اکال گڑھ اور گجرات کی مہمیں

اکال گڑھ اور گجرات کی مہمیں

کنہیا لال

چونکہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ترقی اور حصول ریاست و دولت سے سب سکھ سردار جلتے تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح یہ تازہ نہال بوستان جاہ و جلال بڑھنے نہ پائے، ابھی سے اس کو کاٹ دیا جائے تو بہتر ہے۔ زیادہ تر حسد و بغض اس وقت سردار صاحب سنگھ بھنگی کو تھا جس کا قبضہ لاہور کے تیسرے حصے سے بھی جاتا رہا تھا اور آئندہ اس کو اطمینان نہ تھا کہ حتیٰ الامکان مہاراجہ رنجیت سنگھ اس کے علاقے پر قبضہ نہ کرے گا، بلکہ اس کو یقین تھا کہ لاہور میں رنجیت سنگھ جمعیت قائم کرکے مجھ پر حملہ آور ہو گا۔ اس فکر و اندیشہ میں اس نے فوج کو بڑھایا اور سامان جنگ کا بہت سا جمع کیا اور قریب تھا کہ وہ ایک بڑے بھاری مجمع کے ساتھ لاہور پر یورش کرے، مہاراجہ رنجیت سنگھ نے جب یہ خبر پائی مناسب جانا کہ خود دشمن پر حملہ کرے اور اس کا ملک اس سے چھین لے یا اپنا تابعدار بنائے۔ چنانچہ موجودہ فوج کے ساتھ فوراً گجرات کو روانہ ہوا۔ جب فوج گجرات کے نزدیک پہنچی، صاحب سنگھ میدان میں آیا اور قلعے کے دروازے بند کرکے لڑائی شروع کی۔ مہاراجہ کی فوج نے قلعے کے چاروں طرف مورچے باندھ دیئے اور اتواپ سے گولہ رانی شروع کی۔ بہت روز تک فریقین کی طرف سے گولہ چلتا رہا۔ گولوں کی ضرب سے بہت سی دیوار گر گئی اور صاحب سنگھ فتح سے ناامید ہو گیا۔ تب اس نے پیغام صلح کا بھیجا اوراطاعت پر راضی ہوا۔ رنجیت سنگھ نے اس سے بڑا بھاری نذرانہ لیا اور آئندہ کے لئے وعدہ اطاعت کالے کر محاصرہ اٹھا لیا اور لاہور کو واپس آیا۔ لاہور میں آکر خبر پہنچی کہ سردار دل سنگھ، سردار مہان سنگھ مہاراجے کے باپ کا دوست ، جس کو سردار مہان سنگھ نے قصبہ اکال گڑھ فتح کرکے بخش دیا تھا، صاحب سنگھ کا دوست، ورفیق بن گیا ہے اور دونوں آپس میں ایک ہو کر چاہتے ہیں کہ فوج بڑھا کر لاہور کو آئین اور جنگ کریں۔ چونکہ دل سنگھ دست پروردہ و پرورش یافتہ سردار مہان سنگھ کا تھا، اس بات کے سننے سے مہاراجہ رنجیت سنگھ نہایت آزردہ خاطر ہوا اور چاہا کہ جب تک دشمن اپنے ارادے پر کامیاب ہوں، پہلے ہی سے ان کا انتظام کر لے۔ فی الفور ایک خط بہ نام دل سنگھ بہ مضمون ’’اشتیاق ملاقات اور جوش محبت کے‘‘ لکھا اور درج کیا کہ’’ جس طرح سے میرا باپ آپ کا جانی دوست اور دلی خیر خواہ تھا، اسی طرح میں ہوں اور یہ بھی مجھ کو یقین ہے کہ آپ کو بھی بہ نظر محبت میرے باپ کے مجھ سے زیادہ کوئی عزیز نہ ہو گا اور جس طرح کہ آپ نے اور میرے باپ نے باہم محبت و اتفاق رکھ کر ملک گیری کی اور سردار والیان ملک بن گئے، اسی طرح میں بھی چاہتا ہوں کہ آپ بلا تامل میرے پاس چلے آئیں اورمیری ہمراہی میں فتوحات میں مشغول ہوں۔ دونوں کی سعی و کوشش سے جو ملک مفتوح ہو گا وہ نصفا نصف تصور کیا جائے گا۔ ایک مقام پر بیٹھ کر قناعت کرنا جوانمردوں اور بہادروں کا کام نہیں ہے۔ آپ میرے بزرگ اور میرے باپ کے دوست ہیں۔ مجھ کو آپ سے کچھ دریغ نہ ہو گا، فقط‘‘۔ یہ تحریر جب سردار دل سنگھ کے پاس پہنچی، طمع کے دام میں آگیا اور فوراً صاحب سنگھ سے برگشتہ ہو کر تیار ہو گیا کہ رنجیت سنگھ کے پاس جا کر اور اس کی فوج لاکر صاحب سنگھ سے ملک چھین لے۔ غرض وہ لاہور میں آگیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پہلے ملاقات بڑے تپاک سے اس کے ساتھ کی اور قلعے کے اندر اتارا۔ جب رات ہوئی تو سپاہیوں کا پہرہ اس پر تعینات کرکے نظر بند کر لیا۔ جب وہ قید میں آگیا تو اکال گڑھ کے دخل کے لئے مہاراجہ رنجیت سنگھ مع فوج لاہور سے روانہ ہوا۔ دل سنگھ کی رانی نے یہ خبر پائی کہ رنجیت سنگھ میرے شوہر کو قید کرکے اکال گڑھ کے فتح کرنے کو آیا ہے تو فی الفور اس نے شہر کے دروازے بند کر لئے اور قلعے پر دوتوپیں چڑھا دیں اور چاروں دیواروں پر فوج مامور کر کے مستعد بہ جنگ ہو بیٹھی۔ جب رنجیت سنگھ وہاں پہنچا، معاملہ دگرگوں نظر آیا جس کی امید نہ تھی۔ اگرچہ بعض آدمیوں نے منع کیا کہ اب عورت سے لڑنا مردوں کو کیا ضرور ہے، جب اس کا خاوند ہی ہمارے پاس قید ہے تو یہ ملک گویا ہمارا ہی ملک ہے۔ مگر رنجیت سنگھ اپنی ضد سے باز نہ آیا اور لڑائی شروع کر دی۔ دونوں طرف سے توپ و بندوق چلنے لگی۔ بہت روز لڑائی ہوتی رہی۔ اکثر اوقات وہ عورت اپنی فوج کے ساتھ قصبے سے نکل کر بھی رنجیت سنگھ کی فوج پر مردانہ وار حملہ کرتی۔ ادھر تو لڑائی جاری رکھی اور ادھر اس نے اپنا وکیل صاحب سنگھ بھنگی کے پاس بہ طلب امداد و کمک کے بھیجا۔ صاحب سنگھ اسی وقت اس کی امداد کو تیار ہوا اور جودہ سنگھ حاکم وزیر آباد کو لکھا کہ وہ بھی اس امداد میں اس کے شامل ہو۔ ابھی دشمن اپنے اپنے مقام سے فوج لے کر روانہ نہیں ہوئے تھے کہ رنجیت سنگھ کو بھی کسی معتبر کی زبانی یہ خبر مل گئی اور جانا کہ اگر دو دشمن اس طرح سے اور تیسرا دشمن، جو محصور ہے، میرے مقابل ہوں گے تو فتح مشکل ہو گی۔ بہتر یہ ہے کہ اکال گڑھ کا محاصرہ چھوڑ کر پہلے ان کا انتظام کر لیا جائے۔ چنانچہ قلعے کا محاصرہ چھوڑ کر گجرات کو روانہ ہوا۔ چونکہ جودہ سنگھ وزیر آباد یہ بھی دست پر وردہ مہان سنگھ کا تھا۔ اور وزیر آباد فتح کرکے سردار مہان سنگھ نے ہی اس کو دیا ہوا تھا، ایک خط شکایتانہ قدیمی احسان یاد دلا کر اس کے نام تحریر کیا کہ وہ اپنی فوج لے کر صاحب سنگھ کے شامل نہ ہو۔ جب لشکر لے کر مہاراجہ رنجیت سنگھ گجرات کے قریب گیا تو شہر سے باہر دو میل پرآکر صاحب سنگھ مقابل ہوا۔ دونوں فریق صبح سے شام تک لڑتے رہے، فریقین سے بہت سے بہادر کام آئے۔ اسی طرح دوسرے اور تیسرے روز خفیف لڑائیاں ہوتی رہیں۔ چوتھے روز صاحب سنگھ شہر سے باہر نہ نکلا اور محصور ہو کرلڑنے لگا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے مورچہ قائم کرکے شہر و قلعہ پر گولہ اندازی شروع کی۔ چند روز یہ حال رہا۔ آخر صاحب سنگھ بیدی نے، جو گورونانک کی اولاد سے صاحب زادہ بلند اقتدار تھا اور تمام مثلوں کے سکھ سردار اس کا ادب و لحاظ بہ دل کرتے تھے، درمیان میں آکر چاہا کہ کسی طرح دونوں کی آپس میں صلح ہو جائے اور صاحب سنگھ کی طرف سے رنجیت سنگھ کے پاس آکر صلح کا پیغام دیا اور اپنی طرف سے بھی نصیحت کی اور کہاکہ خالصہ جی کو کہ ایک گورو کے سکھ ہیں، آپس میں کمال محبت و اختلاط درکار ہے، نہ کہ آپس میں تلوار چلتی رہے اور ہزاروں بندگان خدا کا خون ہوا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے صاحب سنگھ بیدی کی بہت تعظیم کی اور نذرانہ و جرمانہ و خرچ فوج کا لینا کرکے محاصرہ اٹھا لیا اور آئندہ کے لئے یہ قرار پایا کہ صاحب سنگھ بھنگی و دل سنگھ اکال گڑھیہ کبھی رنجیت سنگھ کے برخلاف اس کی نسبت ارادہ لڑائی و فساد کا نہ کریں گے اور اس میں صاحب سنگھ بیدی نے ضمانت دی اور نذرانہ معقول اس سے وصول کیا۔ جب یہ انظام ہو چکا تو مہاراجہ رنجیت سنگھ اپنی فوج لے کر لاہور آگیا۔ جب سردار دل سنگھ قید سے چھوٹ کر اکال گڑھ کو گیا، ہایت غم و غصہ کی حالت میں تھا۔ جاتے ہی بیمار ہو گیا اور چند روز میں مر گیا۔ اس کے مر جانے کی خبر جب رنجیت سنگھ کو پہنچی تو چاہا کہ اکال گڑھ جا کر اپنا قبضہ کرے، ایسا نہ ہو کہ صاحب سنگھ گجراتیہ، گجرات سے اکر اس علاقے کو اپنے تصرف میں کرے۔ یہ خیال دل میں قائم کرکے بہت جلد اکال گڑھ کو روانہ ہوا۔ جب چار میل کے فاصلے پر اکال گڑھ سے پہنچا تو اپنا ایک معتبر بھیج کر دل سنگھ کی بیوہ کو اطلاع دی کہ’’ بہ استحکام رابطہ محبت کے جو قدیم سے فیمابین سردار مہان سنگھ اور دل سنگھ کے مربوط تھا، جب تک وہ دونوں سردار زندہ رہے کوشش ہوتی رہی اور اب جو وہ دونوں سرگباش ہو گئے، ہم کو چاہئے کہ جب تک زندہ ہیں اس سلسلے کو نہ توڑیں بلکہ روز بہ روزمضبوط کریں تو بہتر ہے۔ سردار دل سنگھ کے مرنے کا مجھ کو کمال غم ہے اور محض اسی واسطے لاہور سے چل کر آیا ہوں کہ ماتم پرسی کی رسم بجا لائوں اور اس غم و ماتم میں تمہارے ساتھ شامل ہو کر شرائط ہمدردی و غم خواری کی بجا لائوں۔ تم کو چاہیے کہ کسی طرح کا اندیشہ دل میں نہ کرو اور نہ میری طرف سے بدظن ہو‘‘۔ دل سنگھ کی بیوہ نے جب یہ پیام سنا، اگرچہ اس کے دل میں سخت اندیشہ ہوا کہ شاید رنجیت سنگھ اپنے عہد سے پھر جائے اور شہر میں داخل ہو کراپنا قبضہ کر لے مگر اس سے بھی اس کو اطمینان تھا کہ فیصلہ اس کے شوہر کا رنجیت سنگھ کے ساتھ معرفت صاحب سنگھ بیدی کے ہو چکا تھا اور مستحکم عہد ہو چکے تھے کہ آئندہ نہ تو دل سنگھ کبھی رنجیت سنگھ کی بدی میں راضی ہو اور نہ رنجیت سنگھ کبھی اس کو تکلیف دے۔ یہ کب ممکن ہے کہ اب رنجیت سنگھ اب عہد سے ، جو اس نے ایک گوروبیدی کے سامنے کیا ہے، پھر جائے۔ یہ سوچ کر اس نے کہلا بھیجا کہ بہ تقریب ماتم سردار دل سنگھ کے تمام دوست و اقربا قدم رنجہ کر رہے ہیں۔ اگر رنجیت سنگھ نے بھی تکلیف کی ہے تو بے شک آجائے، کوئی اس کو مانع نہیں۔ جب یہ بشارت رنجیت سنگھ نے سنی بہت خوش ہوا اور مع اپنی فوج کے شہر میں گھس گیا۔ جاتے ہی شہر اور قلعے کا انتظام کر لیا۔ اپنے سپاہی خزانہ و ذخیرہ وغیرہ مقامات پر مامور کردیئے۔ دل سنگھ کی بیوہ اوراس کے خردسال بچوں کو نظر بند کر لیا۔ دل سنگھ کی فوج جو شہر کے باہر اتری ہوئی تھی یہ خبر پا کر جابجا متفرق ہو گئی۔ اس ضبطی میں رنجیت سنگھ کوبہت سا خزانہ ملا اور بہت سے ہتھیار وغیرہ اور سامان ملک داری کا حاصل ہوا۔ جب دل سنگھ کے تمام علاقے پر دخل پا چکا، اس میں سے دو گائوں سردار دل سنگھ کے بیٹوں اور بیوہ کے خرچ کے لئے واگزار کئے جس سے وہ پرورش پائیں۔(’’تاریخ ِ پنجاب ‘‘ سے ماخوذ )
ربط
http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2013-12-17/7360#.UtV-0NJDtgY
 
Top