اپنے ہاتھوں سے چراغوں کو۔۔۔۔۔۔۔ آصف شفیع

آصف شفیع

محفلین
غزل:

اپنے ہاتھوں سے چراغوں کو بجھانے لگ جائیں
تم تو کہتے ہو کہ ہم لوگ ٹھکانے لگ جائیں

اس کو دیکھیں تو رگِ جاں سے بھی نزدیک ہے وہ
اور ڈھونڈھیں تو کئی ایک زمانے لگ جائیں

ہم اسی آس پہ بیٹھے ہیں سرِ کشتِ خیال
عین ممکن ہے کہ وہ عہد نبھانے لگ جائیں

یہی سمجھو کہ کسی پیڑ پہ پھل آیا ہے
گھر میں پتھر جو ہر اک سمت سے آنے لگ جائین

ٹھیک ہے زخم جدائی کا بہت گہرا ہے
اور ایسا بھی نہیں ہے کہ دکھانے لگ جا ئیں

یہ نیا عہدِ رفاقت بھی ہمیں راس نہیں
اب تو خواہش ہے وہی روگ پرانے لگ جائیں

(آصف شفیع)
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت اچھی غزل ہے آصف صاحب، سبھی اشعار اچھے ہیں لیکن یہ بہت پسند آئے مجھے، بہت خوب!

اس کو دیکھیں تو رگِ جاں سے بھی نزدیک ہے وہ
اور ڈھونڈھیں تو کئی ایک زمانے لگ جائیں

ہم اسی آس پہ بیٹھے ہیں سرِ کشتِ خیال
عین ممکن ہے کہ وہ عہد نبھانے لگ جائیں

یہ نیا عہدِ رفاقت بھی ہمیں راس نہیں
اب تو خواہش ہے وہی روگ پرانے لگ جائیں
 

الف عین

لائبریرین
حسب معمول اچھی غزل ہے۔لیکن آصف، ’لگ جائیں‘ بمعنی ’لگیں‘ ہر جگہ اچھا نہیں لگتا۔ جیسا یہاں ہے
ہم اسی آس پہ بیٹھے ہیں سرِ کشتِ خیال
عین ممکن ہے کہ وہ عہد نبھانے لگ جائیں

یہی سمجھو کہ کسی پیڑ پہ پھل آیا ہے
گھر میں پتھر جو ہر اک سمت سے آنے لگ جائین

ٹھیک ہے زخم جدائی کا بہت گہرا ہے
اور ایسا بھی نہیں ہے کہ دکھانے لگ جا ئیں
بہر حال یہ معمولی سا سقم لگ رہا ہے۔ لیکن سوچا کہ ممکن ہے تم صحیح رائے پسند کرو بہ نسبت تعریف کے۔
 

محسن حجازی

محفلین
کیا ہی کہنے آصف صاحب! گو ہم کو ذرا کم کم ہی مہلت مل رہی ہے کار جہاں سے تاہم جو ملی ہے تو آپ کی یہ متنوع الخیال غزل ہمیں کیا خوب فراغت کے لمحات میں عیاشی محسوس ہو رہی ہے خاص طور پر ذیل کے اشعار:

اپنے ہاتھوں سے چراغوں کو بجھانے لگ جائیں
تم تو کہتے ہو کہ ہم لوگ ٹھکانے لگ جائیں

اس کو دیکھیں تو رگِ جاں سے بھی نزدیک ہے وہ
اور ڈھونڈھیں تو کئی ایک زمانے لگ جائیں

ہم اسی آس پہ بیٹھے ہیں سرِ کشتِ خیال
عین ممکن ہے کہ وہ عہد نبھانے لگ جائیں
 

مغزل

محفلین
اپنے ہاتھوں سے چراغوں کو بجھانے لگ جائیں
تم تو کہتے ہو کہ ہم لوگ ٹھکانے لگ جائیں

