محمد تابش صدیقی
منتظم
صحیح کہا کسی نے کہ پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آ جاتے ہیں.محمداحمد بھائی نے میری شاعری کی بابت بعض اوقات اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ میرا پرانا کلام نئے کی نسبت زیادہ وقیع ہے۔ ان کے اس حسنِ ظن کو دیکھتے ہوئے میرا ارادہ تھا کہ اپنی بالکل ابتدائی غزلوں میں سے ایک انھیں دکھاؤں۔ اپنی ایک تعلیمی کاپی پر لکھی ہوئی اس غزل کا عکس میں نے لے کر کچھ دن پہلے ذیل کے نوٹ کے ساتھ فیس بک پر شائع کیا تھا۔ ارادہ تھا کہ احبابِ محفل اور بالخصوص محمداحمد بھائی کی نذر کیا جائے۔ مگر "تدبیر کند بندہ تقدیر زند خندہ" کے مصداق پچھلے دنوں میں یہ ممکن نہیں ہو سکا۔ اب پیش کر رہا ہوں کہ شاید اسی بہانے طبیعت کا اضمحلال اور تکدر دور ہو۔عہدِ طفولیت کی ایک غزل۔۔۔۔
گر قبول افتد زہے عز و شرف!
ایف ایس سی کے آخری سال میں تھا تب میں۔ تصویر کے دوسرے صفحے پر حیاتیات کا سبق تحریر ہے۔
وہ تو شرما گئے جب مائلِ اظہار ہوئے
ہر مصیبت میں ہمی سادہ گرفتار ہوئے
جام اٹھا، رقص کناں ہو کہ گدایانِ وفا
آج پھر خوار ہوئے اور سرِ بازار ہوئے
جب ملا ذوقِ سفر عشق کے رہبر سے مجھے
راستے زیست کے کچھ اور بھی دشوار ہوئے
ایک سے ایک قیامت نے مرا گھر تاڑا
دل ہوا، مے ہوئی، یارانِ طرحدار ہوئے
شام کی شوخ ہوا بندِ قبا کھول گئی
اپنے راحیلؔ میاں مفت گنہگار ہوئے
راحیلؔ فاروق
۲۰۰۶ء
لاجواب