سحر کائنات
محفلین
تحریر : سحر شعیل
ایک سرکاری دفتر میں گزشتہ ہفتے بار بار جانے کا اتفاق ہوا ۔اس اتفاق کو حسین اتفاق ہرگز نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ سرکاری دفاتر اور وہاں عوام الناس کے ساتھ رویے ہم سب جانتے ہیں۔بہرحال بار بار جانے اور انتظار گاہ میں دیر تک بیٹھنے سے بہت کچھ بغور دیکھا اوریوں نئے کالم کے لیے ایک عمدہ مواد بھی مل گیا۔
لفظوں کی اہمیت سے کسی طور انکار ممکن نہیں ہے۔یہ ہمارے تخیل کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ہماری سوچ کو بیان کرتے ہیں۔لفظ تعلقات کا راستہ ہیں اور انہی کے ذریعے ہم اپنے احساسات ،جذبات ،علم اور تجربات دوسروں تک پہنچاتے ہیں ۔انسان کی شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں۔لفظ دلوں کے قفل کھولتے ہیں۔احساسات کے اظہار کا ذریعہ بنتے ہیں۔لفظ بہت طاقت رکھتے ہیں ۔لفظ زنجیر بن کر پیروں کی بیڑیاں بھی بن جاتے ہیں۔لفظوں سے ہی تحریکیں چلتی ہیں۔لفظ ہی انقلاب لاتے ہیں ۔ لفظ ہی ہیں جو روح کر جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں اور خواب غفلت سے بیدار کرتے ہیں۔تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ تحریکِ انقلاب ِ فرانس کی بنیاد ان تین الفاظ پر رکھی گئی آزادی،مساوات،اخوت(Liberty, Equality,Fraternity)۔یہ تین الفاظ تحریکِ انقلاب ِ فرانس کا نعرہ بنے اور انقلاب کا پیش خیمہ بھی۔
یہاں ایک اور بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جہاں لفظ اہمیت رکھتے ہیں وہیں لہجے بھی کم اہم نہیں ہیں۔اگر دیکھا جائے تو بہترین الفاظ کا چناؤ اور دل نشیں لہجہ مل کر انسان کی شخصیت کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں ۔
لفظوں کا وجود لہجے سے ہے۔ہم عام سے الفاظ کو بھی بہترین اندازِ بیان سے ادا کریں گے تو وہ سننے والوں پر اپنی چھاپ چھوڑ جائیں گے۔اگر لفظ زندگی ہیں تو لہجہ روح ہے اور روح کے بغیر زندگی کا وجود ممکن نہیں۔الفاظ اور لہجے کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔انسان جب اچھے الفاظ کا انتخاب کرتا ہے اور انہیں دل کو موہ لینے والے لہجے میں ادا کرتا ہے تو سامع پر ان کا اثر بہت گہرا ہوتا ہے۔عمدہ لب و لہجہ سخت سے سخت الفاظ کی کڑواہٹ کو کم کر دیتا ہےاور نرم ترین الفاظ بھی سخت لہجے کی بدولت اپنی چاشنی کھو دیتے ہیں۔ حالی نے کیا خوب کہا ہے
جہاں رام ہوتا ہے میٹھی زباں سے
نہیں لگتی کچھ اس میں دولت زیادہ
ایک مشہور کہاوت ہے کہ زبان شیریں۔۔۔۔۔۔ملک گیری
یعنی میٹھی زبان سے دلوں کی سلطنت فتح ہوتی ہےاور یہ بات سو فیصد درست ہے۔میٹھے لہجے اور مناسب الفاظ کا درست استعمال دیرپا اثر رکھتا ہے۔اس کی بہترین مثال خود آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قائم کی۔عرب جیسی گنوار قوم کو اپنے حسنِ بیان سے فتح کیا۔قرآن کریم میں اس کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ
