طارق شاہ
محفلین
غزلِ
پروین شاکر
اپنی تنہائی مِرے نام پہ آباد کرے
کون ہوگا جو مُجھے اُس کی طرح یاد کرے
دل عجب شہر کہ جس پر بھی کھُلا در اِس کا
وہ مُسافر اِسے ہر سمت سے برباد کرے
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہُوں میں
روز اِک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
اتنا حیراں ہو مِری بے طلبی کے آگے
وا قفس میں کوئی در خود میرا صیّاد کرے
سلبِ بینائی کے احکام ملے ہیں جو کبھی
روشنی چُھونے کی خواہش کوئی شب زاد کرے
سوچ رکھنا، بھی جرائم میں ہے شامل اب تو
وہی معصوم ہے، ہربات پہ جو صاد کرے
جب لہو بول پڑے اُس کی گواہی کے خلاف
قاضی شہر کچھ اِس بات میں ارشاد کرے
اُس کی مُٹّھی میں بہت روز رہا میرا وجود
میرے ساحر سے کہو اب مجھے آزاد کرے
پروین شکر