آپ کا بچہ خاندان کا سب سے اہم فرد نہیں ہونا چاہیے

فاخر رضا

محفلین
آپ کا بچہ خاندان کا سب سے اہم فرد نہیں ہونا چاہیے
جون روسمونڈ
نیپلس ڈیلی نیوز، ۱ جنوری ۲۰۱۷

حال ہی میں، میں نے ایک شادی شدہ جوڑے سے، جن کے تین بچے تھے ،پوچھا (وہ بچے ابھی لڑکپن کی عمر میں تھے) مجھے بتائیے کہ آپ کے گھر والوں میں سب سے سب سے زیادہ اہمیت کس کو حاصل ہے ؟ اس بہادر صدی کے تمام عظیم ماں باپ کی طرح انہوں نے جواب دیا: ہمارے بچے
میں نے پوچھا :کیوں آپکے بچوں میں ایسا کیا ہے کہ آپ ان کو یہ مقام عطا کرتے ہیں ،اور اس صدی کے تمام عظیم والدین کی طرح وہ ہمارا جواب دینے سے قاصر تھے (سوائے جذباتی باتوں کے) لہذا ان کی بات کا میں نے ہی جواب دیا۔ میں نے کہا :ایسی کوئی معقول وجہ نہیں ہےجس وجہ سے آپ کے بچے گھر کے سب سے اہم افراد قرار پائیں۔
اس کے بعد میں نے انہیں بتایا کہ ان کے بچوں کے ساتھ اگر تمام نہیں تو زیادہ تر مسائل اسی وجہ سے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ آپ کا خاندان ، آپ کی عائلی زندگی اور آپ کا گھر ان بچوں کی وجہ سے وجود رکھتا ہے ، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ دراصل بچے آپ کی وجہ سے وجود رکھتے ہیں، اور وہ جس طرح سے زندگی گزار رہے ہیں، وہ ایک مستحکم خاندان کی وجہ سے ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ آپ کے بچے والدین کے بغیر نہ اچھا کھا سکتے تھے، نہ خوبصورت کپڑے پہن سکتے تھے ، نہ اتنے اچھے گھر میں رہ سکتے تھے، نہ اپنی چھٹیاں انجوائے کر سکتے تھے۔ آپ کے بغیر ان بچوں کی زندگی جو اس وقت نسبتا بے فکری کی زندگی ہے (باوجودیکہ وہ کبھی ہنگاموں سے باز نہیں آتے) ، پریشانیوں اور ضروریات کا مجموعہ ہوتی۔ یہ اس معاملے کا بنیادی نکتہ ہے۔
میری عمر کے افراد یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ یہ اس معاملے کا بنیادی نکتہ ہے کیونکہ جب ہم بچے تھے تو ہم یہ بات اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ہمارے خاندانوں میں سب سے زیادہ اہمیت ہمارے والدین کو حاصل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے والدین کی عزت کیا کرتے تھے ،اور یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے والدین کی طرف دیکھتے تھے۔ جی ہاں امریکہ میں ایک وہ وقت تھا کہ جب بچے سیکنڈ کلاس شہری ہوتے تھے
ہمارے اوپر یہ بات بھی بہت واضح تھی کہ ہمارے والدین کی شادیاں ان کے ہمارے ساتھ رشتے سے زیادہ اہم تھیں۔ اسی لیے نہ ہم ان کے بستر پر سوتے تھے، نہ ان کی باتوں میں مداخلت کرتے تھے۔ خاندان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا، ہماری اسکول کے بعد کی مصروفیات سے زیادہ اہم ہوتا تھا۔ ہم سے بات کرنے کی نسبت ، امی اور ابو آپس میں بہت زیادہ بات کرتے تھے ۔
چونکہ ہمیں اپنے والدین کی طرف سے بہت اہمیت نہیں ملی، لہذا ہم بہت جلد اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے ۔ آج کل کے بچوں سے بہت پہلے۔
آرمی میں سب سے اہم شخص جرنل ہوتا ہے۔ کسی کو ادارے میں سب سے اہم شخص اس ادارے کا سی ای او ہوتا ہے ۔ کلاس میں سب سے اہم شخص کلاس ٹیچر ہوتا ہے، اور خاندان میں سب سے اہم والدین ہوتے ہیں ۔
بچے کی تربیت میں سب سے اہم عنصر انہیں معاشرے کا ایک ذمہ دار شہری بنانا ہے۔ تربیت کا بنیادی مقصد تمام مضامین میں اے گریڈ لینا ، بہترین کھلاڑی ہونا ، اولمپک کی تیراکی کی ٹیم میں شامل ہونا ، کسی بلند پائے کی یونیورسٹی میں داخلہ لینا یا نیوروسرجن بننا نہیں ہونا چاہیے ۔ تربیت کا بنیادی مقصد معاشرے اور ثقافت کو مضبوط کرنا ہونا چاہیے۔ ہمارا بچہ ہمارے لیے سب سے اہم ہے یہ جملہ آپکے بچے کو بگاڑنے کی طرف پہلا قدم ہے۔ نہ آپ یہ چاہتے ہیں نہ آپکا بچہ( اپنی لاعلمی میں )یہ چاہتا ہے اور نہ ہی امریکا کو اس سے کوئی فائدہ ہوگا۔
(یہ مضمون آج ترجمہ کیا ہے۔ اس ترجمے پر بھی تنقید کیجیئے شکریہ)
 
