عاطف بٹ
محفلین
اپنی تو یونہی ہجر میں جلتے ہوئے گزری
جیسے کسی درویش کی چلتے ہوئے گزری
اک بار جو خورشید نے کی دن سے بغاوت
پھر تا بہ ابد اس کی بھی ڈھلتے ہوئے گزری
ہاتھوں کی لکیروں میں کچھ ایسا ہی لکھا تھا
ہاتھوں کو تمام عمر ہی ملتے ہوئے گزری
اک لحظہ ہوا تھا میں تری یاد سے غافل
اک عمر اسی پاداش میں جلتے ہوئے گزری
بس حضرتِ عاطف کو یہی کچھ تھا میسر
سو، نانِ غمِ ہجر پہ پلتے ہوئے گزری