اٹھو! مری دنیا کے غریبوں کو جگادو

نظام الدین

محفلین
فرمان خدا

(فرشتوں سے)
)بال جبرئیل(
علامہ اقبال

اٹھو! مری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخِ امرا کے در و دیوار ہلادو
گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے
کنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے، مٹادو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلادو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھادو
حق را بسجودے، صنماں را بطوافے
بہتر ہے چراغِ حرم و دیر بجھادو
میں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے
میرے لئے مٹی کا حرم اور بنادو
تہذیبِ نوی کارگہِ شیشہ گراں ہے
آدابِ جنوں شاعرِ مشرق کو سکھادو!​
 
Top