بالکل متفق۔
پرسوں دفتر میں بھی کچھ اسی سے ملتے جلتے موضوع پر گفتگو ہوئی تھی اور اس میں اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ نہ تو ان میں احساسِ برتری پیدا ہونے دیا جائے اور نہ ہی احساسِ کمتری۔
جو عادت یا کام ان کا اچھا ہو اس پر اس کے مطابق حوصلہ افزائی کی جائے اور جو عادت یا کام غلط یا برا ہو، اس پر مناسب انداز سے سرزنش کی جائے۔ اس کو یہ نہ سکھایا جائے کہ تمھاری سرزنش سے تمھاری سبکی ہوتی ہے۔ ہم میں سے بہت سے والدین یہی سوچ کر دوسروں کے سامنے بچے کو غلطی پر سرزنش نہیں کرتے کہ بچے پر برا اثر پڑے گا۔ جبکہ ایسا نہیں ہے، البتہ سرزنش نہ کرنے سے اس کی تربیت پر برا اثر ضرور پڑے گا۔
بچے کی خوبیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا اور اس لغزشوں سے صرفِ نظر کرنا ہمارے معاشرے میں عام ہوتا جا رہا ہے۔ اور یہی بچے کی تربیت میں خرابی کا آغاز ثابت ہو رہا ہے۔
 

سید عمران

محفلین
بہت اچھا مضمون ہے..
ان شاء اللہ بچوں کے حوالے سے لکھنے کا ارادہ ہے...
لیکن پہلے بڑوں سے تو نمٹ لیا جائے!!!
:terror::terror::terror:
ویسے جب ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور تربیت کے انداز کو دیکھتے ہیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے!!!
 

ابو ہاشم

محفلین
آپ کا بچہ خاندان کا سب سے اہم فرد نہیں ہونا چاہیے
جون روسمونڈ
نیپلس ڈیلی نیوز، ۱ جنوری ۲۰۱۷

