زہیر عبّاس
محفلین
اردو میں سائنس فکشن اگر نایاب نہیں تو عنقا ضرور ہے۔ میں اگر اپنے تجربے کی بات کروں تو اردو میں جو سب سے پہلی سائنس فکشن کہانی پڑھی تھی وہ ہمدرد کے ماہنامہ نونہال میں شایع ہوئی تھی۔ پچپن میں پڑھی اس کہانی کا نام تو اب یاد نہیں تاہم اس کا پلاٹ اب تک تھوڑا بہت یاد ہے۔ اس کہانی میں خلائی مخلوق زمین پر حملہ آور ہوتی ہے اور انسانوں کی شکست دے کر ان کو غلام بنا دیتی ہے۔ وہ انسانوں سے تین طرح کے کام لیتی ہے۔ کچھ کو غلام بنا کر کام کرواتی ہے، کچھ کو جانوروں کی طرح باربرداری میں استعمال کرتی ہے اور کچھ کو مویشیوں کی طرح پالتی ہے تاکہ ان کو ذبح کرکے اپنی خوراک کی ضروریات پوری کرسکے۔
دوسری سائنس فکشن کہانی اس وقت ہاتھ لگی جب پرانی کتابوں کی الماری صاف کرتے ہوئے اپنے پر نانا کی کتابوں میں سے ایک ناول ملا۔ اس ناول کا نام تھا "خلا میں تصادم" یہ ناول اکرم الہ آبادی صاحب کا تحریر کردہ تھا اور شاید 1960 کی دہائی کے شروع میں تحریر کیا گیا تھا۔ اس وقت تک انسان نے چاند پر اپنا پہلا قدم ابھی نہیں رکھا تھا۔ مریخ اور زہرہ کی سرزمین کی سختیاں معلوم نہ تھیں لہٰذا اکثر ناولوں میں زہرہ اور مریخ کے لوگ زمین پر حملہ آور ہوتے تھے۔ بہرحال اکرم الہ آبادی صاحب کا یہ ناول ایسا دلچسپ تھا کہ آج تک اسے بھلایا نہیں جاسکا۔
انٹرنیٹ کی آمد کے بعد ایک دن خیال آیا کہ اکرم الہ آبادی صاحب کے ناولز کو تلاش کیا جائے شاید مل جائیں۔ لیکن افسوس کہ ان پر کچھ مضامین تو ملے لیکن کوئی ناول نہ مل سکا۔ کافی عرصہ گزر جانے کے بعد ایک دن دوبارہ جب نیٹ پر تلاش کیا تو یہ جان کر کافی خوشی ہوئی کہ اکرم الہ آبادی کی ویب سائٹ بن چکی ہے اور اس پر ان کے نوولز کی فہرست اور کچھ ناول پی ڈی ایف صورت میں پڑھنے کو دستیاب ہیں۔
خیر آج جس ناول کے بارے میں ہم آپ کو بتا رہے ہیں اس کا نام ہے "اڑن طشتری" اور اس کے مصنف ہیں "خان محبوب طرزی"۔ یہ ناول 1952 میں لکھا گیا تھا۔ خان محبوب طرزی اردو کے ان اولین مصنفین میں سے ایک ہیں جنہوں نے سائنس فکشن ناولز لکھے۔ ان کے دیگر سائنسی ناولز فولادی پتلے، سفر زہرہ، رہبر اعظم، عالم امکان، طلسم حیات اور برق پاش ہیں۔
کسی بھی سائنسی ناول کو لکھنے کے لئے مصنف کا ایک اچھا ناول نگار ہونا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی دور حاضر کی سائنس کی تفہیم بہت اچھی ہونی چاہئے اس کے ساتھ ساتھ مصنف کو اس قابل ہونا چاہئے کہ وہ اپنے چشم تخیل سے مستقبل میں جھانک کر اندازہ لگا سکے کہ آنے والے دور میں انسان کیسے ترقی کا سفر کرسکتا ہے۔