اے نبی اگر آپ ان سے ترش لہجے میں بات کرتے تو یہ کبھی آپ کے قریب نا آتےاور آپ سے بھاگ جاتے۔
یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےعمدہ اخلاق کی بدولت ہی ممکن ہو کہ ایک دن سارا عرب اسلام کے زیرِ سایہ آ گیا ۔
واقعہ مشہور ہے کہ
سقراط کے سامنے ایک آدمی نہایت خوبرو.. اعلی پوشاک... کمال حلیہ... اٹھلاتاہوا آیا...تو سقراط بولا
”کچھ بولیے تاکہ آپ کی قابلیت کا معلوم ہو “
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لفظوں کی ادائیگی شخصیت کے اظہار کا اصل ذریعہ ہے ۔صحیح موقع پر درست الفاظ کا انتخاب اور پر تاثیر لہجہ شخصیت کو چا ر چاند لگا دیتا ہے۔ایک عام جملہ جو اکثر سنا جاتا ہےکہ فلاں پر نصیحت اثر نہیں کر رہی تو یہاں بھی شاید لفظوں سے زیادہ لہجہ اہمیت رکھتاہے۔نصیحت کو پر اثر بنانے کے لیے لفظوں کے ساتھ ساتھ دل میں اتر جانے والا لہجہ بھی چاہیے۔احمد فراز کا یہ رومانی شعر اس چیز کی عکاسی کرتا ہے کہ لہجے کتنے تکلیف دہ ہوتے ہیں اور ان کا درد لفظوں سے زیادہ ہوتا ہے۔
وہ جس گھمنڈ سے بچھڑا گِلہ تو اس کا ہے
کہ ساری بات محبت میں رکھ رکھاؤ کی تھی
اصل مدعا کی طرف آتے ہیں ۔چند جملے جو ہمارے دفاتر میں اکثر و بیشتر بولے جاتے ہیں ۔جیسے کہ یہاں بیٹھ جاؤ ، اپنی باری کا انتظار کرو، اپنے امی ابو کا نام بتاؤ ، میں کہتا ہوں یہ کام یوں کرو، لائن میں کھڑے رہو،میں کیا کروں اگر تنگ ہو رہے ہو،مجھے نہیں پتہ کام کب ہو گا،جب کام ہو جائے گا بتا دیں گے،چپ کر کے کھڑے رہو،وغیرہ وغیرہ
اگر ہم اپنے دفاتر میں ان جملوں کو بدل دیں اور دوسرے کو عزت دینے والے لہجے میں کچھ یوں بولیں۔یہاں تشریف رکھیے،براہِ مہربانی اپنی باری کا انتظار کیجیے۔اپنے والد اور والدہ کا نام بتائیے ۔میری رائے میں یہ کام ایسے ہو سکتا،براہِ مہربانی زحمت سے بچنے کے لئے قطار بنائیے،معذرت خواہ ہوں آپ کو زحمت اٹھانی پڑی، سوری کچھ کہہ نہیں سکتے آپ کا کام کب تک ہو گا،جیسے ہی آپ کا کام ہو گا آپ کو مطلع کر دیا جائے گا پریشان نہ ہوں،براہِ مہربانی غیر ضروری گفتگو سے پرہیز کیجیے۔وغیرہ وغیرہ
یہ عام استعمال کے جملے ہیں اور یقین مانیے نرم لہجے میں بات کی جائے تو سخت سے سخت الفاظ بھی اپنا اثر زائل کر دیتے ہیں۔حقیقت میں صورتِ حال یہ ہوتی ہے کہ آپ کسی بھی محکمے میں کسی بھی کام سے جاتے ہیں تو رویوں کی سختی دل برداشتہ کر دیتی ہے۔افسرانِ بالا تک رسائی ممکن نہیں ہوتی اور باقی تمام تر افسران ناقابلِ برداشت رویہ رکھتے ہیں۔دفتروں کے چکر لگوائے جاتے ہیں۔ان پڑھ لوگوں کو مناسب رہنمائی نہیں ملتی لہذا ان کے کام لٹک جاتے ہیں۔
میرا مقصد کسی ادارے یا اس کے ملازمین کی خامیاں اچھالنا نہیں ہے ۔صرف یہ احساس دلانا ہے کہ اگر ہر ادارے کے اہلکاروں کی پیشہ ورانہ تربیت کی جائے کہ وہ لوگوں سے کس قسم کا رویہ رکھیں گے۔مناسب الفاظ،دھیما لہجہ ،نرم رویہ اور چہرے پر ایک تبسم ۔ان تمام لوازمات کے ساتھ اگر بات کی جائے تو سننے والے پر اس کا اثر دو گنا ہو گا۔عوام کااعتماد بڑھے گا اور معاشرے میں الجھاؤ ،نفسا نفسی اور ذاتی مفادات جیسی بیماریوں کا خاتمہ ہو گا۔
ویسے بھی تمام تر اداروں کے ملازمین درجہ چہارم سے لے کر اعلیٰ عہدوں تک سب عوام کے خادم ہیں اور ان کی ملازمت کا مقصد عوام الناس کی خدمت ہے۔اس لیے انہیں اس مقصد کو ہمیشہ ذہن نشین رکھنا چاہیے۔
بقول ظفر امام
بات پہنچے سماعت کو تاثیر دے کس طرح
لفظ ہیں اور لفظوں میں زور بیانی نہیں
یہ عنوان دفاتر اور ان کے ملازمین تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ روز مرّہ زندگی میں اور عام بول چال میں بھی اس کا بڑا دخل ہے۔کچھ جادوئی الفاظ جیسے کہ شکریہ،براہِ مہربانی،جزاک اللہ،معاف کیجیے گا وغیرہ وغیرہ ۔اگر ہم کھا لو کی جگہ کھا لیجیے،ادھر آؤ کی جگہ ادھر آئیے،تم کی جگہ آپ،چپ کر جاؤ کی جگہ خاموش رہیے ۔یہ تمام عام بول چال کے جملے اگر میٹھے لہجے میں بولے جائیں تو معاشرے میں ایک مہذب پن نظر آنے لگے گااور مہذب معاشرے ہی ترقی کے ضامن کہلاتے ہیں۔
یہ ذمہ داری ہر شخص پر عائد ہوتی ہے کہ وہ بہترین اخلاق کا مظاہرہ کرے۔اگر بڑے اچھے الفاظ اور نرم لہجے کو اپنائیں گے تو بچوں میں خود بخود یہ عادات پیدا ہوں گی اور آنے والے وقت میں ہمارا شمار بھی شائستہ اطوار والی اقوام میں ہو گا۔
ایک سرکاری دفتر میں گزشتہ ہفتے بار بار جانے کا اتفاق ہوا ۔اس اتفاق کو حسین اتفاق ہرگز نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ سرکاری دفاتر اور وہاں عوام الناس کے ساتھ رویے ہم سب جانتے ہیں۔بہرحال بار بار جانے اور انتظار گاہ میں دیر تک بیٹھنے سے بہت کچھ بغور دیکھا اوریوں نئے کالم کے لیے ایک عمدہ مواد بھی مل گیا۔
لفظوں کی اہمیت سے کسی طور انکار ممکن نہیں ہے۔یہ ہمارے تخیل کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ہماری سوچ کو بیان کرتے ہیں۔لفظ تعلقات کا راستہ ہیں اور انہی کے ذریعے ہم اپنے احساسات ،جذبات ،علم اور تجربات دوسروں تک پہنچاتے ہیں ۔انسان کی شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں۔لفظ دلوں کے قفل کھولتے ہیں۔احساسات کے اظہار کا ذریعہ بنتے ہیں۔لفظ بہت طاقت رکھتے ہیں ۔لفظ زنجیر بن کر پیروں کی بیڑیاں بھی بن جاتے ہیں۔لفظوں سے ہی تحریکیں چلتی ہیں۔لفظ ہی انقلاب لاتے ہیں ۔ لفظ ہی ہیں جو روح کر جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں اور خواب غفلت سے بیدار کرتے ہیں۔تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ تحریکِ انقلاب ِ فرانس کی بنیاد ان تین الفاظ پر رکھی گئی آزادی،مساوات،اخوت(Liberty, Equality,Fraternity)۔یہ تین الفاظ تحریکِ انقلاب ِ فرانس کا نعرہ بنے اور انقلاب کا پیش خیمہ بھی۔
