اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کی اصلاح کیجے

arifkarim

معطل
میں کسی بھی اچھی یا بری پارٹی کا حامی نہیں۔ اور نہ ہی مجھے کسی پارٹی کی تعریف، اصلاح، حمایت یا تنقید کرنی ہے۔ میں یہاں صرف یہ کہنے آیا تھا کہ پارٹی بازی کا نظام دجالی قوتوں کی ایجاد ہے تاکہ عوام کو کئی حصوں میں‌توڑ کر انپر حکمرانی کی جا سکے۔ ہر ملک میں‌اصل حکومت امراء؛ جاگیردار، سرمایہ دار، مافیہ یا دوسرےپیسہ ور افراد کی ہوتی ہے۔ اور یہ نظام ازل سے ابد تک قائم رہے گا جبتک ہم پارٹی بازی کو ترک نہیں کر دیتے۔ اب بیشک میرے سے اختلاف کر لیں کیونکہ سچ یہی ہے!
 

محمداحمد

لائبریرین
یہاں سوال پارٹی کی اصلاح کے حوالے سے تھا، مگر اگر کسی نے پاکستان کی اصلاح کے حوالے سے سوال کیا ہوتا تو میرا سب سے پہلا جواب یہ ہوتا کہ پاکستان کی اصلاح کرنی ہے تو ضلعی سسٹم سے بھی کہیں زیادہ کارآمد سسٹم صدارتی نظام ہے کہ جس کے بعد پاکستان کی کرپٹ سیاسی پارٹیوں کی گرفت اقتدار پر کافی حد تک کمزور ہو گی اور انکے مقابلے میں عوام کی براہ راست گرفت زیادہ مضبوط ہو گی۔ خدارا پاکستان کو ان کرپٹ سیاسی پارٹیوں سے نجات دلانے کے لیے صدارتی نظام کے لیے تحریک چلائیں۔

بہت شکریہ مہوش صاحبہ!

ضلعی نظام / بلدیاتی نظام کے ثمرات سے تو لوگ واقف ہو ہی گئے ہیں اور اس بات کا اعتراف بھی اکثر ہوتا نظر آتا ہے۔

صدارتی نظام پارلیمانی نظام سے کس طرح بہتر ہے ، اگر آپ اس تقابلی جائزے کے لئے ایک الگ تھریڈ کا بندوبست کرسکیں‌تو شاید دوستوں کی آرا اور باہمی گفتگو سے کسی خاص نتیجے پر پہنچا جا سکے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہتر تو یہ ہوگا کہ ہم سیاست دانوں‌اور سیاسی جماعتوں‌کی اصلاح‌کی کوشش کے بجائے اپنی اصلاح‌کریں

یہ ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہم اصلاح‌کی کوشش دوسروں سے شروع کرتے ہیں‌


جیسے ہم ہیں‌ویسے ہی ہمارے حکمران اور سیاست دان ہیں۔

لہذا دوسروں کی اصلاح‌کی کوشش بعد میں‌پہلی اپنی اصلاح‌پر توجہ دی جائے

بھائی!

آپ کی بات بجا، کہ اپنی اصلاح تو سب سے پہلے ہے اور اپنی اصلاح سے ہمیں‌کبھی بھی غافل نہیں رہنا چاہیے۔ لیکن اس اجتماعی فورم پر اگر ہم معاشرہ اور اس کے لوازمات کی اجتماعی اصلاح کی بھی کوشش کریں تو کوئی مضائقہ نہیں‌ہے۔

‪‪آپ میری بات سے اتفاق کریں گے کہ آپ اور میں اس قدر کرپٹ اور بے ایمان نہیں‌ہیں جس قدر ہمارا سیاست دان طبقہ ہے، لیکن اس کے بوجود ہم ان لوگوں کے رحم و کرم پر ہیں، پھر ایسے میں کیا یہ لوگ واقعی عوامی نمائندے ہیں۔ ان لوگوں سے چھٹکارے کی کوئی تو سبیل ہونی چاہیے۔ کیا کہتے ہیں‌آپ اس بارے میں؟
 

