مظفر بخاری
محفلین
میں قیامِ پاکستان سے قبل پنجاب کے ضلع گورداسپور میں 1941 میں پیدا ہوا تھا۔پاکستان بننے کے بعد میرا خاندان لاہور میں بس گیا۔میں نے اسلامیہ ہائی سکول سنت نگر سے ورنیکلر فائنل (جماعت ہشتم) کا امتحان وظیفہ لیکر پاس کیا اور سکول بھر میں اوّل رہا۔پھر میں سینٹرل ماڈل ہائی سکول لاہور میں چلا گیا۔وہاں سے میں نے میٹرک کا امتحان اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا اور وظیفہ لیا۔میٹرک کے بعد میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوگیا وہاں سے ایم-اے انگلش کا امتحان پاس کرنیکے چند ماہ بعد گورنمنٹ کالج لاہور ہی میں انگریزی کا لیکچرار مقرر ہوا۔بطورِ طالبعلم اور استاد میں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں 45 سال گزارے اور وہاں سے 2001 میں ریٹائر ہوا۔ریٹائرمنٹ سے دس پندرہ سال پہلے ہی میں نے اپنے رہائش گاہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں سی ایس ایس (CSS) کی اکیڈمی قائم کر لی تھی۔جہاں میں آج تک مقابلے کے امتحان میں شریک ہونیوالے طلبا کو انگریزی پڑھاتا ہوں۔
مجھے بچپن ہی سے شعر و شاعری کا شوق تھا۔میرے اکثر اشعار میں مزاحیہ رنگ ہوتا تھا۔گورنمنٹ کالج لاہور میں قیام کے دوران میں نے سنجیدہ شاعری بھی کی۔میری غزلیں کالج کے میگزین "راوی" اور ملک کے نامور ادبی رسائل بالخصوص "اوراق" میں چھپا کرتی تھیں۔1972 میں مجھے روزنامہ "مغربی پاکستان"(جو اب بند ہوچکا ہے) میں کالم لکھنے کا موقع ملا۔میرے کالم میں مزاحیہ اور طنزیہ رنگ نمایاں ہوتا تھا۔پھر ہولے ہولے میری طبیعت طنز و مزاح کی طرف مائل ہوگئی۔میرے مزاحیہ مضامین ماہنامہ "اردو ڈائجسٹ" میں چھپنے لگے۔پھر 1980 میں مزاحیہ مضامین اور کہانیوں پر مشتمل میری کتاب "گستاخی معاف " شائع ہوئی۔یہ کتاب ادبی حلقوں اور عوام میں بہت مقبول ہے اب تک اس کے دس ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔آجکل میں روزنامہ "نئی بات" میں گستاخی معاف ہی کے عنوان سے ہفتہ میں ایک دو کالم لکھتا ہوں جو زیادہ تر طنزیہ مزاحیہ ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات سنجیدہ کالم بھی لکھتا ہوں۔میں نے ایک انگریزی بول چال کی کتاب اور ایک سی ایس ایس کے طلبا کیلیے انگریزی کی کتاب لکھی ہے۔یہ دونوں کتابیں طالبعلموں میں بہت مقبول ہیں۔آجکل میں ایک طنز و مزاح کا انسائیکلوپیڈیا مرتب کررہا ہوں جس میں سو سے زیادہ مزاح نگاروں کی تحریریں شامل ہیں۔عنقریب یہ کتاب بھی چھپ کر بازار میں آجائیگی۔اسکے علاوہ میں اپنی سوانح عمری بھی لکھ رہا ہوں جسکا عنوان ہے "اپنی کھوج میں" ۔میرا مختصر شعری مجموعہ بھی زیرِ ترتیب ہے۔میرے تین بچے ہیں۔بڑی بیٹی سی ایس ایس کے امتحان میں پاکستان بھر کی لڑکیوں میں اوّل آئی تھی۔اب وہ کسٹمز میں ایڈیشنل کلیکٹر ہے۔اس سے چھوٹی بیٹی انگریزی کی اسسٹنٹ پروفیسر ہے۔میرا بیٹا حسن مکینیکل انجینئیر ہے۔اس نے انجینئیرنگ میں ایم ایس سی انگلینڈ کی ایک یونیورسٹی سے کی تھی اور اب وہ انگلینڈ ہی کی ایک معروف فرم میں انجینئیر ہے۔
مجھے بچپن ہی سے شعر و شاعری کا شوق تھا۔میرے اکثر اشعار میں مزاحیہ رنگ ہوتا تھا۔گورنمنٹ کالج لاہور میں قیام کے دوران میں نے سنجیدہ شاعری بھی کی۔میری غزلیں کالج کے میگزین "راوی" اور ملک کے نامور ادبی رسائل بالخصوص "اوراق" میں چھپا کرتی تھیں۔1972 میں مجھے روزنامہ "مغربی پاکستان"(جو اب بند ہوچکا ہے) میں کالم لکھنے کا موقع ملا۔میرے کالم میں مزاحیہ اور طنزیہ رنگ نمایاں ہوتا تھا۔پھر ہولے ہولے میری طبیعت طنز و مزاح کی طرف مائل ہوگئی۔میرے مزاحیہ مضامین ماہنامہ "اردو ڈائجسٹ" میں چھپنے لگے۔پھر 1980 میں مزاحیہ مضامین اور کہانیوں پر مشتمل میری کتاب "گستاخی معاف " شائع ہوئی۔یہ کتاب ادبی حلقوں اور عوام میں بہت مقبول ہے اب تک اس کے دس ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔آجکل میں روزنامہ "نئی بات" میں گستاخی معاف ہی کے عنوان سے ہفتہ میں ایک دو کالم لکھتا ہوں جو زیادہ تر طنزیہ مزاحیہ ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات سنجیدہ کالم بھی لکھتا ہوں۔میں نے ایک انگریزی بول چال کی کتاب اور ایک سی ایس ایس کے طلبا کیلیے انگریزی کی کتاب لکھی ہے۔یہ دونوں کتابیں طالبعلموں میں بہت مقبول ہیں۔آجکل میں ایک طنز و مزاح کا انسائیکلوپیڈیا مرتب کررہا ہوں جس میں سو سے زیادہ مزاح نگاروں کی تحریریں شامل ہیں۔عنقریب یہ کتاب بھی چھپ کر بازار میں آجائیگی۔اسکے علاوہ میں اپنی سوانح عمری بھی لکھ رہا ہوں جسکا عنوان ہے "اپنی کھوج میں" ۔میرا مختصر شعری مجموعہ بھی زیرِ ترتیب ہے۔میرے تین بچے ہیں۔بڑی بیٹی سی ایس ایس کے امتحان میں پاکستان بھر کی لڑکیوں میں اوّل آئی تھی۔اب وہ کسٹمز میں ایڈیشنل کلیکٹر ہے۔اس سے چھوٹی بیٹی انگریزی کی اسسٹنٹ پروفیسر ہے۔میرا بیٹا حسن مکینیکل انجینئیر ہے۔اس نے انجینئیرنگ میں ایم ایس سی انگلینڈ کی ایک یونیورسٹی سے کی تھی اور اب وہ انگلینڈ ہی کی ایک معروف فرم میں انجینئیر ہے۔