کاشفی
محفلین
اپنے دوست بنئیے
از: محترمہ خوشی صاحبہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر کسی کو دوستوں کی ضرورت ہوتی ھے مگر دوستی کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں ایسا سنا تھا مگر میں نہیں سمجھتی کہ انسان کبھی سوچتا ھے کسی سے دوستی سے پہلے۔
خیر میں جو بات کرنا چاہتی ہوں وہ یہ کہ ہمیں اپنے آپ سے دوستی کرنی چاہیے کیونکہ اپنی ذات سے اچھا دوست نہیں ہوتا اپنی ذات سے اچھا نقاد کوئی نہیںہوتا
ہماری غلطی پہ ہمارا اپنا ضمیر جتنی لعنت ملامت کرتا ھے کوئی اور نہیں کر سکتاپھر خود سے دوستی کا فائدہ یہ ہوتا ھے کہ ہم کسی کے مذاق کا نشانہ نہیں بنتے کیونکہ دوستی میں اکثر ہوتا ھے کہ ہم اپنی بہت سی ایسی باتیں اپنے قریبی دوست سے شئیر کر دیتے ھیں اور پھر وہی باتیں ہمارے لئے سزا بن جاتی ھیں کیونکہ جب وہ باتیں ہمارا دوست اپنے قریبی دوست سے شئیر کرتا ھے تو وہ اک خبر بن جاتی ھیں
ایسا ہونا کوئی انہونی نہیں اکثر ایسا ہی ہوتا ھے ہم بہت سی باتیں اپنے بہن بھائیوں سے شئیر نہیں کرتے دوستوں سے کر دیتے ھیں اور دوست کیا کرتے ھیں یا شاید وہ دوست ہوتے ہی نہیں ،
دوستوں کے درمیاں باتیں امانت ہوتی ھیں اور وہ اس کے امین ہوتے ھیں ہمارا مذھب بھی ہمیں یہی سیکھاتا ھے مگر ہم شاید ایسی باتیں لکھتے تو ھیں مگر ان پہ عمل نہیں کرتے
غلطیاں کس سے نہیں ہوتیں ایک انسان جو اپنی کی ہوئی غلطی پہ خود پشیمان ہوتا ھے اس کو اور شرمندہ کرنا کیا زیادتی نہیں اس کے ساتھ ، اس طرح تو وہ ساری زندگی اس ملامت سے خود کو آزاد نہیں کر پاتا جو اس کا ضمیر اسے کرتا رہتا ھے
جیسے ایک بچے سے جب پہلی بار کوئی نقصان ہوتا ھے کوئی کھلونا یا گھر کی قیمتی چیز ٹوٹ جاتی ھے تو وہ خود پریشان ہو جاتا ھے ڈر جاتا ھے اس پہ اگر اس کے والدین اسے ڈانٹنا یا مارنا شروع کر دیں تو بچے پہ اس کا کوئی اچھا اثر نہیں پڑتا
ہم کیوں دوسروں کی جستجو میں لگے رہتے ھیں کیوں کسی کے بارے میں جاننے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے کیوں دوستیوں کا ناٹک رچا لیتے ھیں کیوں اس سے آخر حاصل کیا ہوتا ھے
کسی کی ہنسی اڑا لینے سے کیا تسکین ملتی ھے کئی بار لوگوں کا کسی پہ ہنسنا اسے نفسیاتی مریض بنا دیتا ھے مگر ہم لوگ اس بات کی قطع پرواہ نہیں کرتے کہ ہمارا چند گھڑی کا ہنسی ٹھٹھا کسی کی زندگی کا عذاب بن رہا ھے
ہمیں اپنی عزت بڑی عزیز ہوتی ھیں ذرا سی بات پہ ہم لڑنے مرنے پہ اتر آتے ھیں مگر دوسروں کے بارے ایسی بات کر جاتے ھیں (جانے میں کہیں یا انجانے میں اس سے بحث نہیں) جو اس کے وقار کو ٹھیس پہنچاتی ھیں
کیا ہم دوسری کی عزتوں کا پاس نہیں کر سکتے کیا انسان اتنا خود غرض ھے انسان کے پاس ہوتا کیا ھے روپیہ پیسہ یہ سب آنے جانے والی چیزیں ھیں رہنے والی شے ھے تو اس کا نام اس کی عزت
ہم کیوں خود کو اعلی و افضل ثابت کرنے کے چکر میں دوسروں کو پاؤں کی دھول بنا دینا چاہتے ھیں ہمارا مذھب تو کہتا ھے سب انسان برابر ھیں اعلی کوئی ھے تو اپنے تقوی کی وجہ سے
خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی شاید میں اچھی لکھاری ہوتی تو بہتر طریقے سے لکھ پاتی
بس اپنے دوست بنیئے خود سے دوستی کیجئے اپنے باتیں خود کو بتائیں اور جن باتوں کو راز رکھنا چاھتے ھیں وہ قریبی دوست کو بھی مت بتائیں کیونکہ اس کے بھی قریبی دوست ہو سکتے ھیں
بس مجھے یہی کہنا ھے کہ اپنے دوست بنیئے
(بشکریہ : نادر خان سرگِروہ)
از: محترمہ خوشی صاحبہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر کسی کو دوستوں کی ضرورت ہوتی ھے مگر دوستی کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں ایسا سنا تھا مگر میں نہیں سمجھتی کہ انسان کبھی سوچتا ھے کسی سے دوستی سے پہلے۔
خیر میں جو بات کرنا چاہتی ہوں وہ یہ کہ ہمیں اپنے آپ سے دوستی کرنی چاہیے کیونکہ اپنی ذات سے اچھا دوست نہیں ہوتا اپنی ذات سے اچھا نقاد کوئی نہیںہوتا
ہماری غلطی پہ ہمارا اپنا ضمیر جتنی لعنت ملامت کرتا ھے کوئی اور نہیں کر سکتاپھر خود سے دوستی کا فائدہ یہ ہوتا ھے کہ ہم کسی کے مذاق کا نشانہ نہیں بنتے کیونکہ دوستی میں اکثر ہوتا ھے کہ ہم اپنی بہت سی ایسی باتیں اپنے قریبی دوست سے شئیر کر دیتے ھیں اور پھر وہی باتیں ہمارے لئے سزا بن جاتی ھیں کیونکہ جب وہ باتیں ہمارا دوست اپنے قریبی دوست سے شئیر کرتا ھے تو وہ اک خبر بن جاتی ھیں
ایسا ہونا کوئی انہونی نہیں اکثر ایسا ہی ہوتا ھے ہم بہت سی باتیں اپنے بہن بھائیوں سے شئیر نہیں کرتے دوستوں سے کر دیتے ھیں اور دوست کیا کرتے ھیں یا شاید وہ دوست ہوتے ہی نہیں ،
دوستوں کے درمیاں باتیں امانت ہوتی ھیں اور وہ اس کے امین ہوتے ھیں ہمارا مذھب بھی ہمیں یہی سیکھاتا ھے مگر ہم شاید ایسی باتیں لکھتے تو ھیں مگر ان پہ عمل نہیں کرتے
غلطیاں کس سے نہیں ہوتیں ایک انسان جو اپنی کی ہوئی غلطی پہ خود پشیمان ہوتا ھے اس کو اور شرمندہ کرنا کیا زیادتی نہیں اس کے ساتھ ، اس طرح تو وہ ساری زندگی اس ملامت سے خود کو آزاد نہیں کر پاتا جو اس کا ضمیر اسے کرتا رہتا ھے
جیسے ایک بچے سے جب پہلی بار کوئی نقصان ہوتا ھے کوئی کھلونا یا گھر کی قیمتی چیز ٹوٹ جاتی ھے تو وہ خود پریشان ہو جاتا ھے ڈر جاتا ھے اس پہ اگر اس کے والدین اسے ڈانٹنا یا مارنا شروع کر دیں تو بچے پہ اس کا کوئی اچھا اثر نہیں پڑتا
ہم کیوں دوسروں کی جستجو میں لگے رہتے ھیں کیوں کسی کے بارے میں جاننے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے کیوں دوستیوں کا ناٹک رچا لیتے ھیں کیوں اس سے آخر حاصل کیا ہوتا ھے
کسی کی ہنسی اڑا لینے سے کیا تسکین ملتی ھے کئی بار لوگوں کا کسی پہ ہنسنا اسے نفسیاتی مریض بنا دیتا ھے مگر ہم لوگ اس بات کی قطع پرواہ نہیں کرتے کہ ہمارا چند گھڑی کا ہنسی ٹھٹھا کسی کی زندگی کا عذاب بن رہا ھے
ہمیں اپنی عزت بڑی عزیز ہوتی ھیں ذرا سی بات پہ ہم لڑنے مرنے پہ اتر آتے ھیں مگر دوسروں کے بارے ایسی بات کر جاتے ھیں (جانے میں کہیں یا انجانے میں اس سے بحث نہیں) جو اس کے وقار کو ٹھیس پہنچاتی ھیں
کیا ہم دوسری کی عزتوں کا پاس نہیں کر سکتے کیا انسان اتنا خود غرض ھے انسان کے پاس ہوتا کیا ھے روپیہ پیسہ یہ سب آنے جانے والی چیزیں ھیں رہنے والی شے ھے تو اس کا نام اس کی عزت
ہم کیوں خود کو اعلی و افضل ثابت کرنے کے چکر میں دوسروں کو پاؤں کی دھول بنا دینا چاہتے ھیں ہمارا مذھب تو کہتا ھے سب انسان برابر ھیں اعلی کوئی ھے تو اپنے تقوی کی وجہ سے
خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی شاید میں اچھی لکھاری ہوتی تو بہتر طریقے سے لکھ پاتی
بس اپنے دوست بنیئے خود سے دوستی کیجئے اپنے باتیں خود کو بتائیں اور جن باتوں کو راز رکھنا چاھتے ھیں وہ قریبی دوست کو بھی مت بتائیں کیونکہ اس کے بھی قریبی دوست ہو سکتے ھیں
بس مجھے یہی کہنا ھے کہ اپنے دوست بنیئے
(بشکریہ : نادر خان سرگِروہ)