اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کی اصلاح کیجے

محمداحمد

لائبریرین
کچھ دنوں سے محفل میں سیاسی جماعتوں‌ اور اُن کے قائدین پر بے تحاشا تنقید ہو رہی ہے اور نتیجتاً اُن جماعتوں کی حمایت میں‌بھی جواب آ رہے ہیں‌بلکہ الزامات کے جواب میں‌الزامات عائد ہو رہے ہیں‌۔ یہ سلسلہ اچھا ہے لیکن فائدہ کسی کو نہیں ہو رہا ۔یعنی یہ ریاضت محض وقت کی بربادی کا سبب بن رہی ہے۔ :frustrated:

میرا خیال ہے کہ کیوں‌ نہ اہلِ محفل اپنے وقت کو کارآمد بنائیں اور دوسروں پر تنقید کے بجائے اپنی جماعت کی اصلاح کریں تاکہ آپ کی پسندیدہ سیاسی جماعت اپنی غلطیوں سے رجوع کر کے بہترین سیاسی جماعت بن جائے۔ آپ میری بات سے اتفاق کریں گے کہ ہر جماعت میں اصلاح کی گنجائش موجود ہے۔ :notworthy:

اصولاً آغاز مجھے کرنا چاہیے تھا لیکن چونکہ میرا جھکاؤ کسی مخصوص جماعت کی طرف نہیں ہے سو مجھے اصلاح کا بھی وہ حق بہر حال نہیں ہے جو کسی جماعت سے محبت اور عقیدت رکھنے والے کو ہوسکتا ہے۔

لہٰذا میری اُن احباب سے درخواست ہے کہ جو سیاسی ذمرے میں‌ فعال ہیں کہ وہ اپنی جماعت کی غلطیوں کی نشاندہی / اصلاح کر کے اپنے اخلاص کا ثبوت دیجے۔


* اُمید کرتا ہوں کہ اس دھاگے کو مثبت اندازِ فکر سے برتا جائے گا۔
 

فاتح

لائبریرین
محمد احمد صاحب! آپ کی مثبت سوچ کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی مگر وائے افسوس کہ
یہ راز کوئی اب راز نہیں، سب اہلِ گلستاں جان چکے
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجامِ گلستاں کیا ہو گا
 

محمداحمد

لائبریرین
محمد احمد صاحب! آپ کی مثبت سوچ کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی مگر وائے افسوس کہ
یہ راز کوئی اب راز نہیں، سب اہلِ گلستاں جان چکے
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجامِ گلستاں کیا ہو گا

فاتح بھیا آپ کی بات بجا۔

لیکن نااُمیدی کفر ہے ۔ پھر کوشش کرنے سے بہت کچھ ہو سکتا ہے بس ہم سب کو اپنی نیت کو خالص کرنا ہوگا۔
 

آفت

محفلین
میری پسندیدہ سیاسی جماعت ہے عوامی جماعت ۔ ارے نہیں نہیں، شیخ رشید والی عوامی مسلم لیگ نہیں بلکہ پاکستان کے مظلوم و محکوم عوام کہ جن کے نام پر سارا سیاسی کاروبار چلتا ہے ۔ جناب میری اس جماعت میں ساری خرابیاں ہی خرابیاں ہیں ۔ یہ جن کو مختلف وعدوں کے نام پر ووٹ دیتی ہے بعد میں ان سے پوچھتی نہیں کہ ان وعدوں کا کیا ہوا ۔ کیا روٹی کپڑا مکان مل گیا ۔ کیا لوگوں کو انصاف مل گیا ۔ کیا تعلیم،علاج اور دوسری ضروریات زندگی مل گیئں ۔ سب سیاستدان یہی دعوٰی کرتے ہیں کہ سترہ کروڑ عوام ان کے ساتھ ہیں پھر یہ عوام ان سے پوچھتے بھی نہیں کہ جناب جب سترہ کروڑ عوام آپ کے ساتھ تھے تو جعلی ووٹ کیوں بھگتائے گئے ۔ کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ بھائی ہم سے قربانی کی کھال کیوں چھین رہے ہو ۔ فطرانہ اور زکاۃ کیوں لے رہے ہو ۔
کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ جناب آپ بے شک بلٹ پروف گاڑیوں میں آتے ہیں لیکن ہمیں بس میں کھڑے ہو کر سفر کرنے پر کیوں مجبور کیا جا رہا ہے ۔ اے میرے ملک کے راہنماؤ آپ کے بچے امریکہ اور یورپ کی اچھی درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں تو ہم لوگوں کے بچوں کو درسگاہوں میں کوئی ٹیچر کیوں نہیں ۔ آپ کے کئی کئی شہروں کے خالی بنگلوں میں تالے لگے ہوئے ہیں اور وہ پھر بھی محفوظ ہیں ہمارے ایک دو کمروں کے مکان بھی کیوں غیر محفوظ ہیں ۔ باتیں تو بہت سی ہیں جو اس عوامی پارٹی کی نااہلی ثابت کرتی ہے مگر اس وقت اتنا ہی ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت شکریہ آفت صاحبہ،

