محمداحمد
لائبریرین
انسان کوئی بھی کامل نہیں ہوتا۔ وہ کہیں نہ کہیں کمی، کوتاہی کا شکار ہو ہی جاتا ہے۔ سب میں کچھ نہ کچھ خامیاں ہوتی ہیں۔
ایک مسلمان اپنے عمل سے اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے لیکن اُس کے ساتھ بشری کمزوریاں بھی ہوتی ہیں۔ ذرا سی غفلت ہوئی اور وہ بے عملی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اگر بے عملی پر قصداً قابو پانے کی کوشش نہ کی جائے تو یہ آہستہ آہستہ بڑھتی جاتی ہے اور پھر انسان کے لئے سنبھلنا مشکل ہو جاتا ہے۔
انسان کے لئے نیکیاں کرنا آسان ہوتا ہے جب تک وہ اللہ سے ڈرتا رہے، جب تک اُسے یہ احساس رہے کہ وہ مادر پِدر آزاد نہیں ہے بلکہ اپنے ہر عمل کے لئے جواب دہ ہے اور کل کو اُسے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے،اپنے ہر عمل کا جواب دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم حشر کے دن تمہاری چھوٹی سی چھوٹی نیکی کو بھی رائیگاں نہیں جانے دیں گے اور اُسے حاضر کر دیں گے چاہے وہ ذرّے کے برابر ہی کیوں نہ ہو، اور اسی طرح بد عملیاں بھی ظاہر ہو جائیں گی چاہے وہ کتنی ہی حقیر کیوں نہ ہوں۔
آخرت کی جواب دہی کا احساس انسان کو بہت سے گناہوں سے بچاتا ہے۔ لیکن دنیا کی رنگینیاں انسان کو آخرت کی طرف سے غافل کر دیتی ہیں، اور کبھی کبھی انسان اس دنیا میں مگن ہو کر بہت سی باتیں فراموش کر بیٹھتا ہے۔
اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔وہ رؤوف و رحیم ہے، کریم ہے۔ غفار و ستّار ہے، لطیف ہے، شکور، یعنی قدر دان ہے۔ وہ اپنے بندوں کے ساتھ بہت ہی لطف و کرم کا معاملہ فرماتا ہے۔ تب ہی وہ انسان کو نیکی کا بدلہ، نیکی کے ارادے پر ہی دے دیتا ہے، پھر جب وہ نیکی کرے تو وہ ایک نیکی کے بدلے دس نیکیوں کا اجر دیتا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس وہ گناہوں کے ارادے پر گناہ نہیں لکھتا، حتیٰ کہ انسان گناہ کا ارتکاب نہ کر لے۔ اُس پر بھی ایک گناہ کو وہ ایک ہی لکھتا ہے۔ بڑھا چڑھا کر نہیں لکھتا۔ ہے نا رحیم و کریم! کہ نیکیوں کا اجر تو وہ بڑھا چڑھا کر دیتا ہے، بلکہ نیکی کے ارادے پر ہی نیکی لکھ دیتا ہے، لیکن گناہوں کو اُتنا ہی لکھتا ہے۔ پھر یہ کہ اگر بندہ اپنے گناہ پر توبہ کر لے تو اللہ اُس کے اُس گناہ کو بھی مٹا دیتا ہے۔
اس قدر لطف و کرم کے باوجود بندہ اپنے رب سے بالکل ہی غافل ہو جائے تو یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ بشری کمزوریوں کی بنا پر اگر کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو وہ الگ بات ہے۔ لیکن یہ نہ ہو کہ بندہ بالکل ہی اپنے رب کو بھول جائے۔ یہ بھی بھول جائے کہ اُسے اپنے رب کے حضور حاضر ہونا ہے اور اپنے ہر عمل کا جواب دینا ہے۔ اور اپنی بے راہ روی میں اتنا آگے نکل جائے کہ واپسی کا راستہ ہی یاد نہ رہے۔ بقول شاعر:
انسان بتقاضہ بشریت اگر کچھ راہِ راست سے ہٹ جائے تو فوراً واپسی کی کوشش کرے۔ فوراً اللہ سے رجوع کرے۔ اپنا محاسبہ کرے۔ اللہ کے حضور ندامت کے آنسو لیے حاضر ہو جائے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ انسان کو یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ اُس کی اکائیاں دہائیوں سے آگے نہ نکل جائیں، ورنہ وہ کہیں کا نہیں رہےگا۔ یعنی گناہ جو محض اکہرے ہی لکھے جاتے ہیں، اُن نیکیوں کو مات نہ دے دیں جن کا اجر اللہ رب العزت ایک بدلے میں دس کے حساب سے دیتا ہے۔
وہ گناہ میں اتنا آگے نہ نکل جائے کہ نیکیوں پر ملنے والا کثیر اجر بھی میزان میں گناہوں کے مقابلے میں خفیف ہو جائے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم ہمہ وقت اپنی زندگی اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات کے مطابق بسر کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔
ایک مسلمان اپنے عمل سے اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے لیکن اُس کے ساتھ بشری کمزوریاں بھی ہوتی ہیں۔ ذرا سی غفلت ہوئی اور وہ بے عملی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اگر بے عملی پر قصداً قابو پانے کی کوشش نہ کی جائے تو یہ آہستہ آہستہ بڑھتی جاتی ہے اور پھر انسان کے لئے سنبھلنا مشکل ہو جاتا ہے۔
انسان کے لئے نیکیاں کرنا آسان ہوتا ہے جب تک وہ اللہ سے ڈرتا رہے، جب تک اُسے یہ احساس رہے کہ وہ مادر پِدر آزاد نہیں ہے بلکہ اپنے ہر عمل کے لئے جواب دہ ہے اور کل کو اُسے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے،اپنے ہر عمل کا جواب دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم حشر کے دن تمہاری چھوٹی سی چھوٹی نیکی کو بھی رائیگاں نہیں جانے دیں گے اور اُسے حاضر کر دیں گے چاہے وہ ذرّے کے برابر ہی کیوں نہ ہو، اور اسی طرح بد عملیاں بھی ظاہر ہو جائیں گی چاہے وہ کتنی ہی حقیر کیوں نہ ہوں۔
آخرت کی جواب دہی کا احساس انسان کو بہت سے گناہوں سے بچاتا ہے۔ لیکن دنیا کی رنگینیاں انسان کو آخرت کی طرف سے غافل کر دیتی ہیں، اور کبھی کبھی انسان اس دنیا میں مگن ہو کر بہت سی باتیں فراموش کر بیٹھتا ہے۔
*****
اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔وہ رؤوف و رحیم ہے، کریم ہے۔ غفار و ستّار ہے، لطیف ہے، شکور، یعنی قدر دان ہے۔ وہ اپنے بندوں کے ساتھ بہت ہی لطف و کرم کا معاملہ فرماتا ہے۔ تب ہی وہ انسان کو نیکی کا بدلہ، نیکی کے ارادے پر ہی دے دیتا ہے، پھر جب وہ نیکی کرے تو وہ ایک نیکی کے بدلے دس نیکیوں کا اجر دیتا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس وہ گناہوں کے ارادے پر گناہ نہیں لکھتا، حتیٰ کہ انسان گناہ کا ارتکاب نہ کر لے۔ اُس پر بھی ایک گناہ کو وہ ایک ہی لکھتا ہے۔ بڑھا چڑھا کر نہیں لکھتا۔ ہے نا رحیم و کریم! کہ نیکیوں کا اجر تو وہ بڑھا چڑھا کر دیتا ہے، بلکہ نیکی کے ارادے پر ہی نیکی لکھ دیتا ہے، لیکن گناہوں کو اُتنا ہی لکھتا ہے۔ پھر یہ کہ اگر بندہ اپنے گناہ پر توبہ کر لے تو اللہ اُس کے اُس گناہ کو بھی مٹا دیتا ہے۔
اس قدر لطف و کرم کے باوجود بندہ اپنے رب سے بالکل ہی غافل ہو جائے تو یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ بشری کمزوریوں کی بنا پر اگر کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو وہ الگ بات ہے۔ لیکن یہ نہ ہو کہ بندہ بالکل ہی اپنے رب کو بھول جائے۔ یہ بھی بھول جائے کہ اُسے اپنے رب کے حضور حاضر ہونا ہے اور اپنے ہر عمل کا جواب دینا ہے۔ اور اپنی بے راہ روی میں اتنا آگے نکل جائے کہ واپسی کا راستہ ہی یاد نہ رہے۔ بقول شاعر:
اتنا بے سمت نہ چل، لوٹ کے گھر جانا ہے
انسان بتقاضہ بشریت اگر کچھ راہِ راست سے ہٹ جائے تو فوراً واپسی کی کوشش کرے۔ فوراً اللہ سے رجوع کرے۔ اپنا محاسبہ کرے۔ اللہ کے حضور ندامت کے آنسو لیے حاضر ہو جائے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ انسان کو یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ اُس کی اکائیاں دہائیوں سے آگے نہ نکل جائیں، ورنہ وہ کہیں کا نہیں رہےگا۔ یعنی گناہ جو محض اکہرے ہی لکھے جاتے ہیں، اُن نیکیوں کو مات نہ دے دیں جن کا اجر اللہ رب العزت ایک بدلے میں دس کے حساب سے دیتا ہے۔
وہ گناہ میں اتنا آگے نہ نکل جائے کہ نیکیوں پر ملنے والا کثیر اجر بھی میزان میں گناہوں کے مقابلے میں خفیف ہو جائے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم ہمہ وقت اپنی زندگی اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات کے مطابق بسر کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔
*****