اچھا مکالمہ اور خوب لہجہ ہے واہ ’’ ٹھکانے ‘‘ سے ’’ ظلمت گزیدگی ‘‘ کی مراد خوب ہے واہ۔

اس کو دیکھیں تو رگِ جاں سے بھی نزدیک ہے وہ
اور ڈھونڈھیں تو کئی ایک زمانے لگ جائیں

شعرمیں اس طرح کے سیکڑوں اشعار کی گونج ہے ، جو اس کے حسن کو گہنا رہی ہے
دوم یہ کہ ’’ کئی ایک ‘‘ کی ترکیب نے شعر کا ابلاغ محدود کردیا ہے ۔ ( میرا خیال ہے آپ اختلاف بھی کرسکتے ہیں )


ہم اسی آس پہ بیٹھے ہیں سرِ کشتِ خیال
عین ممکن ہے کہ وہ عہد نبھانے لگ جائیں

مصرع ثانی میں بابا جانی نے ردیف کی بات کی ہے ، میں مکمل اتفاق رکھتا ہوں ، لیکن جناب مصرع
اولی کا جواب نہیں بہت خوب واہ ہ ہ ہ ‌’’ ہم اسی آس پہ بیٹھے ہیں سرِ کشتِ خیال ‘‘ کیا کہنے ۔


یہی سمجھو کہ کسی پیڑ پہ پھل آیا ہے
گھر میں پتھر جو ہر اک سمت سے آنے لگ جائیں

شعر گونج کا شکار ہے ۔ سب سے پہلے شکیب کا شعر یاد آتا ہے ۔ اور پھر یکے بعد دیگرے کئی اور شعرا ء کے اشعار۔ میری ناچیز رائے میں شعر پر شاعر کا استحقاق ہی اسے اسلوب کے راہ پر لے جاتا ہے وگرنہ ہزاروں شاعر آئے اور گئے بھی۔ مصرع ثانی میں بابا جانی والی بات سے مجھے اختلاف ہے (چونکہ انہوں نے تین شعر دہرائے ہیں ) کہ میرے خیال میں یہاں ردیف خوب مزہ دے رہی ہے ۔ ’’ آنے لگ جائیں ‘‘ تسلسل کا صیغہ ہے اور میرے خیال میں زبان کا استعمال بھی۔

ٹھیک ہے زخم جدائی کا بہت گہرا ہے
اور ایسا بھی نہیں ہے کہ دکھانے لگ جا ئیں

یہاں بھی مصرع ثانی میں بابا جانی والی بات سے مجھے اختلاف ہے کہ میرے خیال میں یہاں ردیف کا سب سے بہتر استعمال ہوا ہے ۔ ’’دکھانے لگ جائیں ‘‘ یہاں بھی زبان کا استعمال ہے ۔

یہ نیا عہدِ رفاقت بھی ہمیں راس نہیں
اب تو خواہش ہے وہی روگ پرانے لگ جائیں

اچھا شعر ہے واہ ۔ داخلی کیفات کا آئنہ دار ۔’’اب تو خواہش ہے وہی روگ پرانے لگ جائیں
‘‘‘


والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ
 

آصف شفیع

محفلین
مغل صاحب! آپ کی قیمتی آرا کا بہت بہت شکریہ۔ آپ نے جس طرح ہر شعر کو ڈسکس کیا اس کیلیے بے حد شکر گذار ہوں۔
امید ہے دوسرے احباب بھی اپنی آرا سے نوازیں گے۔ شکریہ۔
اپنے ہاتھوں سے چراغوں کو بجھانے لگ جائیں
تم تو کہتے ہو کہ ہم لوگ ٹھکانے لگ جائیں

اچھا مکالمہ اور خوب لہجہ ہے واہ ’’ ٹھکانے ‘‘ سے ’’ ظلمت گزیدگی ‘‘ کی مراد خوب ہے واہ۔

اس کو دیکھیں تو رگِ جاں سے بھی نزدیک ہے وہ
اور ڈھونڈھیں تو کئی ایک زمانے لگ جائیں

