محمداحمد
لائبریرین
اگر آپ کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جو 1947ء سے پہلے مسکرائی تھیں، تو یقیناً یہ مضمون آپ ہی کے لیے ہے۔
ہماری اس بات کا برا نہ مانیے گا۔ خدانخواستہ ہم نے آپ کو اتنا بوڑھا تصور نہیں کیا، دراصل ہم نے یہ بات تو محاورتاً کہی ہے۔ اشارہ اس مشکل پسندی کی طرف ہے، جو ذرا کم ہی مسکراتی ہیں اور انھیں خوش کرنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔
یہ اشارہ ان کی جانب بھی ہے، جو کوئی بھی کام کرلیں، مطمئن نہیں ہوتے۔ ماضی کی غلطیوں کو یاد کر کے نہ صرف اپنا مستقبل برباد کرتے ہیں، بلکہ ایک ذہنی اذیت کا شکار بھی رہتے ہیں۔
اور پھر اگر آپ صنف نازک سے بھی تعلق رکھتی ہیں، تو معاملہ اور زیادہ گمبھیر ہو جاتا ہے، بھئی آپ کے گھر والوں کو بھی آپ کی اس عادت سے خاطرخواہ خوشی نہیں ہوگی، عملی زندگی میں ’میاں صاحب‘ شاکی ہو سکتے ہیں، بچوں کی تربیت میں رکاوٹ آسکتی ہے، پھر سماجی میل جول کے لیے مسکراہٹ اور آپ کی پیشانی کی بے شکن ہونا ایک سہولت فراہم کرتا ہے، ورنہ سامنے والے دامن بچا لینے میں ہی ’عافیت‘ جانتی ہے اور خطرناک بات یہ ہے کہ ان کے آس پاس رہنے والے لوگ بھی نہ صرف اس اذیت کو محسوس کرتے ہیں، بلکہ وہ خود بھی منفی سوچ کے اس سفر میں ان کے ساتھ قدم سے قدم ملانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں کیوں کہ انھیں بھی زندگی کے صرف وہ منفی پہلو شدت سے نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں، جو اس سے پہلے بہت دھندلے تھے۔
انگریزی زبان میں اس کے لیے ایک لفظ استعمال کیا جاتا ہے، جسے آج کی نوجوان نسل بہت شدومد سے ’سوشل میڈیا‘ پر استعمال کرتی ہوئی نظر آتی ہے یعنی ایسے انسان سے اچھی وائبز ’’Vibes‘‘ نہیں آتیں۔ اب وائبز ’’Vibes‘‘ کا اردو ترجمہ کیا جائے، تو مطلب کچھ یوں ہے کہ ارتعاش یا فضا، لیکن یہ لفظ اردو میں اتنے مستعمل نہیں ہیں، اس لیے اسے آپ وائبز ’’Vibes‘‘ سے ہی سمجھنے کی کوشش کیجیے (یعنی کسی جگہ پھیلی ہوئی ہلچل، جس سے کسی خاص طرح کا تاثر ملے) یہ تاثر منفی بھی ہو سکتا ہے اور مثبت بھی۔
ایسا انسان جو ہر وقت منفی سوچنے کا عادی ہو اچھی ’’Vibes‘‘ کیسے آسکتی ہیں؟ اور چوں کہ اس سے اچھی ’’Vibes‘‘ نہیں آتیں، تو اس کے ارد گرد ایک مایوسی پھیلی ہوئی محسوس ہوتی ہے جس سے اس کے آس پاس رہنے والے لوگ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ جس لمحے میں آپ جی رہی ہیں یا موجود ہیں اس لمحے میں آپ خوش ہیں بھی یا نہیں؟ یا ذہنی طور پر کہیں اور ہی ہیں۔ ہر شخص خوب سے خوب تر کی جستجو میں اپنے اس لمحے کو نظر انداز کر دیتا ہے، جو اس کا ’’حال‘‘ ہے اور ایک خوب صورت ماضی بننے کو ہے۔ جب ہم اپنے حال میں رہتے ہوئے مستقبل کی فکر میں ماضی کی خوب صورت یاد کو نظر انداز کر دیتے ہیں، تو آپ کیسے کہہ سکتی ہیں کہ آپ ایک خوش اور مطمئن انسان ہیں؟