محمداحمد

لائبریرین
محفل کے مزید اراکین (جو سیاسی جماعتوں سے عقیدت رکھتے ہیں) سے درخواست ہےکہ اس لڑی کے عنوان کے تحت اپنے خیالات کا اظہار کریں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
میں کسی بھی اچھی یا بری پارٹی کا حامی نہیں۔ اور نہ ہی مجھے کسی پارٹی کی تعریف، اصلاح، حمایت یا تنقید کرنی ہے۔ میں یہاں صرف یہ کہنے آیا تھا کہ پارٹی بازی کا نظام دجالی قوتوں کی ایجاد ہے تاکہ عوام کو کئی حصوں میں‌توڑ کر انپر حکمرانی کی جا سکے۔ ہر ملک میں‌اصل حکومت امراء؛ جاگیردار، سرمایہ دار، مافیہ یا دوسرےپیسہ ور افراد کی ہوتی ہے۔ اور یہ نظام ازل سے ابد تک قائم رہے گا جبتک ہم پارٹی بازی کو ترک نہیں کر دیتے۔ اب بیشک میرے سے اختلاف کر لیں کیونکہ سچ یہی ہے!

عارف بھائی!

آپ کی رائے کا شکریہ!

آپ سے بھی درخواست کےہے کہ متبادل نظام کی بابت کچھ عرض فرمائیں ۔
 

راشد احمد

محفلین
قاف لیگ مجھے بالکل پسند نہیں تھی۔
پارٹی کے لحاظ سے میری پسند نہیں تھی، مگر لیڈر کے طور پر پسندیدہ لیڈر مشرف صاحب اور شوکت عزیز تھے۔
مگر شوکت عزیز کو وزیر اعظم کی بجائے وزیر خزانہ ہونا چاہیے تھا، جبکہ وزیر اعظم ایسے شخص کو ہونا چاہیے تھا جو کہ پاکستان کی سیاست سے اچھی طرح واقف ہوتا۔ مثلا خورشید قصوری وزیر اعظم کے طور پر بہت موزوں رہتا۔ شوکت عزیز نے بیرون ملک تو پاکستان کی بہت اچھی نمائندگی کی، مگر اندرون پاکستان سیاسی بحرانوں میں یہ کوئی بڑا کردار ادا نہیں کر سکے۔

مشرف صاحب کی دوسری بڑی غلطی یہ تھی کہ ابتدائی تین سال کے بعد انہوں نے حکومت نہیں چھوڑی بلکہ قاف لیگ کے لوٹوں کے بل بوتے پاکستان کو سدھارنے کا خواب دیکھا۔ یہ بہت بڑا رسک تھا جو کامیاب نہیں ہوا۔ میرے خیال میں بہت بہتر ہوتا کہ 2002 میں جسطرح انہوں نے ضلعی سسٹم شروع کروایا تھا، اسی طرح پاکستان کا پارلیمانی سسٹم ختم کر کے "صدارتی سسٹم" متعارف کروا دیتے اور خود اس صدارتی دوڑ سے الگ ہو جاتے۔

پاکستان میں نظام تو نہیں چلتا مگر انفرادی طور پر رجل اور دیدہ ور پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ مگر پارلیمانی نظام کے تحت انہیں کرپٹ جماعتی سسٹم کا سہارا لینا لازمی ہے ورنہ وہ قیادت تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ صرف صدارتی نظام ہے جو کہ ایک غریب انسان کو بھی اسکے خواص کی وجہ سے اٹھا کر قائد بنا سکتا ہے۔ اسکی سب سے بڑی مثال ایران میں احمدی نجاد جیسے شخص کا انتخاب ہے۔ ایسا جو بھی شخص پاکستان کی صدارت کے لیے منتخب ہو گا، اُس کو اسکی پارٹی زیادہ بلیک میل نہیں کر سکتی کیونکی ایسے صدر کو براہ راست عوامی طاقت حاصل ہوتی ہے۔

یہاں سوال پارٹی کی اصلاح کے حوالے سے تھا، مگر اگر کسی نے پاکستان کی اصلاح کے حوالے سے سوال کیا ہوتا تو میرا سب سے پہلا جواب یہ ہوتا کہ پاکستان کی اصلاح کرنی ہے تو ضلعی سسٹم سے بھی کہیں زیادہ کارآمد سسٹم صدارتی نظام ہے کہ جس کے بعد پاکستان کی کرپٹ سیاسی پارٹیوں کی گرفت اقتدار پر کافی حد تک کمزور ہو گی اور انکے مقابلے میں عوام کی براہ راست گرفت زیادہ مضبوط ہو گی۔ خدارا پاکستان کو ان کرپٹ سیاسی پارٹیوں سے نجات دلانے کے لیے صدارتی نظام کے لیے تحریک چلائیں۔

صدارتی نظام پاکستان کے لئے آئیڈیل ہے۔ لیکن صدارتی نظام پاکستان میں ممکن نہیں۔ اس طرح صوبوں میں احساس محرومی زیادہ ہوجائے گا۔ میں سمجھتاہوں کہ مزید صوبے بناکر صدارتی نظام نافذ کردیا جائے۔ اس کے لئے پنجاب کے تین، سندھ، بلوچستان، سرحد کے دو دو صوبے بنادئیے جائیں اور ہر صوبے کو صوبائی خودمختاری دی جائے تو یہ آئیڈیل نظام ہے

ویسے پارلیمانی نظام بھی برا نہیں اگر الیکشن کمیشن آزاد ہوجائے اور صوبائی خودمختاری دیدی جائے
 

محمداحمد

لائبریرین
انتہائی حیرت انگیز بات ہے کہ محفل میں سے ایک شخص نے بھی پاکستان کی تمام بڑی جماعتوں بشمول پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز گروپ اور متحدہ قومی موومنٹ و دیگر میں سے کسی ایک کو بھی own نہیں کیا۔

اور یہی وہ جماعتیں ہیں کہ جن کے قصیدہ خواں محفل میں‌بڑی تعداد میں موجود ہیں اور محفل انہی کی قصیدہ خوانی سے گونجتی رہتی ہے۔

اس بات کو سمجھنے میں میری مدد کیجے کہ :

1۔ کیا ان میں سے ایک جماعت بھی اس قابل نہیں کہ کوئی شخص اُسے own کرنے کی ہمت کرے جبکہ قصیدہ خوانی کی داستانیں اپنی جگہ موجود ہیں۔
2. کیا محض یہ لڑی اس وجہ سے سونی ہے کہ یہاں دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے خود اپنی اصلاح کرنی ہے۔
3 ۔ یا پھر یہ جماعتیں اتنی کامل ہیں کہ ان میں اصلاح کی گنجائش ہی نہیں نکلتی :grin:
4 ۔ اور اگر نہیں‌تو اندھی تقلید، جامد یقین اور شخصیت پرستی ان سب ٍفضول باتوں کی اجازت نہیں دیتی۔

آپ سب کی آرا کا انتظار ہے۔
 

راشد احمد

محفلین
میری پسندیدہ سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف ہے۔ یہ جماعت اتنی مقبول نہیں ہوئی جتنی اسے ہونا چاہئے تھا۔
عمران خان اس جماعت کے بانی چئیرمین ہیں۔ لیکن اس جماعت میں عمران خان کے علاوہ کوئی نمایاں شخصیت نظر نہیں‌آتی لیکن اس کے باوجود یہ جماعت نوجوانوں میں‌ مقبول ہورہی ہے بالخصوص پڑھے لکھے لوگ اس جماعت میں شامل ہورہے ہیں۔
میں اس پارٹی کا کیوں‌حامی ہوں؟ اس کی کچھ وجوہات یہ ہیں
1۔ پارٹی کا صاف موقف ہے کہ جب تک ملک میں ناانصافی اور لاقانونیت کا خاتمہ نہیں ہوگا تب تک ملک درست سمت نہیں جاسکتا
2۔ پارٹی کی نظر میں کرپشن ہی پاکستان کی معاشی مشکلات کی ذمہ دار ہے اور اس کے لئے ایسا ادارہ قائم کیا جائے جو غیر جانبدار ہو اور اس کا سربراہ کوئی سیاسی پارٹی کا نہ ہو بلکہ ایک غیر جانبدار اور ایماندار شخص ہو۔
3۔پارٹی یکساں تعلیمی نظام میں تبدیل کرنا چاہتی ہے
4۔ پارٹی پارلیمانی کمیٹیوں کی بجائے شیڈو منسٹریز کو اہمیت دیتی ہے۔ جیسے کسی وفاقی وزیر کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے اس کے شعبے میں ہی اپوزیشن سے ایک منسٹر ہو جو وفاقی وزیر کی کارکردگی کا جائزہ لے
5۔ پارٹی بلدیاتی نظام کی حامی ہے اور پارٹی کی نظر میں بلدیاتی نظام ہی اچھی قیادت پیدا کرسکتا ہے

میں تو اس جماعت کی اصلاح کے لئے یہی کہوں گا کہ انہیں چاہئے کہ یہ گراس روٹ لیول پہ اپنی جماعت کو مقبول کریں اگرچہ یہ جماعت مختلف شہروں میں ممبرشپ مہم چلا رہی ہے اور کافی کامیاب ہورہی ہے۔

فی الحال اس جماعت نے پارٹی الیکشن نہیں کرائے لیکن عمران خان کا کہنا ہے کہ ممبر شپ مہم ختم ہونے کے فوری بعد الیکشن کرائے جائیں گے اور نئے عہدیداروں کا تقرر کردیا جائے گا۔
پارٹی کو عمران خان نے علاوہ مزید نمایاں لوگ سامنے لانے چاہئے
دوسری تجویز یہ ہے تحریک انصاف کو اپنی پارٹی میں تعلیم، صحت، روزگار، انصاف وقانون، خارجہ پالیسی کے بارے میں تھنک ٹینکس بنائے جائیں۔
تیسری تجویز جو میں نے ہی تحریک انصاف کو دی تھی کہ ایک انسٹی ٹیوٹ بنایا جائے جو پارٹی اراکین کو مختلف سیاسی شعبوں میں تربیت دے جیسے ممبر اسمبلی، کونسلر، ناظم، وفاقی و صوبائی وزیر اور دیگر شعبوں میں تربیت دے اور پارٹی نے اس تجویز کو بہت مثبت لیا ہے۔
چوتھی تجویز یہ ہے کہ عمران خان کو پارٹٰی کوزیادہ سے زیادہ وقت دینا چاہئے اور پارٹی کارکنوں سے ہر وقت رابطے میں رہنا چاہئے۔
پانچویں تجویز یہ ہے کہ
 

arifkarim

معطل
صدارتی نظام پاکستان کے لئے آئیڈیل ہے۔ لیکن صدارتی نظام پاکستان میں ممکن نہیں۔ اس طرح صوبوں میں احساس محرومی زیادہ ہوجائے گا۔ میں سمجھتاہوں کہ مزید صوبے بناکر صدارتی نظام نافذ کردیا جائے۔ اس کے لئے پنجاب کے تین، سندھ، بلوچستان، سرحد کے دو دو صوبے بنادئیے جائیں اور ہر صوبے کو صوبائی خودمختاری دی جائے تو یہ آئیڈیل نظام ہے

ویسے پارلیمانی نظام بھی برا نہیں اگر الیکشن کمیشن آزاد ہوجائے اور صوبائی خودمختاری دیدی جائے

مزید ٹکڑے کرنے سے لوٹ مار میں زیادتی ہو جاتی ہے۔ پہلے ہی چار ٹکڑوں کا حال ہمارے سامنے ہے۔ اگر تو ایڈمنسٹریشن کی غرض سے مزید حصے کرنے ہیں تو ہو سکتا ہے کوئی فائدہ ہو جائے۔ مگر جیسے ہماری آبادی کی تقسیم ہے، ایسے میں‌کوئی بھی دجالی نظام کارآمد نہیں‌ہوگا!
 
میری پسندیدہ سیاسی جماعت ایم کیوایم ہے۔ یہ جماعت روز بروز پاکستان بھر میں مقبول ہورہی ہے ۔
ابتدائی دور میں ایم کیوایم سے مراد’ مہاجر قومی موومنٹ‘ تھا۔1997ء میں اس جماعت نے خود کو قومی دھارے میں شامل ہونے کے لیےاپنا نام سرکاری طورپر ’مہاجر قومی موومنٹ‘ سے بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیااور اپنے دروازے دوسری زبانیں بولنے والوں کے لیے بھی کھول دیے۔ سیاسی میدان میں آنے کے بعد ایم کیوایم نے اپنی توجہ کا مرکز پاکستان کے غریب اور متوصط طبقوں کو بنایا ۔ اسی وجہ سے ایم کیوایم نے سندھ کی بلدیاتی ،صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر نمایاں کامیابی حاصل کرنی شروع کردی۔گذشتہ کئی برسوں سےکراچی ، حیدر آباد،میر پور خاص اور سکھر کو ایم کیوایم کے گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔سندھ کے شہری علاقوں میں ایک بڑی سیاسی قوت رکھنے کے ساتھ اب یہ جماعت سندھ کی صوبائی اسمبلی کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں بھی اپنا اثر رسوخ رکھتی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے ہمیشہ اپنے منشور میں ایسے پہلوؤں کو شامل کیا ہے جن کا تعلق نچلے اور درمیانے طبقےسے ہے۔ سندھ کہ بعد اسے دوسرے صوبوں میں عوام کی حمایت حاصل ہورہی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ ملک کی سلامتی ،خوشحالی اورتعمیروترقی کیلئے کوشاں ہے اوریہی ایم کیوایم کامشن ومقصدہے۔متحدہ قومی موومنٹ محب وطن جماعت ہے جوملک کی سلامتی وبقاء کیلئے کام کررہی ہے۔اب الطاف حسین کے پیغام حق پرستی کوپنجاب،سرحداوربلوچستان میں پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
 

غازی عثمان

محفلین
میری پسندیدہ سیاسی جماعت ایم کیوایم ہے۔ یہ جماعت روز بروز پاکستان بھر میں مقبول ہورہی ہے ۔
ابتدائی دور میں ایم کیوایم سے مراد’ مہاجر قومی موومنٹ‘ تھا۔1997ء میں اس جماعت نے خود کو قومی دھارے میں شامل ہونے کے لیےاپنا نام سرکاری طورپر ’مہاجر قومی موومنٹ‘ سے بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیااور اپنے دروازے دوسری زبانیں بولنے والوں کے لیے بھی کھول دیے۔ سیاسی میدان میں آنے کے بعد ایم کیوایم نے اپنی توجہ کا مرکز پاکستان کے غریب اور متوصط طبقوں کو بنایا ۔ اسی وجہ سے ایم کیوایم نے سندھ کی بلدیاتی ،صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر نمایاں کامیابی حاصل کرنی شروع کردی۔گذشتہ کئی برسوں سےکراچی ، حیدر آباد،میر پور خاص اور سکھر کو ایم کیوایم کے گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔سندھ کے شہری علاقوں میں ایک بڑی سیاسی قوت رکھنے کے ساتھ اب یہ جماعت سندھ کی صوبائی اسمبلی کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں بھی اپنا اثر رسوخ رکھتی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے ہمیشہ اپنے منشور میں ایسے پہلوؤں کو شامل کیا ہے جن کا تعلق نچلے اور درمیانے طبقےسے ہے۔ سندھ کہ بعد اسے دوسرے صوبوں میں عوام کی حمایت حاصل ہورہی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ ملک کی سلامتی ،خوشحالی اورتعمیروترقی کیلئے کوشاں ہے اوریہی ایم کیوایم کامشن ومقصدہے۔متحدہ قومی موومنٹ محب وطن جماعت ہے جوملک کی سلامتی وبقاء کیلئے کام کررہی ہے۔اب الطاف حسین کے پیغام حق پرستی کوپنجاب،سرحداوربلوچستان میں پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

بھائی اصلاح کرنے کا کہا گیا تھا قصیدہ لکھنے کا نہیں:yawn:
 

غازی عثمان

محفلین
میری پسندیدہ سیاسی جماعتیں ۔

پاکستان تحریک انصاف۔ کوئی سیاسی ڈھانچہ نہیں، کوئی پارٹی الیکشن نہیں ۔۔ ون مین شو

جماعت اسلامی پاکستان ۔ کیا کررہی ہیں آج کل سمجھ سے باہر ہے، لگتا ہے جماعت میں سیاسی مدبر ختم ہوگئے ہیں

مسلم لیگ نواز، صرف منہ کے فائر


ان تمام سے مایوس ہوکر اپنی پارٹی بنانے کا سوچ رہا ہو‫‫ں‌ شیخ رشید کی پارٹی جتنے لوگ تو ہو جائیں گے
 

راشد احمد

محفلین
میری پسندیدہ سیاسی جماعتیں ۔

پاکستان تحریک انصاف۔ کوئی سیاسی ڈھانچہ نہیں، کوئی پارٹی الیکشن نہیں ۔۔ ون مین شو

جماعت اسلامی پاکستان ۔ کیا کررہی ہیں آج کل سمجھ سے باہر ہے، لگتا ہے جماعت میں سیاسی مدبر ختم ہوگئے ہیں

مسلم لیگ نواز، صرف منہ کے فائر


ان تمام سے مایوس ہوکر اپنی پارٹی بنانے کا سوچ رہا ہو‫‫ں‌ شیخ رشید کی پارٹی جتنے لوگ تو ہو جائیں گے

عثمان بھائی سیاسی ڈھانچہ اب بننےجارہا ہے۔ پارٹی نے عوامی رابطہ مہم شروع کررکھی ہے لیکن میڈیا اسے اپنی خبروں میں جگہ نہیں دیتا۔ اس جماعت میں‌پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں لیکن وہ نمایاں اس وجہ سے نہیں کہ انہوں نے ابھی الیکشن نہیں لڑا۔ انشاء اللہ جب بھی الیکشن ہوں گے تو بہت سی نمایاں شخصیات سامنے آئیں گی۔
 

dxbgraphics

محفلین
میری پسندیدہ سیاسی جماعت ایم کیوایم ہے۔ یہ جماعت روز بروز پاکستان بھر میں مقبول ہورہی ہے ۔
ابتدائی دور میں ایم کیوایم سے مراد’ مہاجر قومی موومنٹ‘ تھا۔1997ء میں اس جماعت نے خود کو قومی دھارے میں شامل ہونے کے لیےاپنا نام سرکاری طورپر ’مہاجر قومی موومنٹ‘ سے بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیااور اپنے دروازے دوسری زبانیں بولنے والوں کے لیے بھی کھول دیے۔ سیاسی میدان میں آنے کے بعد ایم کیوایم نے اپنی توجہ کا مرکز پاکستان کے غریب اور متوصط طبقوں کو بنایا ۔ اسی وجہ سے ایم کیوایم نے سندھ کی بلدیاتی ،صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر نمایاں کامیابی حاصل کرنی شروع کردی۔گذشتہ کئی برسوں سےکراچی ، حیدر آباد،میر پور خاص اور سکھر کو ایم کیوایم کے گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔سندھ کے شہری علاقوں میں ایک بڑی سیاسی قوت رکھنے کے ساتھ اب یہ جماعت سندھ کی صوبائی اسمبلی کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں بھی اپنا اثر رسوخ رکھتی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے ہمیشہ اپنے منشور میں ایسے پہلوؤں کو شامل کیا ہے جن کا تعلق نچلے اور درمیانے طبقےسے ہے۔ سندھ کہ بعد اسے دوسرے صوبوں میں عوام کی حمایت حاصل ہورہی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ ملک کی سلامتی ،خوشحالی اورتعمیروترقی کیلئے کوشاں ہے اوریہی ایم کیوایم کامشن ومقصدہے۔متحدہ قومی موومنٹ محب وطن جماعت ہے جوملک کی سلامتی وبقاء کیلئے کام کررہی ہے۔اب الطاف حسین کے پیغام حق پرستی کوپنجاب،سرحداوربلوچستان میں پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔


سرکاری طور پر
:chatterbox: :eek: :confused:
:shameonyou:
 

مغزل

محفلین
محمد احمد صاحب! آپ کی مثبت سوچ کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی مگر وائے افسوس کہ
یہ راز کوئی اب راز نہیں، سب اہلِ گلستاں جان چکے
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجامِ گلستاں کیا ہو گا

فاتح بھائی ،
ملت کے ساتھ رابطۂ استوار رکھ ----- پیوستہ رہ شجر سے امید ِ بہا ر رکھ
قنوطیت کا منصب تو پوری ملت نے سنبھالا ہے آپ رجائیت کے علمبراد کیوں نہیں ہوجاتے۔؟؟؟
 
Top