شہزاد احمد اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے ۔ شہزاد احمد

ظفری

لائبریرین

اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے
اک نظر میری طرف دیکھ تیرا جاتا کیا ہے

میری رسوائی میں تو بھی ہے برابر کا شریک
میرے قصے میرے یاروں کو سناتا کیا ہے

پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا تو مجھ کو
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے

سفرِ شوق میں کیوں کانپتے ہیں پاؤں تیرے
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ اٹھاتا کیا ہے

عمر بھر اپنے گریباں سے الجھنے والے
تو مجھے میرے سائے سے ڈراتا کیا ہے

مر گئے پیاس کے مارے تو اٹھا ابرِ کرم
بجھ گئی بزم تو اب شمع جلاتا کیا ہے

میں تیرا کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا تو بتا
دیکھ کر مجھ کو تیرے ذہن میں آتا کیا ہے

شہزاد احمد​
 

فاتح

لائبریرین
میں تیرا کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا تو بتا
دیکھ کر مجھ کو تیرے ذہن میں آتا کیا ہے
واہ خوبصورت انتخاب ہے۔ بہت شکریہ جناب!
 

ظفری

لائبریرین
شہزاد احمد صاحب کی ایک خوبصورت غزل محفل کے پچھلے اوراق سے ایک بار پھر آپ سب کی نظر ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
شہزاد احمد

اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے
ِاک نظر میری طرف بھی تِرا جاتا کیا ہے

میری رُسوائی میں توُ بھی ہے برابر کا شریک
میرے قصّے مِرے یاروں کو سُناتا کیا ہے

پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا توُ مجھ کو
دُور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے

ذہن کے پردوں پہ منزل کے ہیولے نہ بنا
غور سے دیکھتا جا، راہ میں آتا کیا ہے

سفرِ شوق میں کیوں کانپتے ہیں پاؤں تِرے
آنکھ رکھتا ہے تو پھر آنکھ چُراتا کیا ہے

عمر بھر اپنے گریباں سے اُلجھنے والے
توُ مجھے میرے ہی سائے سے ڈراتا کیا ہے

مر گئے پیاس کے مارے تو اُٹھا ابرِ کرم
بجھ گئی بزم تو اب شمع جلاتا کیا ہے

میں تیرا کچھ بھی نہیں ہُوں، مگر اِتنا تو بتا
دیکھ کر مجھ کو، ترے ذہن میں آتا کیا ہے

تیرا احساس ذرا سا، تری ہستی پایاب
تو سمندر کی طرح شور مچاتا کیا ہے

تجھ میں کس بل ہے تو دُنیا کو بہا کر لے جا
چائے کی پیالی میں طوُفان اُٹھاتا کیا ہے

تیری آواز کا جادو نہ چلے گا اِن پر
جاگنے والوں کو شہزاد جگاتا کیا ہے

شہزاد احمد
 
Top