حال ہی میں، میں نے ایک شادی شدہ جوڑے سے، جن کے تین بچے تھے ،پوچھا (وہ بچے ابھی لڑکپن کی عمر میں تھے) مجھے بتائیے کہ آپ کے گھر والوں میں سب سے سب سے زیادہ اہمیت کس کو حاصل ہے ؟ اس بہادر صدی کے تمام عظیم ماں باپ کی طرح انہوں نے جواب دیا: ہمارے بچے
میں نے پوچھا :کیوں آپکے بچوں میں ایسا کیا ہے کہ آپ ان کو یہ مقام عطا کرتے ہیں ،اور اس صدی کے تمام عظیم والدین کی طرح وہ ہمارا جواب دینے سے قاصر تھے (سوائے جذباتی باتوں کے) لہذا ان کی بات کا میں نے ہی جواب دیا۔ میں نے کہا :ایسی کوئی معقول وجہ نہیں ہےجس وجہ سے آپ کے بچے گھر کے سب سے اہم افراد قرار پائیں۔
اس کے بعد میں نے انہیں بتایا کہ ان کے بچوں کے ساتھ اگر تمام نہیں تو زیادہ تر مسائل اسی وجہ سے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ آپ کا خاندان ، آپ کی عائلی زندگی اور آپ کا گھر ان بچوں کی وجہ سے وجود رکھتا ہے ، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ دراصل بچے آپ کی وجہ سے وجود رکھتے ہیں، اور وہ جس طرح سے زندگی گزار رہے ہیں، وہ ایک مستحکم خاندان کی وجہ سے ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ آپ کے بچے والدین کے بغیر نہ اچھا کھا سکتے تھے، نہ خوبصورت کپڑے پہن سکتے تھے ، نہ اتنے اچھے گھر میں رہ سکتے تھے، نہ اپنی چھٹیاں انجوائے کر سکتے تھے۔ آپ کے بغیر ان بچوں کی زندگی جو اس وقت نسبتا بے فکری کی زندگی ہے (باوجودیکہ وہ کبھی ہنگاموں سے باز نہیں آتے) ، پریشانیوں اور ضروریات کا مجموعہ ہوتی۔ یہ اس معاملے کا بنیادی نکتہ ہے۔
میری عمر کے افراد یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ یہ اس معاملے کا بنیادی نکتہ ہے کیونکہ جب ہم بچے تھے تو ہم یہ بات اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ہمارے خاندانوں میں سب سے زیادہ اہمیت ہمارے والدین کو حاصل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے والدین کی عزت کیا کرتے تھے ،اور یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے والدین کی طرف دیکھتے تھے۔ جی ہاں امریکہ میں ایک وہ وقت تھا کہ جب بچے سیکنڈ کلاس شہری ہوتے تھے
ہمارے اوپر یہ بات بھی بہت واضح تھی کہ ہمارے والدین کی شادیاں ان کے ہمارے ساتھ رشتے سے زیادہ اہم تھیں۔ اسی لیے نہ ہم ان کے بستر پر سوتے تھے، نہ ان کی باتوں میں مداخلت کرتے تھے۔ خاندان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا، ہماری اسکول کے بعد کی مصروفیات سے زیادہ اہم ہوتا تھا۔ ہم سے بات کرنے کی نسبت ، امی اور ابو آپس میں بہت زیادہ بات کرتے تھے ۔
چونکہ ہمیں اپنے والدین کی طرف سے بہت اہمیت نہیں ملی، لہذا ہم بہت جلد اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے ۔ آج کل کے بچوں سے بہت پہلے۔
آرمی میں سب سے اہم شخص جرنل ہوتا ہے۔ کسی کو ادارے میں سب سے اہم شخص اس ادارے کا سی ای او ہوتا ہے ۔ کلاس میں سب سے اہم شخص کلاس ٹیچر ہوتا ہے، اور خاندان میں سب سے اہم والدین ہوتے ہیں ۔
بچے کی تربیت میں سب سے اہم عنصر انہیں معاشرے کا ایک ذمہ دار شہری بنانا ہے۔ تربیت کا بنیادی مقصد تمام مضامین میں اے گریڈ لینا ، بہترین کھلاڑی ہونا ، اولمپک کی تیراکی کی ٹیم میں شامل ہونا ، کسی بلند پائے کی یونیورسٹی میں داخلہ لینا یا نیوروسرجن بننا نہیں ہونا چاہیے ۔ تربیت کا بنیادی مقصد معاشرے اور ثقافت کو مضبوط کرنا ہونا چاہیے۔ ہمارا بچہ ہمارے لیے سب سے اہم ہے یہ جملہ آپکے بچے کو بگاڑنے کی طرف پہلا قدم ہے۔ نہ آپ یہ چاہتے ہیں نہ آپکا بچہ( اپنی لاعلمی میں )یہ چاہتا ہے اور نہ ہی امریکا کو اس سے کوئی فائدہ ہوگا۔
(یہ مضمون آج ترجمہ کیا ہے۔ اس ترجمے پر بھی تنقید کیجیئے شکریہ)
یعنی بچے کو اس کی اوقات میں رکھا جائے!
اور اس طرح دبا کر رکھنے کے نتائج؟
 

فاخر رضا

محفلین
بچے کا اعتماد ختم ہو جائے گا جو کہ زندگی میں اہم ترین چیزوں میں سے ایک ہے
بچے کو اگر ایک مرتبہ کسی چیز سے منع کریں تو ہمیشہ کریں اور اگر ایک دفعہ ایک چیز کی اجازت دیں تو ہمیشہ دیں. جب تک ہم اپنے آپ کو ڈسپلن نہیں کریں گے تب تک کوئی بھی نہیں کرے گا
دوسرے یہ کہ گھر میں تو آپ اسے پچکار کر رکھ سکتے ہیں مگر وہ ہمیشہ pampered بچہ ہی بنے رہے گا
تیسرے یہ کہ دنیا بڑی ظالم ہے اس میں اعتماد اچھی چیز ہے اور over confidence بہت بری چیز
اعتماد اپنے بچے کو ضرور دیں مگر اسے اسکی حیثیت ضرور بتائیں تاکہ اسے اسکا رول معلوم رہے
 

فرقان احمد

محفلین
اس لڑی میں مثبت انداز میں مکالمہ ہوا۔ صرف اتنی سی گزارش ہے کہ بچوں کے ساتھ شروع سے ایسا معاملہ کیا جائے تو ٹھیک ہے، تاہم، اگر ان کی تربیت میں شروع سے کجی یا کمی رہ گئی ہو تو پھر یہ نسخے کسی قدر ترمیم کے ساتھ آزمائے جائیں۔
 

فاخر رضا

محفلین
یہ بات اہم ہے کہ بچوں سے بات کی جائے، ان سے ان کے مسائل ڈسکس کئے جائیں. ہمارے گھر میں عام طور پر ایک میٹنگ ہوتی ہے جسمیں سب کا ایک ووٹ ہوتا ہے. میں عام طور پر غیر جانبدار رہتا ہوں. باقی پانچ افراد کی ووٹنگ ہوتی ہے. یہ ان معاملات پر ہوتا ہے جن میں فیصلے کا کوئی مثبت اور منفی اثر نہیں ہوتا. مثلاً چھٹیاں گزارنے کہاں جائیں. بجٹ میں پہلے ہی بتا دیتا ہوں
کچھ معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کی جاسکتی مثلاً یہ کہ اب پاکستان واپس جانا ہے اور وہاں ہی رہنا ہے. اس معاملے میں اگر بچوں کے کہنے پر چلے تو کبھی واپس نہیں جاسکتے. لہٰذا اس معاملے میں ان کو سننا پڑے گا. اس طرح انہیں احساس بھی ہوگا کہ گھر میں زیادہ اہمیت کسے حاصل ہے.
 

فاخر رضا

محفلین
کچھ عرصہ پہلے یہ مضمون لکھا تھا سوچا یہاں شیئر کردوں ہوسکتا ہے پہلے بھی کیا ہو مگر لنک نہیں ملا اس لئے دوبارہ لکھ دیا امید ہے بچوں کو معاشرے کا مفید فرد بنانے میں یہ مضمون بھی کام آئے گا

دوستی کیجیے صحت مند رہیے
السلام علیکم

روائتی دوستی میں دوست کو باقاعدہ سنبھالنا پڑتا تھا اور دوستی قائم رکھنے کے لئے کافی پاپڑ بیلنے پڑتے تھے. دوست کا روٹھ جانا ایک مسئلہ ہوتا تھا جس میں والدین تک شامل ہوجاتے تھے اور دوستیاں دوبارہ کراتے تھے. پوری پوری فلمیں اس موضوع پر بنی ہیں.
یہاں میں وہ بنیادی اخلاقی اصول لکھوں گا جن کا ہونا دوستی قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے
آپ دیکھیں گے کہ یہ اصول ایک لڑکپن سے گزرتے فرد کے لئے زندگی گزارنے میں کتنے معاون ثابت ہوتے ہیں
Developmental psychology میں یہ اصول کہیں کہیں ملتے ہیں
Empathy
Thankfulness
Self pity
Forgiveness
اپنے دوست کی ہر ممکن مدد کے لئے تیار ہونا
اپنے دوست کا شکرگزار ہونا
انکساری برتنا اور غرور سے پرہیز
اپنے دوست کی غلطیاں معاف کردینا
ان سب اصولوں کو اگر برتا جائے تو انسان اس معاشرے میں ایک fit انسان اور قابل قدر دوست کی طرح زندگی گزار سکتا ہے
دوست انسان کو بہت سی نفسیاتی بیماریوں سے بچاتے ہیں اور اس کے لئے کوئی بھی قیمت ادا کی جاسکتی ہے
ایک بچے میں یہ خصوصیات خود بخود نہیں آتیں بلکہ اس کے لئے والدین کو بھی محنت کرنا پڑتی ہے
آج جبکہ سوشل میڈیا بچوں کو شدت پسندی، جارہیت، تشدد اور دہشت گردی کی طرف لے جارہا ہے، والدین کی ذمے داری ہے کہ اپنے بچوں کے اچھے دوست بنوائیں اور ان کی دوستی برقرار رکھنے کے لئے ان کی مندرجہ بالا اصولوں کی روشنی میں مدد کریں
اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ دوستی کسی کی فرینڈ ریکویسٹ قبول کرنے اور ناراضگی پر انفرینڈ کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک serious matter ہے
مغرب میں رہنے والوں کو اس بات کا زیادہ اندازہ ہوگا کہ اپنے بچوں کو شدت پسندی سے بچانا کتنا مشکل ہوتا جارہا ہے. اب انہیں دوبارہ اپنے اخلاقی اقدار کی طرف پلٹنا ضروری ہوگیا ہے، اور یہ اصول ان کے لیے ایک اچھا سرمایہ ثابت ہوسکتے ہیں.
ان اصولوں میں ایک اور اضافہ کرلیں اور وہ یہ ہے کہ اپنے بچوں کو self identity اورpurpose of life کی طرف متوجہ کریں. اس طرح جب وہ اپنے دوست بنائیں گے تو یہ ضرور دیکھیں گے کہ کونسا دوست ان کے مقصد زندگی کے حصول کے لیے معاون ہے اور کون نقصان دہ
مذہبی ہونا انسان کو مقصد زندگی فراہم کرتا ہے، اسے اس دنیا کی بے ثباتی کی طرف متوجہ کرتا ہے اور اسے خالق حقیقی کے بنائے ہوئے اصولوں پر زندگی گزارنے پر اکساتا ہے. اپنے بچوں کو مذہب سے متعارف کرائیں تاکہ وہ ان معاملات میں کسی فسادی کے ہتھے نہ چڑھ جائیں. یاد رکھیں ہر شخص کسی نہ کسی عمر میں مذہب کی طرف متوجہ ہوتا ہے مگر صحیح رہنمائی کا فقدان اسے کنفیوز کردیتا ہے
میری کوشش ہوگی کہ ان تمام باتوں پر الگ الگ سیر حاصل گفتگو ہو
 

فاخر رضا

محفلین
میرے خیال میں انسان کے لئے مضر چیزوں میں سے ایک مضر ترین چیز self centered ہونا ہے
ہر انسان اپنی ذات سے محبت کرتا ہے اسی لئے اپنا اور اپنے سے جڑے لوگوں اور اشیاء کا خیال رکھتا ہے. جہاں یہ ایک مفید عمل ہے وہیں اگر یہ حد سے بڑھ جائے تو معاشرے پر برے اثرات کا باعث بنتا ہے. انسان اپنی ذات کو فائدہ پہنچانے کے لئے دوسروں کو نقصان پہنچانے سے بھی باز نہیں آتا
اس کا توڑ یہ ہے کہ اپنے بچوں سے لوگوں کی مدد کرائیے ان کے ہاتھ سے صدقہ خیرات کرائیے
اس طرح وہ نہ صرف خوشی، حقیقی خوشی محسوس کریں گے بلکہ اپنی ذات کے محور سے بھی باہر نکلیں گے
اگر آپ کے پاس پیسے نہ ہوں تو کوئی بات نہیں، بچوں کو ساحل پر لے جائیں اور وہاں سے کوڑا کرکٹ جمع کریں. بالآخر انہیں کسی کی مدد کرنے پر اکسائیں تاکہ وہ معاشرے کا مفید شہری بن سکے
 

شاہد شاہ

محفلین
میرے خیال میں انسان کے لئے مضر چیزوں میں سے ایک مضر ترین چیز self centered ہونا ہے
ہر انسان اپنی ذات سے محبت کرتا ہے اسی لئے اپنا اور اپنے سے جڑے لوگوں اور اشیاء کا خیال رکھتا ہے.
مجھے پاکستان کی صورت حال معلوم نہیں البتہ یہاں مغرب میں اس کے توڑ کیلئے اسکول سے قبل بچوں کو پری اسکول یا نرسری میں جانا لازمی ہوتا ہے۔ یہاں پڑھائی سے زیادہ بچوں کی باہمی سماجی صلاحیتیں تعمیر کی جاتی ہیں تاکہ انکی بنیاد میں میں میں کی بجائے ہم ہم ہم پر ڈھالی جا سکے۔
یوں بچے کھیل کھیل میں ایک دوسرے کیساتھ نیک برتاؤ، اپنی اشیا اور کھلونوں کی شیرنگ وغیرہ سیکھ لیتے ہیں۔ اس طرح آگے اسکول لائف میں دوست بنانے میں آسانی ہوتی ہے اور خود اعتمادی کی کمی کا سامنا نہیں ہوتا۔
 

