بھلکڑ
لائبریرین
گاؤں کے واحد پرائمری اسکول میں پنجم جماعت میں ہم صرف بارہ لڑکے تھے۔ اکتوبر کا آخری عشرہ تھا ، اور ہمیں چبوترہ بنانے میں کئی روز لگے تھے ۔بڑی جماعت میں ہونے کے باعث ، اساتذہ کے ذاتی چھوٹے موٹے کاموں سے لے کر اسکول کے لئے بھی ہم بڑے جوش سے کام کیا کرتے تھے۔یہ بھی ہیڈ ماسٹر صاحب کے کہنے پر اسکول کے "برائے نام" داخلی دروازے کے دائیں جانب تھوڑا ہٹ کر ہم لوگوں نے "تھڑا" بنا دیا جو کہ بیضوی شکل کا بنا تھا، ایک جانب سے ٹیڑھی میڑھی سیڑھیاں ، اور باقی ہر طرف سے پتلی سی کیاری سے گھیر دیا۔ جس روز ہم یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا چکے تھے، پانچوں اساتذہ کرام بشمول ہیڈ ماسٹر صاحب اور پورے اسکول نے دل کھول کر ہمیں داد دی، اور "ادھی چھُٹی ساری" کردی گئی۔
اس ادھی چُھٹی کی خوشی میں حویلی سے چاچا جی کا سائیکل اُڑا میں اور گلشن سوا چھ میل دُور میلہ دیکھنے پہنچ گئے۔ میلے سے واپسی پر ہمیں رستے میں دو اٹھنیاں ملیں تھی۔
میری اور گلشن کی بہت بنتی تھی، وہ بلا کا خوبصورت تھا۔اپنے سُنہری بال ہمیشہ سرسوں کے تیل میں ڈبو کے ، اسکول آتا ، اس کا گھر گاؤں کے شمال کی جانب گزرنے والی نہر کے اس پاربسنے الی چھوٹی سی آبادی میں تھا۔ گلشن بہت ذہین اور محنتی تھا۔ لیکن اپنے گھر کی وجہ سے اکثر پریشان رہتا تھا۔ اس کے والدین آپس میں حد سے زیادہ جھگڑتے۔ وہ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔
ہم گرمیوں میں اکثر اسکول کم اور نہر میں زیادہ پائے جاتے تھے۔بیر توڑ کر اپنے کپڑے کے سلے ہوئے بستے میں بھرے ۔، 'ٹاٹری ' کے لئے لُون ، مرچ میں نے ہمیشہ چھُپائے ہوتے تھے۔ مگر پکڑے جانے پر چھتر پریڈ بھی خاصی ہوتی۔
اسی سال حکومت نے ہمارے اسکول پر کرم نواز ی کی تھی ، اسکول کے سرمایے میں 5 کرسیوں ، ایک عدد میز اور 8 بینچوں کا اضافہ ہوا تھا۔ خوش قسمتی سے وہ بینچ پنجم جماعت کو عطا ہوئے، اور ہم اسکول کے باقی لڑکوں کے سامنے ان بینچوں پر اکڑ کر بیٹھا کرتے تھے۔ پہلی گھنٹی پرحساب کی باری آتی تھی، جس سے ہم ہمیشہ کوسوں دور بھاگتے۔مگر حساب نے آج تک پیچھا نہیں چھوڑا۔
اس روز گلشن اسکول دیر سے پہنچا ، اور بدقسمتی سے ماسٹر صاحب ٹاہلی کی چھمک ہاتھ میں تھامے ، ہمارے حساب کے اعمال نامے ہمیں تھما رہے تھے ، ٹاہلی ،آج مجھ سمیت تین لوگوں پر چلنی تھی جن میں ایک گلشن تھا ، ماسٹر جی نے اُسے بھی ہمارے ٓ ساتھ ٹھہرایا۔ تھوڑی سی پڑنے کے بعد اپنے سُرخ ہاتھوں کو ملتا میں واپس آکر بینچ پر بیٹھ گیا۔ گلشن کی باری آئی تو ماسٹر جی پوچھنے لگے کہ کیوں دیر سے آئے ہو، وہ خاموش رہا۔ کافی دیر مار کھانے کے بعد بھی وہ کچھ نہیں بولا، ۔ غصے میں ماسٹر جی نے چھڑی کا استعمال ہاتھوں کے علاوہ بھی جہاں جہاں ہو سکا کیا۔
