آنکھوں کو وہ پر کیف نظارے نہیں بھولے
وہ دن جو مدینے میں گزارے نہیں بھولے
بے چین ہے اک بار اٹھے پھر وہی انگلی
مہتاب کو آقا کے اشارے نہیں بھولے
گر جاؤں میں جی چاہے میرا پھر سے بھنور میں
آقا نے دیے تھے جو سہارے نہیں بھولے
اسلام کے گلشن کو بچایا تھا جنہوں نے
کربل کو وہ زہرہ کے دولارے نہیں بھولے
پھر کیے جے کرم یا نبی حسنین کا صدقہ
شہر آپ کا یہ درد کے مارے نہیں بھولے
طیبہ کی حسین رات میں فاروقی ہماری
تقدیر کے چمکے جو ستارے نہیں بھولے