بالکل ٹھیک نشاندہی کی ہے۔ بس جو سوال آپ نے عوام سے کئے ہیں‌ وہ آپ کو سیاسی جماعتوں سے کرنا تھے۔ اور ہاں‌ اصلاح کی تجاویز بھی آپ کو ہی دینی ہے۔
 
اصلاح کے دو طریقے ہیں :
1- تخلیہ
2- تحلیہ
تخلیہ یہ ہے کہ سب سے پہلے پرانا گند صاف کیا جئے۔ جیسے اگر کنویں میں کتّا گر جائے تو جب تک وہ کتّا باہر نہیں نکلے گا، صاف پانی کے ہزارہا ڈول ڈالنے سے بھی کنویں کا پانی صاف نہیں ہوگا۔ ۔ ۔اب اس طریقے کیلئے انتظار کیجئے کہ عوام کی قوّتِ برداشت جواب دے جائے اور پھر ایک خونی انقلاب۔ ۔ ۔ یہ تو ہوا تخلیہ۔
تحلیہ یہ ہے کے پیاسے کوّے کی طرے پانی میں کنکر ڈالتے جائیں کبھی تو پانی کی سطح کوّے کی دسترس میں آئے گی۔ ۔ ۔اس طریقے کیلئے بڑے استقلال کی ضرورت ہے۔ ۔۔لہذا مشکل ہی لگتا ہے کیونکہ مجموعی طور پر یہ ہمارا قومی مزاج نہیں۔ ۔ ۔ ہم لوگ تو بقول اشفاق احمد قتل کرنا یا قتل ہونا جانتے ہیں۔:mad:
 

محمداحمد

لائبریرین
اصلاح کے دو طریقے ہیں :
1- تخلیہ
2- تحلیہ
تخلیہ یہ ہے کہ سب سے پہلے پرانا گند صاف کیا جئے۔ جیسے اگر کنویں میں کتّا گر جائے تو جب تک وہ کتّا باہر نہیں نکلے گا، صاف پانی کے ہزارہا ڈول ڈالنے سے بھی کنویں کا پانی صاف نہیں ہوگا۔ ۔ ۔اب اس طریقے کیلئے انتظار کیجئے کہ عوام کی قوّتِ برداشت جواب دے جائے اور پھر ایک خونی انقلاب۔ ۔ ۔ یہ تو ہوا تخلیہ۔
تحلیہ یہ ہے کے پیاسے کوّے کی طرے پانی میں کنکر ڈالتے جائیں کبھی تو پانی کی سطح کوّے کی دسترس میں آئے گی۔ ۔ ۔اس طریقے کیلئے بڑے استقلال کی ضرورت ہے۔ ۔۔لہذا مشکل ہی لگتا ہے کیونکہ مجموعی طور پر یہ ہمارا قومی مزاج نہیں۔ ۔ ۔ ہم لوگ تو بقول اشفاق احمد قتل کرنا یا قتل ہونا جانتے ہیں۔:mad:

بھیا لوگوں‌کی قوتِ برداشت تو نہ جانے کب جواب دے گی ہاں مستقل مزاجی کی ضرورت ہے۔

پھر میں‌تو اب تک اس اخلاقی جرآت کا انتظار کر رہا ہوں‌ کہ جو کسی جماعت سے اپنی وابستگی کا اعلان بھی کرے اور اُس کی اصلاح کی کوشش بھی۔ دیکھیے میرے انتظار کا کیا ہوتا ہے۔ :)
 

زیک

مسافر
میں ڈیموکریٹ‌ ہوں۔ جان کیری اور براک اوبامہ کی کمپینز کو ڈونیٹ‌ کر چکا ہوں۔ اوبامہ کے صدر کے الیکشن میں رضاکار کے طور پر بھی کافی کام کیا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کو ہیلتھ کیئر، گلوبل وارمنگ اور شخصی آزادی کے اہم معاملات میں تنقید بھی کرتا ہوں اور نمائندوں کو ای‌میل یا کال کر کے صحیح پالیسی اپنانے کی ترغیب بھی۔
 
میں لبرل پارٹی کینیڈا کا حامی ہوں، لیکن اس میں اس وقت قیادت کا بحران ہے، مائیکل اگناٹئیف سے لوگوں‌کو بہت سی امیدیں ہیں لیکن موجودہ وزیر اعظم اسٹیفن ہارپر بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں‌اور عوامی بہبود کے لئے بہت کچھ کر رہے ہیں، مقابلہ سخت ہے۔ لبرل پارٹی براہ مہربانی اپنی قیادت کی سمت متعین کیجئے اور حکومت گرانے کے بجائے حکومت میں‌آنے کے مثبت طریقے اپنائیے۔ شکریہ۔
 

سویدا

محفلین
بہتر تو یہ ہوگا کہ ہم سیاست دانوں‌اور سیاسی جماعتوں‌کی اصلاح‌کی کوشش کے بجائے اپنی اصلاح‌کریں

یہ ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہم اصلاح‌کی کوشش دوسروں سے شروع کرتے ہیں‌

جیسے ہم ہیں‌ویسے ہمارے حکمران اور سیاست دان ہیں

لہذا دوسروں کی اصلاح‌کی کوشش بعد میں‌پہلی اپنی اصلاح‌پر توجہ دی جائے
 

dxbgraphics

محفلین
میں نئی جماعت بنارہا ہوں
جماعت کا نام " موجاں ہی موجاں عوام پرست پارٹی" ہے
رکنیت فارم شمشاد بھائی کے پاس رکھوادیتا ہوں۔ لیکن اس پارٹی میں کوئی الیکشن وغیرہ نہیں ہوگا۔ بلکہ اس کا ہمیشہ کے لئے سربراہ میں ہی ہونگا۔






بولو منظور ہے۔۔۔۔







اب میں بولوں کہ نہ بولوں
 

مہوش علی

لائبریرین
قاف لیگ مجھے بالکل پسند نہیں تھی۔
پارٹی کے لحاظ سے میری پسند نہیں تھی، مگر لیڈر کے طور پر پسندیدہ لیڈر مشرف صاحب اور شوکت عزیز تھے۔
مگر شوکت عزیز کو وزیر اعظم کی بجائے وزیر خزانہ ہونا چاہیے تھا، جبکہ وزیر اعظم ایسے شخص کو ہونا چاہیے تھا جو کہ پاکستان کی سیاست سے اچھی طرح واقف ہوتا۔ مثلا خورشید قصوری وزیر اعظم کے طور پر بہت موزوں رہتا۔ شوکت عزیز نے بیرون ملک تو پاکستان کی بہت اچھی نمائندگی کی، مگر اندرون پاکستان سیاسی بحرانوں میں یہ کوئی بڑا کردار ادا نہیں کر سکے۔

مشرف صاحب کی دوسری بڑی غلطی یہ تھی کہ ابتدائی تین سال کے بعد انہوں نے حکومت نہیں چھوڑی بلکہ قاف لیگ کے لوٹوں کے بل بوتے پاکستان کو سدھارنے کا خواب دیکھا۔ یہ بہت بڑا رسک تھا جو کامیاب نہیں ہوا۔ میرے خیال میں بہت بہتر ہوتا کہ 2002 میں جسطرح انہوں نے ضلعی سسٹم شروع کروایا تھا، اسی طرح پاکستان کا پارلیمانی سسٹم ختم کر کے "صدارتی سسٹم" متعارف کروا دیتے اور خود اس صدارتی دوڑ سے الگ ہو جاتے۔

پاکستان میں نظام تو نہیں چلتا مگر انفرادی طور پر رجل اور دیدہ ور پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ مگر پارلیمانی نظام کے تحت انہیں کرپٹ جماعتی سسٹم کا سہارا لینا لازمی ہے ورنہ وہ قیادت تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ صرف صدارتی نظام ہے جو کہ ایک غریب انسان کو بھی اسکے خواص کی وجہ سے اٹھا کر قائد بنا سکتا ہے۔ اسکی سب سے بڑی مثال ایران میں احمدی نجاد جیسے شخص کا انتخاب ہے۔ ایسا جو بھی شخص پاکستان کی صدارت کے لیے منتخب ہو گا، اُس کو اسکی پارٹی زیادہ بلیک میل نہیں کر سکتی کیونکی ایسے صدر کو براہ راست عوامی طاقت حاصل ہوتی ہے۔

یہاں سوال پارٹی کی اصلاح کے حوالے سے تھا، مگر اگر کسی نے پاکستان کی اصلاح کے حوالے سے سوال کیا ہوتا تو میرا سب سے پہلا جواب یہ ہوتا کہ پاکستان کی اصلاح کرنی ہے تو ضلعی سسٹم سے بھی کہیں زیادہ کارآمد سسٹم صدارتی نظام ہے کہ جس کے بعد پاکستان کی کرپٹ سیاسی پارٹیوں کی گرفت اقتدار پر کافی حد تک کمزور ہو گی اور انکے مقابلے میں عوام کی براہ راست گرفت زیادہ مضبوط ہو گی۔ خدارا پاکستان کو ان کرپٹ سیاسی پارٹیوں سے نجات دلانے کے لیے صدارتی نظام کے لیے تحریک چلائیں۔
 
Top