سید اسد معروف
محفلین
اپنے سبکدوش ہونے والے مہربان اور شفیق پروفیسر کے لئے کچھ اشعار لکھے ہیں ، اصلاح کے لیے پیش کرتا ہوں
وہ ہے شجاعت کا استعارا، بہت نڈر ہے
وہ رہروانِ رہِ صداقت کا راہبر ہے
میں جانتا ہوں وہ ساتھ دے گا تو صرف سچ کا
کسی قِسم کا کوئی سحر اس پہ بے اثر ہے
الجھ پڑا ہے وہ سب سے تنہا، تمہیں خبر کیا
وہ کتنے لوگوں کی زد پہ،کس کس محاذ پر ہے
میں کتنا محفوظ خود کو محسوس کر رہا ہوں
وہ ایک سایہ ہے، سائباں ہے، وہ اک شجر ہے
وہ سنگ ہے تو مسافتوں کا خیال کیسا
میں بے فکر ہوں کہ ساتھ میرے وہ راہبر ہے
وہ بولتا ہے تو دل سے سنتے ہیں سننے والے
کہ اس کی ہر بات، ہر حوالے سے معتبر ہے
اے کاش اس کو کبھی کہیں پہ بتا سکوں میں
ہماری نظروں میں احترام اس کا کس قدر ہے
یہاں وہاں پہ رواں دواں کتنے کارواں ہیں
سبھی مسافر ہیں زندگانی بھی اک سفر ہے
کہاں پہ آئیں گے موڑ رستے میں، کون جانے
کہاں پہ بچھڑے گا کون ہم سے کسے خبر ہے
وہ ہے شجاعت کا استعارا، بہت نڈر ہے
وہ رہروانِ رہِ صداقت کا راہبر ہے
میں جانتا ہوں وہ ساتھ دے گا تو صرف سچ کا
کسی قِسم کا کوئی سحر اس پہ بے اثر ہے
الجھ پڑا ہے وہ سب سے تنہا، تمہیں خبر کیا
وہ کتنے لوگوں کی زد پہ،کس کس محاذ پر ہے
میں کتنا محفوظ خود کو محسوس کر رہا ہوں
وہ ایک سایہ ہے، سائباں ہے، وہ اک شجر ہے
وہ سنگ ہے تو مسافتوں کا خیال کیسا
میں بے فکر ہوں کہ ساتھ میرے وہ راہبر ہے
وہ بولتا ہے تو دل سے سنتے ہیں سننے والے
کہ اس کی ہر بات، ہر حوالے سے معتبر ہے
اے کاش اس کو کبھی کہیں پہ بتا سکوں میں
ہماری نظروں میں احترام اس کا کس قدر ہے
یہاں وہاں پہ رواں دواں کتنے کارواں ہیں
سبھی مسافر ہیں زندگانی بھی اک سفر ہے
کہاں پہ آئیں گے موڑ رستے میں، کون جانے
کہاں پہ بچھڑے گا کون ہم سے کسے خبر ہے