ساقی۔ بھیا آپ کے مراسلہ کو دیکھنے کے بعد میرے ایک دوست کا خط یاد آیا جو اس نے مجھے آج سے تقریبا چار سال قبل لکھا تھا ،پرانی فائلیں کھنگالنا شروع کیا تو اتفاق سے مل بھی گیا ۔اس امید سے کہ یہاں ٹائپ کر دینے سے یہ محفوظ بھی ہو جائے گا اور آپ کو آپ کا جواب بھی مل جائے گا میں من و عن یہاں اسے نقل کر رہا رہا ہوں ۔ایک بات اور بتا دوں اتفاق سے یہ خط متحدہ عرب امارات لکھا گیا ہے جہاں آپ جانے والے ہیں ۔ہماری نیک دعائیں اور تمنائیں آپ کے ساتھ۔دعا میں ناچیز کو بھی یاد رکھئے گا ۔
بھائی علم اللہ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
امید کہ بخیر ہوگے ،اللہ تعالی سے اسی کی توق ہے ،میں بھی ٹھیک ہوں اور اپنے مستقبل کے تئیں ذرا فکر مند بھی ۔
تمہارا میل ملا پڑھ کر خوشی ہوئی اور یہ سن کر خوشی دوبالا ہو گئی کہ جامعہ میں تمہارا ایڈمیشن ہو گیا ،چلو اللہ تعالی اسی طرح تمہیں زندگی کے ہر میدان پر ترقی عطا کرتا رہے اور اپنے رحم و کرم سے نوازتا رہے ۔
ویسے تمہارا میل تو مجھے بہت پہلے مل گیا تھا لیکن میں نے سوچا کہ ابھی کیا کہوں گا تم سے ۔سوچا تھا جب ملازمت مل جائے گی تو میل لکھوں گا اور خوش خبری بھی سناوں گا لیکن اپنے چاہنے نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے ۔
ویسے تو دیکھنے میں بالکل ٹھیک ہوں ۔لیکن میں ہی جانتا ہوں میں کتنا پریشان ہوں ،ایک تو فائنل ایر کا نتیجہ کیا ہوگا اس کی فکر مندی اور دوسرا اگر ملازمت مل جائے گی تو وہ لوگ سرٹیفیکٹ کا مطالبہ کریں گے تو کیا کہوں گا ؟کچھ دوستوں سے بچھڑنے کا غم اور کچھ احباب کا اور جب یہ تمام چیزیں یکجا ہو جاتی ہیں تو دل یہ کہ اٹھتا ہے ۔
چلو اپنے احباب کی طرف لوٹ چلو یارو
سکون دل تھا وہیں ،جہاں ہم تھے
علم اللہ !آدمی سکون کی تلاش میں کتنا ہی دور کیوں نہ نکل جائے آخر کار لوٹ کر واپس اپنے احباب کے طرف ہی آتا ہے اور پرانے دنوں کو سوچ کر اور اپنے اس بچپنے کی زندگی کو یاد کر کے ذرا خوش ہو لیتا ہے لیکن پھر وہی شام ۔وہی رات وہی تنہائی ہے ۔حالانکہ مجھے یہاں آنے سے پہلے یہ معلوم تھا کہ پردیس میں لوگوں کا کیا حال ہوتا ہے میں ان لوگوں میں سے ہوں جو دوسروں کی زندگی کو دیکھ کر سبق حاصل کرتے ہیں اسی وجہ سے جب کوئی یہاں سے ہندوستان جاتا تھا تو میں کوئی سوال کروں یا نہ کروں یہ ضرور پوچھتا تھا کہ وہاں کیسا لگتا ہے تاکہ اس کے دلی کیفیات کا اندازہ ہو جائے اور سو فیصد یہی نتیجہ نکلتا تھا کہ وہاں پہ سب کچھ ہے لیکن سکون نہیں ہے اور آج میں اس کا آنکھوں سے تجربہ کر رہا ہوں ،ہاں ! اگر سکون پیسے کو کہتے ہیں تو یقینا سکون یہاں حاصل ہے ،لیکن میں ہمیشہ سے اس کا مخالف رہا ہوں ۔میں یہ نہیں کہتا کہ پیسے کے بغیر آدمی خوش رہتا ہے ،پیسہ بھی ایک ضروری جز ہے خوشی کے لئے لیکن کل جز اسی کو سمجھ لینا کہاں کی عقلمندی ہے ۔
یار علم اللہ !حقیقت میں آرام کس کو کہتے ہیں یہ وہی شخص بتا سکتا ہے جو رات کے تنہائی میں چھپر کے نیچے کھٹیے پر لیٹا ہوا ہو اور باتش کی بوندیں کانوں میں رس گھول رہی ہوں ۔حقیقت میں سکون وہیں ہے اور زندگی کا اصل مزا اسی میں ہے کہ احباب آنکھوں کے سامنے ہوں ۔
میں یہ سب کیوں لکھ رہا ہوں مجھے خود نہیں معلوم ۔میں نے آج تک اپنی پریشانیوں کو کسی سے نہیں بانٹا ہے لیکن تم نے میل میں یہ لکھ کر کہ "لگتا ہے تم وہاں پر بہت زیادہ پریشان ہو"میری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا اور اس کے علاوہ تم میں ایک الگ سی اپنائیت ہے ۔حالانکہ رضوان مجھ سے اتنا زیادہ قریب ہے لیکن میں اس سے بھی اپنے حالات و کیفیات کو بیان نہیں کرتا ۔
زندگی خود بھی پشیماں ہے مجھے لا کہ یہاں
سوچتی ہے کوئی حیلہ مرے مر جانے کا
خیر ان بکھرے بکھرے الفاظ سے میرے دلی کیفیات کا اندازہ ہو سکتا ہے ۔اپنا خیال رکھنا اور پڑھائی میں دھیان دینا تم سے بہتوں کی امیدیں وابستہ ہے اور ان میں سے میں بھی ایک ہوں ۔اور ہاں خط پڑھ کر یہ بھول جانا کہ میں نے یہ سب کچھ لکھا ہے کسی سے ذکر کی ضرورت نہیں ۔حالانکہ یہ میرا شیوہ نہیں تھا میں تو" آنکھوں میں نمی لبوں پہ ہنسی " کا مصداق تھا ۔
والسلام
تمہارا دوست
عارف