تحقیق یہ بتاتی ہے کہ جو لوگ خوش رہتے ہیں، ان کے جسم کا ایک ایک ’خلیہ‘ (Cell) طاقت ور ہوتا ہے اور وہ زیادہ اچھے طریقے سے اپنے روزمرہ کے کاموں کو انجام دے سکتی ہیں، بہ نسبت ان لوگوں کے جو ہر وقت جلتی اور کڑھتی رہتی ہیں۔ کیا آپ نے اپنی زندگی کے چھوٹے چھوٹے لمحوں سے لطف اندوز ہوئی ہیں؟
کیاکبھی اکیلے چائے کی ایک پیالی پیتے ہوئے اس لمحے کالطف لیا ہے؟ کیا کبھی خود کو ’اسپیشل‘ محسوس کروانے کے لیے کوئی مخصوص پکوان بنایا ہے؟ کیا آپ چھوٹی
چھوٹی خوشیوں کو منانے کی عادی ہیں؟
کیا ایسا بھی کبھی ہوا ہے کہ آپ کو زندگی میں کبھی کوئی بڑی مشکل یا دشواری پیش آئی ہو،کوئی نقصان ہوا ہو اور آپ نے اس یقین کے ساتھ کہ اس میں اﷲ کی کوئی بہتری ہوگی مسکرائے ہوں؟ کیا کسی ناکامی پر بغیر کسی منفی تاثر کے نئے سرے سے کوشش کی ہو؟ کاروبار یا کوئی رشتہ ختم ہونے پر نئی امید کے ساتھ مثبت سوچ کو لے کر آگے بڑھے ہوں؟ اگر آپ ایسے انسان ہیں، تو یقیناً آپ کو لمحہ موجود میں رہنے کا ہنر آتا ہے۔
خوش رہنے کا تعلق صرف مالی حالات کی درستگی نہیں بے شک یہ ایک اہم ضرورت ہے، لیکن کیا صرف مالی طور پر مستحکم ہونا آپ کو خوش کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں خوش رہنے کے لیے ضروری ہے کہ جس لمحے میں آپ موجود ہوں اس لمحے کو بھرپور طریقے سے ’انجوائے‘ کریں۔
فطری بات ہے کہ ہر انسان پہلے سے بہتر جگہ پر جانا چاہتا ہے اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے، لیکن اس لمحے کو چھوڑ کر اگلے لمحے کی فکر میں مبتلا رہنا اور اس خبط میں اس حد تک آگے بڑھ جانا کہ نہ صرف اپنی صحت کو برباد کرلینا، بلکہ زندگی کی ساری خوشیوں سے دور چلے جانے کے مترادف ہے۔
مرزا غالب نے کیا خوب کہا ہے کہ کام انسان کو تھکا دیتا ہے، لیکن محبت نہیں تھکاتی، اس لیے خوش بخت ہے وہ انسان جس کا ذریعہ معاش بھی وہی ہے، جو اس کا شوق۔ اس لیے ذریعۂ معاش کے لیے وہ ذرایع استعمال کریں، جو آپ کے دل تک جاتے ہوں، تاکہ آپ خوش رہ کر وہ کام سرانجام دے سکیں، جو اپنے 24 گھنٹوں کو اچھا نہیں کر سکتا، اس کا مستقبل بھی کبھی اچھا نہیں ہوتا۔
خوشی کا تعلق منظم زندگی سے بھی جڑا ہوا ہے، اگر آپ کی زندگی میں نظم و ضبط ہے، تو آپ بہت خوش قسمت ہیں۔
تو خوش رہیے کیوں کہ خوش رہنا آپ کی عمر کو بڑھا دیتا ہے۔ آپ نے اس بوڑھے کی کہانی تو ضرور سن رکھی ہوگی، جو بڑھاپے میں اپنے ماضی کو یاد کر کے آنسو بہا رہا ہوتا ہے، اگر آپ اس بوڑھے کی طرح اپنے ماضی پر پچھتاوے کے آنسو نہیں بہانا چاہتیں، تو یقیناً خوش رہنا آپ کا حق ہے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز