موضوع:اولاد کی پرورش و تربیت ایک شرعی نقطہ نظر سے
یہاں ہماری خواہش ہے کہ ان اقوال سے بڑھ کہ کچھ اور نہیں اُمید کرتی ہوں کہ
فاخر رضا میاں جو ہمارے بیٹے رضا کے ہم نام ہیں اور ہمارے لئے رضا جیسے ہیں ضرور پسند کریں
گے
انسان کی تربیت کا آغاز ماں کی گود سے ہوتا ہے جیسا کہ حدیث نبوی ﷺ میں ہے : '' اُطْلِبُوا الْعِلمَ مِن المَھْدِ الٰی اللّحَد‘‘ گود سے گور تک علم حاصل کرو۔
اس کا مطلب ہے کہ ماں کی گود انسان کی سب سے پہلی درسگاہ ہے۔
بے شمار احادیث میں اہل بیت علیہم السلام نے فرمایا ہے کہ بچے کی دینی پرورش کا آغاز نو ماہ سے ہوتا ہے کہ جب وہ ماں کہ جسم کا حصہ ہوتا ہے۔
جیسا کہ بہت سے علماء کی زندگی سے پتہ چلتا ہے کہ دو چیزوں کا ان کی تربیت میں بہت زیادہ اثر تھا: ایک تولد سے قبل ماؤں کا دینی محافل میں شرکت کرنا، قرآن کریم سے انس اور آیات الہی کی باقائدہ تلاوت اور دوسرا تولد کے بعد بچے کو با وضو ہو کر دودھ پلانا۔
اسی طرح رزق حلال نیک اولاد کی پرورش میں نہایت مؤثر ہے۔ اولاد کا نیک ہونے میں والد کے حلال رزق کا بہت اہم کردار ہے.
اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں میں سے ایک نعمت اولاد ہے، اولاد کے حوالے سے والدین کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ان کی تربیت ہے۔ بچے اس ننھے پودے کی مانند ہوتے ہیں
کیونکہ م
ولائےِ کائنات امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «إِنَّمَا قَلْبُ الْحَدَثِ كالْأَرْضِ الْخَالِيةِ مَا أُلْقِي فِيهَا مِنْ شَيءٍ قَبِلَتْهُ فَبَادَرْتُك بِالْأَدَبِ قَبْلَ أَنْ يَقْسُوَ قَلْبُكَ»]؛ ’’بےشک کم سن (بچے) کا دل اس خالی زمین کی مانند ہوتا ہے کہ جس میں جو بیج بھی ڈالا جائے وہ اسے قبول کر لیتی ہے، لہٰذا قبل اس کے کہ تمہارا دل سخت ہو جائے (اور تمہارا ذہن دوسری باتوں میں لگ جائے) میں نے تمہیں (تعلیم دینے اور) ادب سکھانے میں جلدی کی۔‘‘
[ . نہج البلاغہ، الامام علی علیہ السلام، نامہ نمبر۳۱
آپؑ کے اِس کلام سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کہ بچہ دوسری باتوں کی طرف توجہ دے، ابتداء ہی سے اس کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «أَكثَرُ الخَيرِ فِى النِّساءِ»؛ ’’زیادہ خیر اور برکت عورتوں میں ہے۔‘‘
. من لا یحضرہ الفقیہ، محمد ابن علی ابن بابویہ (معروف بہ شیخ صدوقؒ)، ج۳، ص۳۸۵، حدیث۴۳۵۲
امامؑ کے قول سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عورت کسی بھی معاشرے میں موجود افراد کی تربیت کرنے والی ایک اہم شخصیت ہے، اگر ایک نیک خاتون ایک اچھی اولاد کی تربیت کرتی ہے تو وہی افراد کل معاشرے میں جا کر مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں جس کے ذریعے اس معاشرے کی ترقی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ پس کسی بھی معاشرے کی ترقی کا انحصار اِس بات پر ہے کہ معاشرے کی خواتین کس حدّ تک اچھی تربیت کرتی ہیں۔
بچے کی تربیت اسی وقت شروع ہو جاتی ہے جب بچہ ماں کے پیٹ میں پرورش پا رہا ہوتا ہے، ماں کے اچھے کردار، تقویٰ و پرہیزگاری اور دیگر اخلاقی پہلو بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر ماں دورانِ حمل قرآنِ مجید کی تلاوت کرتی ہے یا قرآنِ مجید سنتی ہے تو بہت زیادہ امکان ہے کہ بچہ حافظِ قرآن بن جائے،
جیسے سید محمد حسین طباطبائی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اسی طرح اگر ماں حرام اور حلال غذا کا خیال رکھتی ہے تو اس کا اثر بھی بچے کے اخلاق اور تربیت پر پڑتا ہے۔
ماں کے کردار کی اہمیت کو جب امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اپنی سعادت و خوش قسمتی کی ایک وجہ، اولاد کی تربیت کرنے میں ماں کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’میرے خاندان کی سعادت ایسی ماؤں کی آغوش میں تربیت پانے کی وجہ سے ہے جو حضرت خدیجہ ؑ اور فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا جیسی پاک و پارسا خواتین تھیں۔‘‘
امام خمینی (رح) کی نظر میں عورت انسان کی ہر خوشبختی کا نقطہ آغاز ہے اور عورت کو انسان اور معاشرے کی تربیت کنندہ قرار دیتے ہیں۔ امام خمینی (رہ) کی نگاہ میں عورت کی گود سے عظیم انسان جنم لیتے ہیں اور ہر ملک کی خوش بختی اور بدبختی اس میں موجود خواتین پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر خواتین اپنے بچوں کو صحیح اسلامی تربیت کی بنیاد پر پروان چڑھائیں تو اس کے نتیجے میں ان کا ملک آباد ہوسکتا ہے۔
[صحیفہ امام، جلد ۵، صفحہ ۱۸۵]
- ﺍٓﯾﺖ ﺍللہ ﺍﻟﻌﻈﻤﯽٰ سید روح اللہ الموسوی خمینی رحمتہ اللہ علیہ - مزید فرماتے ہیں کہ
” آپ کی آغوش ایک مدرسہ ہے اور اس میں عظیم جوانوں کی آپ کو پرورش کرنی ہے لہذا آپ کمالات حاصل کیجئے تاکہ آپ کے بچے آپ کی آغوش میں صاحب کمال بن سکیں آپ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں انہیں اسلامی تربیت دیں ، انہیں انسان بنائیں اور مجاہد بنائیں یہ لوگ اسلام کے فرزند ہیں اور اس کے بعد اسلام اور خود آپ کے ملک کی تقدیر ان کے ہاتھ میں ہوگی یہ جو بات کہی گئی ہے کہ مائیں ایک ہاتھ سے گہوارہ جنبانی کرتی ہیں اور دوسرے ہاتھ سے دنیا کو حرکت دیتی ہیں اگر آپ ایک دیندار بچہ معاشرہ کے حوالے کریں گی تو ممکن ہے ایک وقت میں آپ دیکھیں کہ یہی دیندار و پابند مذہب بچہ ایک پورے معاشرے کی اصلاح کردیتا ہے “
"چونکہ ایک بچہ سب سے زیادہ اپنی ماں سے محبت کرتا ہے اور ماں اور بچے کے درمیان پائے جانے والے تعلق سے زیادہ گہرا کوئی تعلق نہیں۔ لہذا بچے سب سے زیادہ اپنی ماوں سے سیکھتے ہیں۔ بچے جس قدر اپنی ماوں سے اثر لیتے ہیں، اتنا اثر نہ باپ سے لیتے ہیں، نہ اپنے ٹیچر سے لیتے ہیں اور نہ ہی اپنے استاد سے لیتے ہیں۔ لہذا آپ بچوں کی اسلامی اور انسانی اصولوں کے مطابق تربیت کریں، تاکہ جب آپ اسے اسکول یا معاشرے کو تحویل دیں تو وہ ایک صحت مند، بااخلاق اور باادب بچہ ہی بنے گا!!!!!