آخر اس کی ہچکیاں بندھ گئیں اور وہ رونے لگا۔ روتے ہوئے ماسٹر جی سے کہنے لگا " ماسٹرجی۔ ۔۔ی ی۔ ی ۔ ابےّ نے اج ۔۔۔بے بے نوں ۔۔بہت ماریا اے ۔۔ تے طلاق طلاق وی کہیا اے۔ ۔ تے بے بے سویر دی کدرے چلی گئی اے۔ "
ماسٹر جی کے ہاتھوں سے چھڑی گڑ پڑی۔
اس ادھی چُھٹی کی خوشی میں حویلی سے چاچا جی کا سائیکل اُڑا میں اور گلشن سوا چھ میل دُور میلہ دیکھنے پہنچ گئے۔ میلے سے واپسی پر ہمیں رستے میں دو اٹھنیاں ملیں تھی۔
میری اور گلشن کی بہت بنتی تھی، وہ بلا کا خوبصورت تھا۔اپنے سُنہری بال ہمیشہ سرسوں کے تیل میں ڈبو کے ، اسکول آتا ، اس کا گھر گاؤں کے شمال کی جانب گزرنے والی نہر کے اس پاربسنے الی چھوٹی سی آبادی میں تھا۔ گلشن بہت ذہین اور محنتی تھا۔ لیکن اپنے گھر کی وجہ سے اکثر پریشان رہتا تھا۔ اس کے والدین آپس میں حد سے زیادہ جھگڑتے۔ وہ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔
ہم گرمیوں میں اکثر اسکول کم اور نہر میں زیادہ پائے جاتے تھے۔بیر توڑ کر اپنے کپڑے کے سلے ہوئے بستے میں بھرے ۔، 'ٹاٹری ' کے لئے لُون ، مرچ میں نے ہمیشہ چھُپائے ہوتے تھے۔ مگر پکڑے جانے پر چھتر پریڈ بھی خاصی ہوتی۔
اسی سال حکومت نے ہمارے اسکول پر کرم نواز ی کی تھی ، اسکول کے سرمایے میں 5 کرسیوں ، ایک عدد میز اور 8 بینچوں کا اضافہ ہوا تھا۔ خوش قسمتی سے وہ بینچ پنجم جماعت کو عطا ہوئے، اور ہم اسکول کے باقی لڑکوں کے سامنے ان بینچوں پر اکڑ کر بیٹھا کرتے تھے۔ پہلی گھنٹی پرحساب کی باری آتی تھی، جس سے ہم ہمیشہ کوسوں دور بھاگتے۔مگر حساب نے آج تک پیچھا نہیں چھوڑا۔
اس روز گلشن اسکول دیر سے پہنچا ، اور بدقسمتی سے ماسٹر صاحب ٹاہلی کی چھمک ہاتھ میں تھامے ، ہمارے حساب کے اعمال نامے ہمیں تھما رہے تھے ، ٹاہلی ،آج مجھ سمیت تین لوگوں پر چلنی تھی جن میں ایک گلشن تھا ، ماسٹر جی نے اُسے بھی ہمارے ٓ ساتھ ٹھہرایا۔ تھوڑی سی پڑنے کے بعد اپنے سُرخ ہاتھوں کو ملتا میں واپس آکر بینچ پر بیٹھ گیا۔ گلشن کی باری آئی تو ماسٹر جی پوچھنے لگے کہ کیوں دیر سے آئے ہو، وہ خاموش رہا۔ کافی دیر مار کھانے کے بعد بھی وہ کچھ نہیں بولا، ۔ غصے میں ماسٹر جی نے چھڑی کا استعمال ہاتھوں کے علاوہ بھی جہاں جہاں ہو سکا کیا۔
آخر اس کی ہچکیاں بندھ گئیں اور وہ رونے لگا۔ روتے ہوئے ماسٹر جی سے کہنے لگا " ماسٹرجی۔ ۔۔ی ی۔ ی ۔ ابےّ نے اج ۔۔۔بے بے نوں ۔۔بہت ماریا اے ۔۔ تے طلاق طلاق وی کہیا اے۔ ۔ تے بے بے سویر دی کدرے چلی گئی اے۔ "
ماسٹر جی کے ہاتھوں سے چھڑی گڑ پڑی۔
آخری تدوین: