استاد محترم
الف عین
آپ کی اصلاح کی روشنی میں اس غزل کی یہ خوبصورت شکل نکل کر سامنے آئی ہیں جس کے لیے میں ممنون و مشکور ہوں ۔ ۔
کچھ بھی ہم سے نہ کام ہوتا ہے
اپنا دن یوں تمام ہوتا ہے
لغزشیں ہر قدم پہ ہوتی ہیں
جب یہ دل بے لگام ہوتا ہے
جب بھی فرصت ہو ہم کو دنیا سے
اپنے گھر میں قیام ہوتا ہے
دشتِ الفت کو ہم چلے اب تو
دیکھیے کتنا نام ہوتا ہے
اپنی ہر ایک ادا سے بس ان کے
قتل کا اہتمام ہوتا ہے
ہم سے جب وہ کلام کرتے ہیں
کام سے ان کو کام ہوتا ہے
سب سے ملتے ہیں وہ ادا کے ساتھ
ہم کو رسماً سلام ہوتا ہے
کون ہوتا ہے جو نہیں ہوتا
جب وہ بالائے بام ہوتا ہے
رقص کرتی ہے خامشی ہر سو
جب وہ محو کلام ہوتا ہے
ان سے ملتے ہیں خستہ حال کے ساتھ
بس یہی اہتمام ہوتا ہے
ہم انہیں دیکھ کر بکھرتے ہیں
اک یہی ہم سے کام ہوتا ہے
منتظر ہم ہیں کاٹ کے بن باس
کب یہ دل ان کا رام ہوتا ہے