شاہد شاہ

محفلین
پاکستان کا کیوں نہیں معلوم؟؟؟
ساری عمر تو یہیں پڑھا ہے!!!
حالیہ صورت معلوم نہیں۔ اسکول سے قبل نرسری بھیجنا کتنا عام ہے اور وہاں کیا پڑھایا جاتا ہے؟ بچوں پر تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اسکول سے قبل نرسری میں کچھ عرصہ گزارنے والے بچے اسکول لائف میں زیادہ جلدی اور آسانی سے سیٹ ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ انکی سوشل صلاحیتیں دوسرے بچوں سے بہتر ہوتی ہیں۔ یہ بچے کی ساخت کو پختہ کرنے، اسمیں قوت اعتماد بڑھنے اور مقابلہ کی لگن کیساتھ ساتھ دوسروں کیساتھ مل جل کر کام کرنے کا شوق بھی اجاگر کرتی ہے۔ جو بچے ان سے محروم رہتے ہیں وہ ذہین و فہیم ہونے کے باوجود اسکول اور بعد میں پیشہ ورانہ زندگی میں مختلف سوشل مسائل کا شکار بن سکتے ہیں
 

فاخر رضا

محفلین
پاکستان کا کیوں نہیں معلوم؟؟؟
ساری عمر تو یہیں پڑھا ہے!!!
کیا پاکستان کے مدارس کے بچے معاشرے کی تعمیر میں کردار ادا کرنے کے لئے تیار کیے جارہے ہیں
کیا یہ بچے پڑھ لکھ کر معاشرے کے مفید شہری بن رہے ہیں
کیا ان بچوں کے والدین ان بچوں سے اپنے بڑھاپے میں مستفید ہوتے ہیں
مجھے مدارس کے تعداد اور اس ذریعہ تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد کا کچھ اندازہ ہے، اگر یہ بچے پاکستان کو بہتر پاکستان بنانے میں اپنا کردار ادا کریں تو چند دن میں تبدیلی آسکتی ہے
نارتھ ناظم آباد کراچی میں کم از کم تیس چالیس مدرسے ہوں گے اور ان میں کم از کم تین چار ہزار بچے پڑھ رہے ہوں گے، اگر یہ بچے ایک یوم صفائی منائیں تو پورا نارتھ ناظم آباد ہیرے کی طرح چمکنے لگے گا
ہمیں ہر شخص کو مفید شہری بنانا ہے
آپ کو اس لئے مخاطب کیا کہ آپ اندر کا حال مجھ سے بہتر جانتے ہوں گے
 

سید عمران

محفلین
کیا پاکستان کے مدارس کے بچے معاشرے کی تعمیر میں کردار ادا کرنے کے لئے تیار کیے جارہے ہیں
کیا یہ بچے پڑھ لکھ کر معاشرے کے مفید شہری بن رہے ہیں
کیا ان بچوں کے والدین ان بچوں سے اپنے بڑھاپے میں مستفید ہوتے ہیں
مجھے مدارس کے تعداد اور اس ذریعہ تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد کا کچھ اندازہ ہے، اگر یہ بچے پاکستان کو بہتر پاکستان بنانے میں اپنا کردار ادا کریں تو چند دن میں تبدیلی آسکتی ہے
نارتھ ناظم آباد کراچی میں کم از کم تیس چالیس مدرسے ہوں گے اور ان میں کم از کم تین چار ہزار بچے پڑھ رہے ہوں گے، اگر یہ بچے ایک یوم صفائی منائیں تو پورا نارتھ ناظم آباد ہیرے کی طرح چمکنے لگے گا
ہمیں ہر شخص کو مفید شہری بنانا ہے
آپ کو اس لئے مخاطب کیا کہ آپ اندر کا حال مجھ سے بہتر جانتے ہوں گے
جذبہ اچھا ہے۔۔۔
لیکن مدارس سے کہیں زیادہ تعداد اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کی ہے۔۔۔
شہر صاف کرنا طلباء کا نہیں بلدیہ کا کام ہے۔۔۔
مدارس، اسکول، کالج کا کام تعلیم اور تربیت دونوں دینا ہے۔۔۔
ان اداروں میں تربیت کا تو دور دور تک نام نہیں۔۔۔
اور تعلیم کا جو حال ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔۔۔
ہر شعبہ زوال پذیر ہے!!!
 
Top