اپر دیر میں دھماکہ، میجر جنرل سمیت 3 ہلاک

130915100747_sanaullah-4.jpg

میجر جنرل ثناء اللہ کئی دن سے اس علاقے میں موجود تھے: آئی ایس پی آر
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع اپر دیر میں ہونے والے ایک دھماکے میں پاکستانی فوج کے ایک میجر جنرل سمیت دو افسران اور ایک اہلکار ہلاک ہوگئے ہیں۔
پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے مطابق یہ دھماکہ اتوار کو افغان سرحد سے منسلک علاقے بن شاہی میں ہوا۔
پاکستانی فوج کے مطابق ہلاک ہونے والے افسران میں سے میجر جنرل ثناء اللہ کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے تھا اور وہ سوات اور ملاکنڈ ڈویژن میں تعینات فوج کے جنرل آفیسر کمانڈنگ تھے جبکہ ان کے ساتھ ہلاک ہونے لیفٹیننٹ کرنل توصیف 33 بلوچ رجمنٹ کے کمانڈنگ افسر تھے۔مرنے والے تیسرے فوجی کا نام لانس نائیک عمران بتایا گیا ہے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ کے مطابق میجر جنرل ثناء اللہ کچھ دن سے اس علاقے کے دورے پر تھے اور آج وہ پاک افغان سرحد پر چیک پوسٹ کا دورہ کر کے واپس آ رہے تھے کہ ان کی گاڑی سڑک کنارے نصب دھماکہ خیز مواد کا نشانہ بنی۔
ن کے مطابق اس حملے میں دو فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں جنہیں علاج کے لیے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
ترجمان کے مطابق تیس برس قبل پاکستانی فوج میں کمیشن حاصل کرنے والے میجر جنرل ثناء اللہ نے سوگوراوں میں بیوہ اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔
تحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
خیال رہے کہ اپر دیر میں اس سے پہلے بھی شدت پسندی کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں، جن میں سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔
ستمبر 2011 میں اسی ضلع میں تحصیل براول کے علاقے میں اس وقت کے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل جاوید اقبال سوات کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ بھی ہوئی تھی جس سے وہ زخمی ہوگئے تھے۔ پاکستانی طالبان نے اُس حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔
یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب سنیچر کو ہی صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے سوات اور ملاکنڈ ڈویژن سے فوج کی بتدریج واپسی کی اصولی طور پر منظوری دی ہے۔
اس سے قبل گزشتہ پیر کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔
اس معاملے پر صحافی اور تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسفزئی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اتوار کے حملے کا تعلق سوات اور مالاکنڈ ڈویژن سے ہے اور یہاں مولانا فضل اللہ کا گروپ سرگرم ہے جو کہ کالعدم تحریک طالبان کی ایک شاخ ہے اور اس گروپ سے کسی کا رابطہ نہیں ہوا اور یہ گروہ بات چیت میں شامل بھی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ حملہ مکمل منصوبہ بندی سے کیا گیا اور فضل اللہ گروپ بات چیت کی اس فضا میں اپنی اہمیت اور طاقت دکھانا چاہتا ہے کہ وہ پہلے بھی حملے کر چکے ہیں اور آئندہ بھی اس طرح کے حملے کر سکتے ہیں،
ربط
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/09/130915_upper_dir_blast_rh.shtml
 

x boy

محفلین
یہ کیا بی بی سی بھی ٹی ٹی پی کا نمائندہ پاکستان ہے ہر چیز کا پہلے ہی سے خبر رکھتا ہے
جبکہ میرے خیال کے مطابق مذاکرات نہ ہونے سے جس کو فائدہ ہونا ہے اس نے کروایا ہوگا۔
جیسے اسرائیل، امریکہ ، انڈیا، یوروپین یونین اور ان کے الائنس۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


۱۵ ستمبر کے حملہ کے حوالے سے تعزیتی پیغام

اسلام آباد ( ۱۶ستمبر ۲۰۱۳ء)___ امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے امریکہ کے عوام کی جانب سے میجر جنرل ثنااللہ نیازی، جن سےسفیر کوذاتی طور پر ملاقات کرنے کا اعزاز حاصل ہے ، لیفٹیننٹ کرنل توصیف اور لانس نائیک عرفان ستار کی شہادت پردلی تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے عوام اور فوج کی قربانیوں کا معترف ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://s13.postimg.org/x6s2maxo7/Urdu_syria.jpg
 

کاشفی

محفلین
منافقوں کے ہمدرد اور مظلوموں کے دشمن کہاں غائب ہیں۔۔وہ کچھ کیوں نہیں کہہ رہے۔
یہ فوجی انڈین بارڈر پر نہیں شہید ہوئے۔۔انہیں منافقوں کی جماعت جس سے منافق ہمدردی رکھتے ہیں اور ان کی مذمت نہیں کرتے۔۔انہوں نے مارا ہے۔۔۔
کچھ تو بولو۔۔آئیں بائیں شائیں نہیں کرو۔۔ پاکستانی پاسپورٹ کا ہی کچھ خیال کرلو۔۔ کچھ پاکستانی مرے ہیں جو فرسٹ کلاس سیٹیزن بھی ہیں۔۔کچھ بولو ان سے ہمدردی کے دو بول خدارا۔
مناقوں سے ہمدردی کے چکر میں اپنے لوگوں کو مت بھولو۔۔۔ منافقت کی اعلٰی مثالیں مت قائم کرو۔۔

اللہ رب العزت شہید ہونے والوں کے درجات بلند فرمائے۔۔۔انہیں جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے۔۔آمین
ان کو شہید کرنے والوں کو جہنم رسید کرے۔۔آمین اور منافقوں سے ہمدردی رکھنے والوں کو حق بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔اور وہ حق پر آئیں۔۔آمین
 

Fawad -

محفلین
یہ کیا بی بی سی بھی ٹی ٹی پی کا نمائندہ پاکستان ہے ہر چیز کا پہلے ہی سے خبر رکھتا ہے
جبکہ میرے خیال کے مطابق مذاکرات نہ ہونے سے جس کو فائدہ ہونا ہے اس نے کروایا ہوگا۔
جیسے اسرائیل، امریکہ ، انڈیا، یوروپین یونین اور ان کے الائنس۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


میرا آپ سے سوال ہے کہ کيا يہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان ميں دہشت گرد تنظيموں کی جانب سے پاکستان کی افواج، قانون نافذ کرنے والے اداروں يا عام شہريوں کو ہلاک کر کے نا صرف يہ کہ ذمہ داری قبول کی گئ بلکہ اپنی "عظيم کاميابی" پر فتح کے ڈونگرے بھی بجائے گئے۔ اگر آپ حاليہ سانحے کو استعمال کر کے اپنی کھوکھلی دليل کو تقويت دينا چاہتے ہيں اور اس واقعے کو "غير ملکی سازش" قرار دينے پر بضد ہيں تو پھر آپ ان ہزاروں پاکستانی فوجيوں اور بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کی کيا توجيہہ پيش کريں گے جو ان مجرموں کے ہاتھوں گزشتہ ايک دہائ کے دوران لقہ اجل بنے؟

امريکہ کو ايسے کسی امن مذاکرات" کو سبو تاز کرنے کی کوئ ضرورت نہيں ہے جو دہشت گردی کی اس لہر کو روک سکيں جس کا شکار صرف پاکستانی ہی نہيں بلکہ دنيا بھر ميں بے گناہ شہری ہو رہے ہيں۔ ليکن ديرپا امن صرف اسی صورت ميں ممکن ہے جب مجرموں کا تعاقب کيا جائے نا کہ ان سے مذاکرات کر کے اور ان کے مطالبات کو تسليم کر کے ان کے اقدامات کو قانونی تحفظ فراہم کيا جائے۔ انسانی تاريخ کے ارتقاء ہی سے ايک فعال نظام انصاف کے لیے يہی بنيادی اصول رہا ہے۔


ايسے فريقين جو ايک تسلیم شدہ قانونی اور سياسی فريم ورک کے اندر رہتے ہوئے ايسے تنازعات کے حل کے ليے امن مذاکرات اور معاہدے کريں جو سياسی نوعيت کے ہوں تو يقينی طور پر ايسے مذاکراتی عمل ميں کوئ مظائقہ نہيں ہے۔


ليکن يہاں پر بات ايک ايسے گروہ کی ہو رہی ہے جسے حکومت پاکستان تمام تر ثبوتوں کے ساتھ دہشت گرد تسليم کر چکی ہے۔ ايک طرف تو کچھ رائے دہندگان فورمز پر امريکہ کو اس بنياد پر ہدف تنقید بناتے ہيں کيونکہ ان کی دانست ميں ہماری پاليسيوں اور اقدامات کی بدولت انسانی جانوں کا زياں ہوا ہے۔ ليکن دوسری جانب دہشت گردی ميں ملوث طالبان اور القائدہ کے ان عناصر سے "امن مذاکرات" کو خوش آئند قرار ديتے ہيں جنھوں نے اپنی واضح کردہ پاليسی اور ايجنڈے کے مطابق ہزاروں کی تعداد ميں بے گناہ شہريوں کو ہلاک کيا ہے۔ ياد رہے کہ يہ وہی دہشت گرد گروپ ہيں جو پچھلے کئ برسوں سے پاکستان کے ہر شہر ميں بے گناہ شہريوں کو بغير کسی تفريق کے قتل کر رہے ہيں۔


اگر بحث کے ليے يہ دليل مان بھی لی جائے کہ اس امن معاہدے کے بعد انصاف اور امن و امان کا بول بالا ہو جائے گا تو سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ کيا انصاف ان لوگوں کے دروازوں تک بھی پہنچے گا جن کے عزيزوں کو اس "مقدس جدوجہد" کے نام پر بے رحم طريقے سے قتل کيا گيا۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ جن مجرموں نے مقامی آبادی کو دہشت زدہ کيے رکھا اب اپنے آپ کو قانون کے حوالے کر کے انصاف کے کٹہرے ميں پيش ہونے کے ليے رضامند ہو جائيں گے؟ حقيقت يہ ہے کہ ان دہشت گردوں نے برملا اس بات کا اظہار کيا ہے کہ جمہوريت خلاف مذہب ہے اور اپنے نظريات اور مخصوص نظام کو دنيا بھر ميں نافذ کرنے کے ليے اپنی جدوجہد جاری رکھيں گے۔

اس ميں کوئ شک نہيں کہ امن اور انصاف کا قيام سب سے اہم ترجيح ہے ليکن اس کی حقيقی اساس مجرموں کو انصاف کو کٹہرے ميں لانے ميں مضمر ہے نا کہ پچھلے تمام جرائم پر "سب بھول جاؤ اور معاف کر دو" کے اصول کے مصداق پردہ ڈال کر انھی مجرموں کو مزيد اختيار دے ديا جائے صرف اس غير حقيقی اميد پر کہ اس سے علاقے ميں ديرپا امن قائم ہو جائے گا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
Top