منصور مکرم
محفلین
رات جب تراویح کے بعد میں اسکو رخصت کرنے لگا ،تو اس نے اپنے گھر کی طرف دیکھ کر کہا کہ آج پھر ہماری بجلی خراب ہے،چونکہ رات کافی دیر ہوچکی تھی ،اور علاقہ بھی خاموشی کے سبب ڈراونا منظر پیش کر رہا تھا، اسلئےمیں اسکی بات کو بے توجہی سے سُن کر اپنے گھر چلا گیا۔
رمضان میں رات کو دیر سے سونے اور پھر سحری کیلئے جاگنے کی وجہ سے میں دن کو 11-12 بجے تک سویارہتا ہوں ،اور یہی معمول میرے دوست کا بھی ہے۔لیکن صبح خلاف معمول 9 بجے اسکی کال آئی۔پہلے تو میں حیران ہوا کہ اس وقت اسکا فون کیسے آگیا ،اسی حیرانی میں فون اٹھایا تو دوسری طرف سے دوست بولاکہ ساری رات گرمی کی وجہ سے بے آرامی میں گذری ہے ،اسلئے کہیں روزے کی گرمی کم کرنے کیلئے ٹھنڈک حاصل کرنے جاتے ہیں۔
کافی دنوں سے میرا کہیں صاف پانی میں نہانے کا ارادہ تھا،چنانچہ دوست کو لے کر اٹک جانے کا ارادہ کیا۔ بد قسمتی سے رات کو میں ائے سی آن کرکے سویا تھا جس کی وجہ سے سارا بدن ٹھنڈک کی وجہ سے درد کر رہا تھا،اور فی الحال مزید کسی طریقے سے بدن کو ٹھنڈک دینا نہیں چاہتا تھا۔لیکن میں نے سوچا کہ چلو میں سیر کرلونگا اور میرا ساتھی دریا میں نہا کر اپنے بدن کی گرمی دور کردئے گا۔سو ہم اٹک کی جانب چل پڑئے۔
راستے میں وہی جی ٹی روڈ کی ہریالی اور سرسبز مناظر
نوشھرہ کے قریب پہنچ کر عجیب منظر یہ دیکھا کہ سڑک کنارئے سمندری پنگوئین کا جُھنڈ ہے ۔پینگوئن اور وہ بھی نوشہرہ میں ،ہے نا حیرانی کی بات.
لیکن ابھی رُکئے! تصویر دیکھیں اور خود ہی اندازہ لگائیں کہ کیا واقعی یہ وہی مشہور پنگوئن کی نسل ہی ہے ۔ ۔ ۔
خراماں خراماں چلتے ہوئے ہم ضلع اٹک پہنچ ہی گئے،اور سیدھے جا کر درائے سندھ کے اوپر بنے پل پر گاڑی کو بریک لگائے،اخر یہاں بھی کیمرے نے اپنا کمال تو دِکھانا ہے۔تو آئے دیکھتے ہیں کیمرئے کے کمالات۔ ۔ ۔
اٹک پُل کے قریب مشہور اٹک قلعے کی دور سے ایک جھلک۔
پہاڑ کے دامن میں اور دریائے سندھ کے کنارے خیر آباد گاؤں،جو کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کی حدود میں آتا ہے۔
صوبہ پنجاب کی طرف اٹک پُل کے قریب پکنک پوائینٹ،جہاں لوگ سیر کرنے اور نہانے کیلئے جاتے ہیں۔ہمارا منزل مقصود بھی یہی جگہ ہے۔
دریائے سندھ کے درمیان میں ایک چھوٹا سرسبز جزیرہ۔
چونکہ اٹک کے مقام پر دو دریاؤں کا ملاپ ہوتا ہے یعنی دریائے کابل و دریائے سوات،اور عجیب بات یہ ہے کہ دریائے کابل کا پانی گدلا ہے،جبکہ دریائے سوات کا پانی صاف شفاف اور ٹھنڈا،اگرچہ اس مقام پر دونوں دریا مل جاتے ہیں لیکن انکا پانی پھر بھی اپنےالگ الگ رنگ کے ساتھ بہتا ہے ۔ اس تصویر میں آپ خود بھی دیکھ سکتے ہیں۔اور ساتھ میں دریا کے درمیان میں کھڑے بجلی کے کھمبے کا نظارہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
لو جی ہم اسی پکنک پوائینٹ پر پہنچ گئے۔اس مقام سے اٹک پل کا ایک نظارہ
میرا خیال تھا کہ اس چٹھان پر کھڑا ہوجانے کا تھا لیکن ان پتھروں کی نوکیں کافی تیز ہیں ،اسلئے یہاں ننگے پاؤں کھڑے رہنا ممکن نہ تھا۔