شعرمیں اس طرح کے سیکڑوں اشعار کی گونج ہے ، جو اس کے حسن کو گہنا رہی ہے
دوم یہ کہ ’’ کئی ایک ‘‘ کی ترکیب نے شعر کا ابلاغ محدود کردیا ہے ۔ ( میرا خیال ہے آپ اختلاف بھی کرسکتے ہیں )


ہم اسی آس پہ بیٹھے ہیں سرِ کشتِ خیال
عین ممکن ہے کہ وہ عہد نبھانے لگ جائیں

مصرع ثانی میں بابا جانی نے ردیف کی بات کی ہے ، میں مکمل اتفاق رکھتا ہوں ، لیکن جناب مصرع
اولی کا جواب نہیں بہت خوب واہ ہ ہ ہ ‌’’ ہم اسی آس پہ بیٹھے ہیں سرِ کشتِ خیال ‘‘ کیا کہنے ۔


یہی سمجھو کہ کسی پیڑ پہ پھل آیا ہے
گھر میں پتھر جو ہر اک سمت سے آنے لگ جائیں

شعر گونج کا شکار ہے ۔ سب سے پہلے شکیب کا شعر یاد آتا ہے ۔ اور پھر یکے بعد دیگرے کئی اور شعرا ء کے اشعار۔ میری ناچیز رائے میں شعر پر شاعر کا استحقاق ہی اسے اسلوب کے راہ پر لے جاتا ہے وگرنہ ہزاروں شاعر آئے اور گئے بھی۔ مصرع ثانی میں بابا جانی والی بات سے مجھے اختلاف ہے (چونکہ انہوں نے تین شعر دہرائے ہیں ) کہ میرے خیال میں یہاں ردیف خوب مزہ دے رہی ہے ۔ ’’ آنے لگ جائیں ‘‘ تسلسل کا صیغہ ہے اور میرے خیال میں زبان کا استعمال بھی۔

ٹھیک ہے زخم جدائی کا بہت گہرا ہے
اور ایسا بھی نہیں ہے کہ دکھانے لگ جا ئیں

یہاں بھی مصرع ثانی میں بابا جانی والی بات سے مجھے اختلاف ہے کہ میرے خیال میں یہاں ردیف کا سب سے بہتر استعمال ہوا ہے ۔ ’’دکھانے لگ جائیں ‘‘ یہاں بھی زبان کا استعمال ہے ۔

یہ نیا عہدِ رفاقت بھی ہمیں راس نہیں
اب تو خواہش ہے وہی روگ پرانے لگ جائیں

اچھا شعر ہے واہ ۔ داخلی کیفات کا آئنہ دار ۔’’اب تو خواہش ہے وہی روگ پرانے لگ جائیں
‘‘‘


والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ
 

مغزل

محفلین
مغل صاحب! آپ کی قیمتی آرا کا بہت بہت شکریہ۔ آپ نے جس طرح ہر شعر کو ڈسکس کیا اس کیلیے بے حد شکر گذار ہوں۔
امید ہے دوسرے احباب بھی اپنی آرا سے نوازیں گے۔ شکریہ۔

ارے صاحب کیا ہم اور کیا ہماری ’’ قیمتی ‘‘ رائے ۔ یہ جومقدور بھر کوشش کی ہے ۔ آپ احباب ہی سے سیکھا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
’میں ایک سائکل خریدنے لگا ہوں‘
جب یہ جملہ ہم نے پڑھا تھا ’مرحوم کی یاد میں‘ تو لگا کہ اس جملے میں بھی پطرس مرحوم نے مزاح کیا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ پنجاب میں محاورہ ہے۔۔ اور اس جملے کا مطلب ہے ’میں ایک سائکل خریدنے والا ہوں‘۔ یہ بات ابھی یاد آئی۔ ممکن ہے کہ ردیف میں کچھ ان معنوں میں بھی ہو۔۔
 

آصف شفیع

محفلین
’میں ایک سائکل خریدنے لگا ہوں‘
جب یہ جملہ ہم نے پڑھا تھا ’مرحوم کی یاد میں‘ تو لگا کہ اس جملے میں بھی پطرس مرحوم نے مزاح کیا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ پنجاب میں محاورہ ہے۔۔ اور اس جملے کا مطلب ہے ’میں ایک سائکل خریدنے والا ہوں‘۔ یہ بات ابھی یاد آئی۔ ممکن ہے کہ ردیف میں کچھ ان معنوں میں بھی ہو۔۔

اس ردیف کو انہی معنوں میں بہت سے لوگوں نےیہاں استعمال کیا ہے ہو سکتا ہے یہ لہجہ اہل زبان کے نزدیک مستعمل نہ ہو لیکن یہاں تو یہ استعمال ہو رہا ہے۔ باقی احمد پوری، خالد علیم، عباس تابش، نوید صادق، ادریس بابر، انجم سلیمی ان سب نے اسی زمین میں غزلیں کہی ہیں اور ردیف کا یہ مفہوم بھی استعال ہوا ہے جیسا آپ نے ارشاد فرمایا۔ لیکن میرے نزدیک آپ کی رائے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
 

الف عین

لائبریرین
وہاں بھی کھٹکا آیا ہوں!!! یہی خیال تھا کہ شاید ان معنوں میں کسی نے استعمال کیا ہو۔۔لیکن یہ بات تو مانیں گے نا کہ مقامی محاورہ استعمال کرنے سے تفہیم میں مشکل ہوتی ہے۔ چاہے اس کا جواز لے آئیں۔
 

فاتح

لائبریرین
ٹھیک ہے زخم جدائی کا بہت گہرا ہے
اور ایسا بھی نہیں ہے کہ دکھانے لگ جا ئیں

آصف صاحب! آپ نے مزید کہنے کا ارشاد فرمایا ہے تو ایک گستاخی کرنا چاہوں گا درج بالا مشعر کے مصرع ثانی پر۔۔۔
کیا مصرع اولیٰ کی بندش کی مناسبت سے "اور ایسا بھی نہیں" کی بجائے "مگر ایسا بھی نہیں" زیادہ بہتر نہ لگے گا؟

"لگ جائیں" کی ترکیب کا غلط ہونا مجھے سمجھ نہیں‌آیا۔۔۔ شاید ہمارے ہاں‌اس محاورے کا استعمال اتنا عام ہو چکا ہے کہ بالکل بھی انوکھا نہیں لگا۔

خصوصاً ذیل کا شعر تو اتنا خوبصورت اور مکمل ہے کہ اس کی بازگشت بہت دیر تک سماعتوں‌میں گونجتی رہی:
ہم اسی آس پہ بیٹھے ہیں سرِ کشتِ خیال
عین ممکن ہے کہ وہ عہد نبھانے لگ جائیں
 

آصف شفیع

محفلین
آصف صاحب! آپ نے مزید کہنے کا ارشاد فرمایا ہے تو ایک گستاخی کرنا چاہوں گا درج بالا مشعر کے مصرع ثانی پر۔۔۔
کیا مصرع اولیٰ کی بندش کی مناسبت سے "اور ایسا بھی نہیں" کی بجائے "مگر ایسا بھی نہیں" زیادہ بہتر نہ لگے گا؟

"لگ جائیں" کی ترکیب کا غلط ہونا مجھے سمجھ نہیں‌آیا۔۔۔ شاید ہمارے ہاں‌اس محاورے کا استعمال اتنا عام ہو چکا ہے کہ بالکل بھی انوکھا نہیں لگا۔

خصوصاً ذیل کا شعر تو اتنا خوبصورت اور مکمل ہے کہ اس کی بازگشت بہت دیر تک سماعتوں‌میں گونجتی رہی:

"مگر ایسا بھی نہیں" بھی ٹھیک ہے بلکہ زیادہ واضح ہے۔ بہت شکریہ اس تجویز کا۔
 
Top