سید زبیر
محفلین
بدن سے رشتہ جاں معتبر نہ تھا مرا
میں جس میں رہتا تھا شاید وہ گھر نہ تھا میرا
قریب ہی سے وہ گزرا مگر خبر نہ ہوئی
دل اس طرح تو کبھی بے خبر نہ تھا میرا
میں مثل سبز ۂ بیگانہ جس چمن میں رہا
وہاں کے گل نہ تھے میرے ' ثمر نہ تھا میرا
نہ روشنی نہ حرارت ہی دے سکا مجھ کو
پرائی آگ میں کوئی شرر نہ تھا میرا
زمیں کو رو کش افلاک کردیا جس نے
ہنر تھا کس کا ' اگر وہ ہنر نہ تھا میرا
کچھ اور تھا میری تشکیل و ارتقا کا سبب
مدار صرف ہواؤں پہ گر نہ تھا میرا
جو دھوپ دے گیا مجھ کو وہ میرا سورج تھا
جو چھاؤں دے نہ سکا مجھ کو وہ شجر نہ تھا میرا
نہیں کہ مجھ سے مرے دل نے بیوفائی کی
لہو سے ربط ہی کچھ معتبر نہ تھا میرا
پہنچ کے جو سر منزل بچھڑ گیا مجھ سے
وہ ہمسفر تھا مگر ہم نظر نہ تھا میرا
اک آنے والے کا میں منتظر تو تھا اکبر
ہر آنے والا مگر منتظر نہ تھا میرا
(اکبر حیدر آبادی)