ہاں یہ جگہ مناسب ہے دریا میں اترنے کیلئے۔ ۔ ۔
دریا میں لوگ نہاتے ہوئے اور ٹھنڈے پانی سےلطف اندوز ہوتے ہوئے۔
رمضان میں رات کو دیر سے سونے اور پھر سحری کیلئے جاگنے کی وجہ سے میں دن کو 11-12 بجے تک سویارہتا ہوں ،اور یہی معمول میرے دوست کا بھی ہے۔لیکن صبح خلاف معمول 9 بجے اسکی کال آئی۔پہلے تو میں حیران ہوا کہ اس وقت اسکا فون کیسے آگیا ،اسی حیرانی میں فون اٹھایا تو دوسری طرف سے دوست بولاکہ ساری رات گرمی کی وجہ سے بے آرامی میں گذری ہے ،اسلئے کہیں روزے کی گرمی کم کرنے کیلئے ٹھنڈک حاصل کرنے جاتے ہیں۔
کافی دنوں سے میرا کہیں صاف پانی میں نہانے کا ارادہ تھا،چنانچہ دوست کو لے کر اٹک جانے کا ارادہ کیا۔ بد قسمتی سے رات کو میں ائے سی آن کرکے سویا تھا جس کی وجہ سے سارا بدن ٹھنڈک کی وجہ سے درد کر رہا تھا،اور فی الحال مزید کسی طریقے سے بدن کو ٹھنڈک دینا نہیں چاہتا تھا۔لیکن میں نے سوچا کہ چلو میں سیر کرلونگا اور میرا ساتھی دریا میں نہا کر اپنے بدن کی گرمی دور کردئے گا۔سو ہم اٹک کی جانب چل پڑئے۔
راستے میں وہی جی ٹی روڈ کی ہریالی اور سرسبز مناظر
نوشھرہ کے قریب پہنچ کر عجیب منظر یہ دیکھا کہ سڑک کنارئے سمندری پنگوئین کا جُھنڈ ہے ۔پینگوئن اور وہ بھی نوشہرہ میں ،ہے نا حیرانی کی بات.
لیکن ابھی رُکئے! تصویر دیکھیں اور خود ہی اندازہ لگائیں کہ کیا واقعی یہ وہی مشہور پنگوئن کی نسل ہی ہے ۔ ۔ ۔
خراماں خراماں چلتے ہوئے ہم ضلع اٹک پہنچ ہی گئے،اور سیدھے جا کر درائے سندھ کے اوپر بنے پل پر گاڑی کو بریک لگائے،اخر یہاں بھی کیمرے نے اپنا کمال تو دِکھانا ہے۔تو آئے دیکھتے ہیں کیمرئے کے کمالات۔ ۔ ۔
اٹک پُل کے قریب مشہور اٹک قلعے کی دور سے ایک جھلک۔
پہاڑ کے دامن میں اور دریائے سندھ کے کنارے خیر آباد گاؤں،جو کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کی حدود میں آتا ہے۔
صوبہ پنجاب کی طرف اٹک پُل کے قریب پکنک پوائینٹ،جہاں لوگ سیر کرنے اور نہانے کیلئے جاتے ہیں۔ہمارا منزل مقصود بھی یہی جگہ ہے۔
دریائے سندھ کے درمیان میں ایک چھوٹا سرسبز جزیرہ۔
چونکہ اٹک کے مقام پر دو دریاؤں کا ملاپ ہوتا ہے یعنی دریائے کابل و دریائے سوات،اور عجیب بات یہ ہے کہ دریائے کابل کا پانی گدلا ہے،جبکہ دریائے سوات کا پانی صاف شفاف اور ٹھنڈا،اگرچہ اس مقام پر دونوں دریا مل جاتے ہیں لیکن انکا پانی پھر بھی اپنےالگ الگ رنگ کے ساتھ بہتا ہے ۔ اس تصویر میں آپ خود بھی دیکھ سکتے ہیں۔اور ساتھ میں دریا کے درمیان میں کھڑے بجلی کے کھمبے کا نظارہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
لو جی ہم اسی پکنک پوائینٹ پر پہنچ گئے۔اس مقام سے اٹک پل کا ایک نظارہ
میرا خیال تھا کہ اس چٹھان پر کھڑا ہوجانے کا تھا لیکن ان پتھروں کی نوکیں کافی تیز ہیں ،اسلئے یہاں ننگے پاؤں کھڑے رہنا ممکن نہ تھا۔
ہاں یہ جگہ مناسب ہے دریا میں اترنے کیلئے۔ ۔ ۔
دریا میں لوگ نہاتے ہوئے اور ٹھنڈے پانی سےلطف اندوز ہوتے ہوئے۔