور ٹوٹے دل کے ساتھ مالک کائنات سے مانگیں۔
جو شخص اس دعا کو 11 بار صبح و شام پڑھے گا اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد فوری آئے گی اور مسائل ومشکلا ت حل ہونگے۔
اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضَعْفَ قُوَّتِی
اے اللہ ! میں اپنی طاقت کی ناتوانی
وَ قِلَّۃَ حِیْلَتِیْ
اپنی قوت عمل کی کمی
وَ ھَوَ انِی عَلٰی النَّا سِ
لوگوں کی نگاہوں میں اپنی بے بسی کا شکوہ تیری بارگاہ میں کرتا ہوں۔
یَا اَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ
اے ارحم الراحمین! تو کمزوروں کا رب ہے
وَاَنْتَ رَبِّی
تو میرا بھی رب ہے۔
اِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ
تو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے
اِلٰی بَعِیْدٍ یَتَجَھَّمُنِی
ایسے بعید کے حوالے جو ترش روئی سے میرے ساتھ پیش آتا ہے
اَمْ اِلٰی عَدُوٍّمَلَّکْتَہٗ اَمْرِیْ
کیا کسی دشمن کو تو نے میری قسمت کا مالک بنادیا ہے
اِنْ لّمْ یَکُنْ بِکَ عَلیَّ غَضَبٌ فَلَا اُبَالِیْ
اگر تو مجھ پر ناراض نہ ہو تو مجھے ان تکلیفوں کی ذرا پروا نہیں۔
وَلٰکِنَّ عَافِیَتُکَ ھِیَ اَوْسَعُ لِیْ
پھر بھی تیری طرف سے عافیت اور سلامتی میرے لیے زیادہ دلکشا ہے۔
اَعُوْذُبِنُوْرِوَجْہِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ
میں پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے نور کے ساتھ۔ جس
لَہُ الظُّلُمَاتُ
سے تاریکیاں روشن ہوجاتی ہیں۔
وَصَلُحَ عَلَیْہِ اَمْرُالدُّنْیَا وَالْآٰخِرَۃِ
اوردنیا و آخرت کے کام سنور جاتے ہیں۔
مِنْ اَنْ تُنَزِلِ بِیْ غَضَبَکَ
کہ تو نازل کرے اپنا غضب مجھ پر
اَوْ یَحِلَّ عَلَیَّ سَخَطُکَ
اور تو اتارے مجھ پر اپنی ناراضگی
لَکَ الْعُتْبٰی حَتیّٰ تَرْضٰی
میں تیری رضا طلب کرتارہونگا یہاں تک کہ تو راضی ہوجائے۔
وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَاِلَّابِکَ
تیری ذات کے بغیر نہ میرے پاس کوئی طاقت ہے نہ قوت۔
(السیرۃ النبویہ ابن کثیر جلد دوم)