یہ ناول ہندوستان کی تقسیم کے چند برسوں بعد لکھا گیا ہے۔ تقریبا ہزار برس ہندوستان پر حکومت کرنے کے بعد انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو کر اپنے گزرے ہوئے ماضی کو یاد کرکے اس ناول میں مسلمانوں کے تاریخی کارناموں کو رجائیت پسندی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اس ناول کو لکھتے ہوئے مصنف کافی خوش گمان ہوتے ہوئے امید کرتے ہیں کہ آنے والی دنیا کی ترقی کا محور مغرب کے بجائے مشرق ہوگا۔ ناول کا تعارف کچھ یوں کروایا جاتا ہے۔
نویں صدی عیسوی کے آخر میں اندلسی مسلمانوں نے سائنسی ایجادات سے دنیا کو محو حیرت کردیا تھا۔ آج کل کے سائنسداں بھی ان کی ایجادات پر دنگ ہیں۔ ایک اندلسی انجنیر اور سائنسداں ابوصلت نے ایک اڑن طشتری بنائی - وہ اور اس کے چالیس ساتھی ایک نئی دنیا میں جا کر آباد ہوگئے۔ دور حاضرہ کے ایک سائنسداں نے ٹیلی ویژن کی مدد سے اس سیارہ کا پتہ لگایا اور اپنے رفقائے کار کے ساتھ وہاں پہونچا۔
ناول کے زیادہ تر کردار مسلمان ہی ہیں۔ دوسرے سیارے پر بھی مسلمان ہی غالب ہیں اور بڑی فصیح و بلیغ عربی بولتے نظر آتے ہیں۔ اہم کرداروں میں ایک مولوی، مولوی عبدالسلام بھی ہیں جو خلا نوردوں کی رہنمائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مولانا صاحب نا صرف خلائی سفر کے دوران بلکہ دوسرے سیارے پر نماز باجماعت بھی کرواتے ہیں۔
ناول میں جابجا بڑے مزے مزے کی عربی مارکہ اردو اصطلاحات کا استعمال کیا گیا ہے۔ بہت سی اصطلاحات ایسی بھی ملیں جو عام قاری بغیر کسی لغت کی مدد سے سمجھ نہ سکے گا۔ ناول میں استعمال ہونے والی کچھ اصطلاحات یہ ہیں جیسے دارلتجارب (غالبا تجربہ گاہ کے لئے استعمال ہوا ہے)، دارلبرق (غالبا پاور ہاؤس کے لئے استعمال ہوا ہے)، معمل (غالبا تجربہ گاہ کے لئے استعمال ہوا ہے)، برق پاش مشین (لیزر گن)، ہوائی (خلائی جہاز)، ماہر برقیات، بین السیاری، تحت البحر (آبدوز)، برقی جال (فورس فیلڈ)، آلہ نشرالصوت (غالبا مائیکرو فون)، بین الاقامتی آلہ نشرالصوت، نشر گاہ، مقیاس الحرارت (تھرمامیٹر)، مقیاس الہوا (بیرومیٹر) وغیرہ۔
کچھ روزمرہ استعمال میں آنے والی چیزوں کی اردو اصطلاح جان کر بہت خوشی ہوئی جیسے کہ ایش ٹرے کے لئے خاک دان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
ناول کی سب سے مزے کی چیز خواتین خلا نوردوں کا لباس ہے۔ ذرا چشم تصور سے دیکھیں کہ خلائی جہاز میں خواتین غرارہ اور شمیض پہنے ہوئے کیسی لگتی ہوں گی۔ پھر جب خلائی جہاز دوسرے سیارے پر اترنے کے قریب ہوتا ہے تو خواتین خلانورد ایک گھنٹے پہلے سے بناؤ سنگھار میں مصروف ہوجاتی ہیں اور اس وقت تک مصروف رہتی ہیں جب تک خلائی جہاز دوسرے سیارے پر اتر نہیں جاتا۔
ناول پڑھتے ہوئے ہم اس بات کا اندازہ اچھی طرح لگا سکتے ہیں کہ برصغیر کے لوگوں کی نوابی طبیعت کیسی ہوگی۔ اس دور کے جتنے سائنس فکشن ناول میری دسترس میں آئے ہیں، ان میں دیکھا گیا ہے کہ خلائی سفر کی کہانی میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ خلائی جہاز میں دو چار ملازم ضرور ہوں جو خلا نوردوں کے کھانے پینے اور دوسری خدمت کے لئے دستیاب ہوں۔ اس ناول میں بھی چار ملازم بطور خدمت گار کے خلائی جہاز میں موجود ہوتے ہیں۔ اور ہاں ایک فوٹوگرافر بطور خاص صرف اس لئے خلائی سفر میں شامل ہوتا ہے تاکہ وہ اس سفر کی روداد کو اپنے کیمرے میں محفوظ کرسکے۔
اس ناول میں پیش کردہ بہت سی باتیں درست نہیں ہیں۔ مثلا سیارہ زہرہ یا سیارہ مریخ تک آنے جانے کے لئے لگائے گئے ایندھن کا حساب، یا خلا میں موجود بے وزن ہونے سے لاعلم ہونا، یہاں تک کہ خلائی جہاز میں حفاظتی بند کا بھی موجود نہ ہونا یا کسی سیارچہ کے بغیر بین الاقوامی ٹیلی ویژن کی نشریات کو بغیر کیمرے کے براہ راست موصول کرنا۔ مصنف سیارے، ستارے، نظام شمسی اور ملکی وے کہکشاں کے بارے میں بھی تردد کا شکار رہے۔ کہیں ستاروں کو سیارہ اور کہیں سیاروں کو ستارہ سمجھا۔ کہکشاں کو چھوڑنے کے باوجود جس سیارے پر پہنچے اس سیارے سے سورج کا فاصلہ اتنا ہی رہا جتنا کہ زمین کا، اس بات کے باوجود کہ مریخ، مشتری اور زحل کو کافی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ کشش ثقل اور رد ثقل کو بھی تیکنیکی طور پر غلط پیش کیا گیا۔
بہرحال ان تمام خامیوں کے باوجود اس بات کو مد نظر رکھا جائے کہ یہ ناول آج سے لگ بھگ 67 برس پہلے لکھا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس وقت نہ تو ذرائع آمدورفت اس قدر ترقی یافتہ تھے اور نہ ہی ذرائع ابلاغ کہ دنیا میں ہونے والی کوئی بھی پیش رفت آناْ فاناْ عوام تک پہنچ جاتی۔ اس وقت تک نہ تو انسان خلا میں گیا تھا اور نہ ہی کوئی سیارچہ یا خلائی جہاز زمین سے فرار حاصل کرسکا تھا، لہٰذا اس ناول میں موجود غلط یا نامکمل سائنسی نظریات سے صرف نظر کیا جاسکتا ہے۔ پھر اس زمانے میں رومانی اور جاسوسی ناول کا دور دورہ تھا۔ سائنس میں دلچسپی لینے والے بہت ہی کم تھے اس لئے خان محبوب طرزی صاحب کی جرت اور حوصلہ مندی کی داد دینی چاہئے کہ انہوں نے اس دور میں ایک ایسی صنف میں لکھنے کی کوشش کی جس کے پڑھنے والے بہت کم تھے۔
ناول نیچے دیئے ہوئے لنک سے پڑھا جاسکتا ہے۔
آپ نے اردو میں سائنس فکشن پر کون کون سے ناولز پڑھے ہیں ضرور بتائیے گا۔
ایک درخواست:
مجھے میں اردو میں لکھے گئے سائنس فکشن ناولز درکار ہیں چاہئے طبع زاد ہوں یا ترجمہ شدہ۔ اگر آپ میں سے کسی کے پاس اردو میں لکھے گئے سائنس فکشن ناولز موجود ہیں، خاص طور پر اکرم الہ آبادی صاحب، اظہار اثر صاحب، خان محبوب طرزی صاحب یا کسی بھی دوسرے مصنف کے تو آپ کمنٹ میں پوسٹ کرکے رابطہ کرسکتے ہیں۔
Udan Tashtari Khan Mahboob Tar Compressed by ZunnyJhon on Scribd
حوالہ: ربط
آخری تدوین: