نعیم خان
بڑھتی ہوئی آبادی اور ماحولیاتی آلودگی نے انسانی زندگی کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ خاص کر شہری علاقوں میں کھلے اور قابل کاشت مقامات کی کمی اور خاص کر ہم لوگوں کی سبزے سے دشمنی کی وجہ سے فضاء میں گٹھن بڑھتی جارہی ہے۔ شہروں میں پارکس اور سیر و تفریح اور سکون کے چند لمحوں کے لئے باغات وغیرہ کی کمی بہت محسوس ہوتی ہے۔ اس مسئلے کے پیش نظر آج کل ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک بھی نئی بنائی جانے والی عمارات میں چھتوں پر باغبانی کو فروغ دے رہے ہیں، جس سے نہ صرف باغبانی کے شوقین افراد محدود جگہوں میں خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اپنے شوق کو پورا کرسکتے ہیں بلکہ فضائی آلودگی میں کمی بھی کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح چھتوں پر سبزیوں کی کاشت سے کسی حد تک ہماری گھریلو ضروریات بھی پوری ہوسکتی ہیں۔ چھتوں پر باغبانی کا شوق یا طریقہ کار نیا نہیں ہے۔ تاریخ میں اس طریقہ کار کے ثبوت 600قبل از مسیح کی رومن تاریخ اور گیارہویں صدی عیسوی میں مصر میں مسلم دور حکومت میں ملتے ہیں۔ مصر میں مسلم حکمرانوں کی عمارات کی تعمیر میں دلچسپی کی بدولت جب چودہ چودہ منزلہ عمارتیں بننے لگیں تو اْس وقت بھی چھتوں پر باغبانی کو فروغ دیا گیا اور چھتوں پر سبزیوں کی کاشت بھی کی جاتی تھی جس کے لئے آب پاشی کا بھی اْس وقت کی مناسبت سے انتہائی جدید اور معقول بندوبست کیا گیا تھا۔ چھتوں کی منڈیروں پر گملوں اورناکارہ برتنوں میں کئی قسم کے پودے لگانے کا رواج ہمارے ہاں بھی عام تھا، جن میں عام طور پر تلسی، گیندہ پھول، پودینہ، دھنیا، پیاز، مرچ، ٹماٹر اور دوسرے عام پودے جو آسانی سے اْگائے جاتے تھے، جن سے نہ صرف کچی چھتوں کی منڈیروں کو مضبوطی ملتی تھی بلکہ قدرتی خوبصورتی بھی۔ اب جب کنکریٹ کی پختہ کئی کئی منزلہ عمارات تعمیر کی جارہی ہیں تو منڈیروں پر پودوں کا تصوربھی معدوم ہوتا جارہا ہے۔ ہمارے ہاں فی الحال عمارت میں سبزے کے لئے جگہ مخصوص کرنے کا رواج اتناعام نہیں ہے جتنا کہ ترقی یافتہ ممالک ہے۔ کیونکہ وہاں انسانی زندگی سے وابستہ ہر زاویے پر تحقیق کی جاتی ہے اور وہاں میٹروپولیٹن شہروں میں جہاں کھلے مقامات کی کمی بہت زیادہ ہوتی ہے وہاں پر قدرتی خوبصورتی، صاف فضاء اور راحت و سکون کے لئے بڑی بڑی عمارات میں پودوں کے لئے مخصوص جگہ مقرر کی جاتی ہے۔ بڑی عمارات کی چھتوں پر باغبانی، فارمنگ اور پھول بوٹے اْگانے کو اب ایک آرٹ کے طور پر لیا جارہا ہے اور بلڈنگ کنسٹرکشن میں یہ ایک باقاعدہ مضمون بن گیا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی بہت سارے لوگ ہیں جن کے پاس باغبانی کے لئے کھلی جگہ نہیں ہوتی اپنے گھر،فلیٹس، اپارٹمنٹس یا دفتر کی چھتوں پر باقاعدہ باغبانی کرتے ہیں اور مختلف گملوں اور گھرکی دیگر ناکارہ اشیاء جن میں پودے اْگائے جا سکتے ہیں۔ اْن کو استعمال کرکے اپنی چھتوں کو ہرابھرا کئے ہوئے ہیں۔ چھتوں پر باغبانی کا ماحول و درجہ حرارت پر اثر: چھتوں پر سبزہ اْگانے سے موسمی اثرات کو کافی حد تک کم کیاجاسکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کسی عمارت کی چھت یا آس پاس پودے اور درخت لگانے سے 6.3سے 11.6سینٹی گریڈ تک موسم کی شدت میں فرق آسکتا ہے۔ شہری علاقوں میں جہاں سورج کی تپش کنکریٹ کی دیوارں کے درجہ حرات کو بڑھا دیتی ہے، پکی عمارتوں کے درمیان کم فاصلے، ہوا کے گزرنے کے نامناسب راستوں سے فضاء کی حدت میں اضافہ ہوتا ہے وہاں سبزے کی موجودگی ان عوامل سے بڑھنے والی گرمی کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ جبکہ سرد علاقوں میں یہی پودے باہر کی سردی کو کم کرنے میں بھی مدد دیتے ہیں اور ماحول کو صاف ستھرا بھی رکھتے ہیں۔ چھتوں پر قرینے سے سجے ہوئے پودے آپ کو ایک سکون اور راحت بھری فضا ء فراہم کرتے ہیں جہاں پر تھوڑی دیر بیٹھ کر آپ دن بھر کی ٹینشن اور مصروفیت سے کچھ لمحے سکون و آرام کے گزار سکتے ہیں۔