آصف شفیع
محفلین
غزل:
اپنے ہاتھوں سے چراغوں کو بجھانے لگ جائیں
تم تو کہتے ہو کہ ہم لوگ ٹھکانے لگ جائیں
اس کو دیکھیں تو رگِ جاں سے بھی نزدیک ہے وہ
اور ڈھونڈھیں تو کئی ایک زمانے لگ جائیں
ہم اسی آس پہ بیٹھے ہیں سرِ کشتِ خیال
عین ممکن ہے کہ وہ عہد نبھانے لگ جائیں
یہی سمجھو کہ کسی پیڑ پہ پھل آیا ہے
گھر میں پتھر جو ہر اک سمت سے آنے لگ جائین
ٹھیک ہے زخم جدائی کا بہت گہرا ہے
اور ایسا بھی نہیں ہے کہ دکھانے لگ جا ئیں
یہ نیا عہدِ رفاقت بھی ہمیں راس نہیں
اب تو خواہش ہے وہی روگ پرانے لگ جائیں
(آصف شفیع)
اپنے ہاتھوں سے چراغوں کو بجھانے لگ جائیں
تم تو کہتے ہو کہ ہم لوگ ٹھکانے لگ جائیں
اس کو دیکھیں تو رگِ جاں سے بھی نزدیک ہے وہ
اور ڈھونڈھیں تو کئی ایک زمانے لگ جائیں
ہم اسی آس پہ بیٹھے ہیں سرِ کشتِ خیال
عین ممکن ہے کہ وہ عہد نبھانے لگ جائیں
یہی سمجھو کہ کسی پیڑ پہ پھل آیا ہے
گھر میں پتھر جو ہر اک سمت سے آنے لگ جائین
ٹھیک ہے زخم جدائی کا بہت گہرا ہے
اور ایسا بھی نہیں ہے کہ دکھانے لگ جا ئیں
یہ نیا عہدِ رفاقت بھی ہمیں راس نہیں
اب تو خواہش ہے وہی روگ پرانے لگ جائیں
(آصف شفیع)