یہاں ایک اور بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جہاں لفظ اہمیت رکھتے ہیں وہیں لہجے بھی کم اہم نہیں ہیں۔اگر دیکھا جائے تو بہترین الفاظ کا چناؤ اور دل نشیں لہجہ مل کر انسان کی شخصیت کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں ۔
لفظوں کا وجود لہجے سے ہے۔ہم عام سے الفاظ کو بھی بہترین اندازِ بیان سے ادا کریں گے تو وہ سننے والوں پر اپنی چھاپ چھوڑ جائیں گے۔اگر لفظ زندگی ہیں تو لہجہ روح ہے اور روح کے بغیر زندگی کا وجود ممکن نہیں۔الفاظ اور لہجے کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔انسان جب اچھے الفاظ کا انتخاب کرتا ہے اور انہیں دل کو موہ لینے والے لہجے میں ادا کرتا ہے تو سامع پر ان کا اثر بہت گہرا ہوتا ہے۔عمدہ لب و لہجہ سخت سے سخت الفاظ کی کڑواہٹ کو کم کر دیتا ہےاور نرم ترین الفاظ بھی سخت لہجے کی بدولت اپنی چاشنی کھو دیتے ہیں۔ حالی نے کیا خوب کہا ہے
جہاں رام ہوتا ہے میٹھی زباں سے
نہیں لگتی کچھ اس میں دولت زیادہ
ایک مشہور کہاوت ہے کہ زبان شیریں۔۔۔۔۔۔ملک گیری
یعنی میٹھی زبان سے دلوں کی سلطنت فتح ہوتی ہےاور یہ بات سو فیصد درست ہے۔میٹھے لہجے اور مناسب الفاظ کا درست استعمال دیرپا اثر رکھتا ہے۔اس کی بہترین مثال خود آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قائم کی۔عرب جیسی گنوار قوم کو اپنے حسنِ بیان سے فتح کیا۔قرآن کریم میں اس کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ
اے نبی اگر آپ ان سے ترش لہجے میں بات کرتے تو یہ کبھی آپ کے قریب نا آتےاور آپ سے بھاگ جاتے۔
یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےعمدہ اخلاق کی بدولت ہی ممکن ہو کہ ایک دن سارا عرب اسلام کے زیرِ سایہ آ گیا ۔
واقعہ مشہور ہے کہ
سقراط کے سامنے ایک آدمی نہایت خوبرو.. اعلی پوشاک... کمال حلیہ... اٹھلاتاہوا آیا...تو سقراط بولا
”کچھ بولیے تاکہ آپ کی قابلیت کا معلوم ہو “
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لفظوں کی ادائیگی شخصیت کے اظہار کا اصل ذریعہ ہے ۔صحیح موقع پر درست الفاظ کا انتخاب اور پر تاثیر لہجہ شخصیت کو چا ر چاند لگا دیتا ہے۔ایک عام جملہ جو اکثر سنا جاتا ہےکہ فلاں پر نصیحت اثر نہیں کر رہی تو یہاں بھی شاید لفظوں سے زیادہ لہجہ اہمیت رکھتاہے۔نصیحت کو پر اثر بنانے کے لیے لفظوں کے ساتھ ساتھ دل میں اتر جانے والا لہجہ بھی چاہیے۔احمد فراز کا یہ رومانی شعر اس چیز کی عکاسی کرتا ہے کہ لہجے کتنے تکلیف دہ ہوتے ہیں اور ان کا درد لفظوں سے زیادہ ہوتا ہے۔
وہ جس گھمنڈ سے بچھڑا گِلہ تو اس کا ہے
کہ ساری بات محبت میں رکھ رکھاؤ کی تھی
اصل مدعا کی طرف آتے ہیں ۔چند جملے جو ہمارے دفاتر میں اکثر و بیشتر بولے جاتے ہیں ۔جیسے کہ یہاں بیٹھ جاؤ ، اپنی باری کا انتظار کرو، اپنے امی ابو کا نام بتاؤ ، میں کہتا ہوں یہ کام یوں کرو، لائن میں کھڑے رہو،میں کیا کروں اگر تنگ ہو رہے ہو،مجھے نہیں پتہ کام کب ہو گا،جب کام ہو جائے گا بتا دیں گے،چپ کر کے کھڑے رہو،وغیرہ وغیرہ
اگر ہم اپنے دفاتر میں ان جملوں کو بدل دیں اور دوسرے کو عزت دینے والے لہجے میں کچھ یوں بولیں۔یہاں تشریف رکھیے،براہِ مہربانی اپنی باری کا انتظار کیجیے۔اپنے والد اور والدہ کا نام بتائیے ۔میری رائے میں یہ کام ایسے ہو سکتا،براہِ مہربانی زحمت سے بچنے کے لئے قطار بنائیے،معذرت خواہ ہوں آپ کو زحمت اٹھانی پڑی، سوری کچھ کہہ نہیں سکتے آپ کا کام کب تک ہو گا،جیسے ہی آپ کا کام ہو گا آپ کو مطلع کر دیا جائے گا پریشان نہ ہوں،براہِ مہربانی غیر ضروری گفتگو سے پرہیز کیجیے۔وغیرہ وغیرہ
یہ عام استعمال کے جملے ہیں اور یقین مانیے نرم لہجے میں بات کی جائے تو سخت سے سخت الفاظ بھی اپنا اثر زائل کر دیتے ہیں۔حقیقت میں صورتِ حال یہ ہوتی ہے کہ آپ کسی بھی محکمے میں کسی بھی کام سے جاتے ہیں تو رویوں کی سختی دل برداشتہ کر دیتی ہے۔افسرانِ بالا تک رسائی ممکن نہیں ہوتی اور باقی تمام تر افسران ناقابلِ برداشت رویہ رکھتے ہیں۔دفتروں کے چکر لگوائے جاتے ہیں۔ان پڑھ لوگوں کو مناسب رہنمائی نہیں ملتی لہذا ان کے کام لٹک جاتے ہیں۔
میرا مقصد کسی ادارے یا اس کے ملازمین کی خامیاں اچھالنا نہیں ہے ۔صرف یہ احساس دلانا ہے کہ اگر ہر ادارے کے اہلکاروں کی پیشہ ورانہ تربیت کی جائے کہ وہ لوگوں سے کس قسم کا رویہ رکھیں گے۔مناسب الفاظ،دھیما لہجہ ،نرم رویہ اور چہرے پر ایک تبسم ۔ان تمام لوازمات کے ساتھ اگر بات کی جائے تو سننے والے پر اس کا اثر دو گنا ہو گا۔عوام کااعتماد بڑھے گا اور معاشرے میں الجھاؤ ،نفسا نفسی اور ذاتی مفادات جیسی بیماریوں کا خاتمہ ہو گا۔
ویسے بھی تمام تر اداروں کے ملازمین درجہ چہارم سے لے کر اعلیٰ عہدوں تک سب عوام کے خادم ہیں اور ان کی ملازمت کا مقصد عوام الناس کی خدمت ہے۔اس لیے انہیں اس مقصد کو ہمیشہ ذہن نشین رکھنا چاہیے۔
بقول ظفر امام
بات پہنچے سماعت کو تاثیر دے کس طرح
لفظ ہیں اور لفظوں میں زور بیانی نہیں
یہ عنوان دفاتر اور ان کے ملازمین تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ روز مرّہ زندگی میں اور عام بول چال میں بھی اس کا بڑا دخل ہے۔کچھ جادوئی الفاظ جیسے کہ شکریہ،براہِ مہربانی،جزاک اللہ،معاف کیجیے گا وغیرہ وغیرہ ۔اگر ہم کھا لو کی جگہ کھا لیجیے،ادھر آؤ کی جگہ ادھر آئیے،تم کی جگہ آپ،چپ کر جاؤ کی جگہ خاموش رہیے ۔یہ تمام عام بول چال کے جملے اگر میٹھے لہجے میں بولے جائیں تو معاشرے میں ایک مہذب پن نظر آنے لگے گااور مہذب معاشرے ہی ترقی کے ضامن کہلاتے ہیں۔
یہ ذمہ داری ہر شخص پر عائد ہوتی ہے کہ وہ بہترین اخلاق کا مظاہرہ کرے۔اگر بڑے اچھے الفاظ اور نرم لہجے کو اپنائیں گے تو بچوں میں خود بخود یہ عادات پیدا ہوں گی اور آنے والے وقت میں ہمارا شمار بھی شائستہ اطوار والی اقوام میں ہو گا۔