سید رافع
محفلین
ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب اکبر کا ہندوستان ایک عیسائی پادری کا سفر نامہ ہے۔ اکبر کی دعوت پر پادریوں کی ایک جماعت ہندوستان آئی اور تین سال اسکے دربار میں حاضر رہی۔ یہ کتاب ان کا سفر نامہ ہے۔ کتاب سینکڑوں واقعات سے بھری پڑی ہے، انہی میں سے چند قصے سیکھنے کی غرض سے پیش کیے جا رہے ہیں۔ کتاب کے مصنف کہتے ہیں کہ انہوں نے کتاب کے ترجمے سے وہ تمام باتیں حذف کر دیں ہیں جو عیسائی وفد نے سخت مذہبی دشمنی میں کہیں۔
اکبر مذہبی تھا یا سیاسی؟
اکبر کا باپ ہمایوں اپنے کتب خانے کی سیڑھیوں سے گر کر ہلاک ہوا۔ معلوم ہوتا ہے کہ باپ سے حاصل ہونے والی علم دوستی اورذاتی حیثیت میں بہادری نے اکبر کو وہ بنایا جیسا کہ کتاب بتاتی ہے۔ کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دور مذہبی عدم رواداری کا دور تھا۔ اکبر عیسائیوں کے عقائد و حالات جاننا چاہتا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ عیسائی بادشاہ کا گجرات پر قبضہ تھا۔ پرتگال کے بادشاہ نے اپنی تمام مقبوضات سے غیر مسیحوں کو نکال دیا تھا۔ مجوسیوں کو گوا میں کوئی حقوق حاصل نہ تھے۔ پرتگالی زبردستی لوگوں کو مسیح بناتے۔ ہندوستان میں وہ جہاں جاتے لوٹ مار کا بازار سرگرم رکھتے۔ سمندروں پر انکا قبضہ تھا سو مسلمانوں کے چند علماء نے حج پر نہ جانے کا فتویٰ دیا۔ ایسے حالات میں اکبر ہر مذہب و عقیدے کو سمجھنے کی کوشش کرتا تا کہ رواداری کو فروغ دے کر اپنی سلطنت کو بڑھایا جائے۔ صاف ظاہر ہے کہ اکبر ایک بادشاہ تھا جو اپنے مذہب کو اپنی رعایا پر مسلط کیے بغیر اپنی حکومت کو وسیع کرنا چاہتا تھا۔
اکبر مذہب اسلام سے کب بدظن ہوا؟
جب تک اکبر نے فتح پور سیکری میں عبادت خانہ تعمیر کرایا وہ مذہبی تھا۔ علماء و صوفیہ کی قدر کرتا۔ اب جب عبادت خانہ تعمیر ہو گیا تو اس میں ہر جمعرات کو محفل کا انعقاد کیا گیا۔ 400 علماء و صوفیہ کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ لوبان اور طرح طرح کے پھولوں سے عبادت خانے کو سجایا گیا تھا تاکہ پاکیزگی کا احساس ہو۔ لیکن جب انہی علماء و صوفیہ کے بیٹھنے کی جگہوں کی باری آئی تو ان میں سخت جھگڑا ہو گیا۔ یہاں تک کہ اکبر کو کہنا پڑا کہ جو لڑائی کر رہے ہیں ان کو باہر نکال دیا جائے۔ اس کے وزیر نے جواب دیا ایسے میں تو سب کو ہی باہر نکالنا پڑے گا۔ خیر کسی طرح سے گفتگو شروع ہوئی تو اکبر کو ہر طرف سے تنگ نظری، تعصب کی وجہ سے متضاد دلائل سامنے آئے۔ ذاتی نوعیت کے جھگڑوں نے مذہبی جنگ کی صورت اختیار کر لی۔ جب اکبر کی چار سے زائد بیویوں بحث کی ہوئی تو صرف مالکی فقہ میں اسکی گنجائش نکلی۔ کردار کے اس گھٹیا پن اور متضاد باتوں نے اکبر کو پریشان کیا۔ یہی بات اس کے دیگر مذاہب میں حق تلاش کرنے کا باعث بنی۔اکبر نے اب ہندو، سکھ، جین، بدھ، سوامی، عیسائی اور مجوسی علماء کو بلایا۔
لادین اکبر اور دین الہی
سترہویں صدی میں ہندوستان میں جو روشن خیالی تھی یورپ اس سے ناآشنا تھا۔ یورپی لوگوں کے لیے دوسروں کا موقف سننا ایک نئی چیز تھی۔ پادری لکھتا ہے کہ مسلمان علماء کو بائبل کی معلومات نہ تھیں جبکہ عیسائی علماء قرآن کے حوالے پیش کرتے۔ اکبر نے ابوالفضل کو بائبل کا ترجمہ فارسی میں کرنے کو کہا جو کم و بیش 25 سال بعد جہانگیر کے زمانے میں مکمل ہوا۔ اب اس عیسائی مشن کی کوشش تھی کہ اکبر کو عیسائی بنا لیا جائے۔ عیسائی علماء متعصب و تنگ نظر تھے۔ انہوں نے اپنے پرتگالی بادشاہ کو یہاں تک لکھ دیا کہ اکبر نے تمام مساجد گرانے کا حکم دے دیا ہے، ایک بیوی رکھ کر عیسائی ہو گیا ہے۔ اکبر عیسائی تو نہ بنا لیکن اس نے وفد کو عیسائیت کی تبلغ، گرجا گھر اور ہسپتال تعمیر کرنے کی اجازت دے دی۔ شاہی محل میں عیسائی اسکول کھولا گیا جس میں شہزادے اور امراء عیسائیت کی تعلیم حاصل کرتے۔ ان تمام چیزوں کا حاصل ابولفضل کا لکھا آئین رہمونی ہے جو بعد میں چل کر دین الہی بنا۔ اس آئین کا خلاصہ یہ ہے کہ سچائی ہر مذہب میں ہے کوئی ایک مذہب اس میں خاص نہیں۔
اکبر مذہبی تھا یا سیاسی؟
اکبر کا باپ ہمایوں اپنے کتب خانے کی سیڑھیوں سے گر کر ہلاک ہوا۔ معلوم ہوتا ہے کہ باپ سے حاصل ہونے والی علم دوستی اورذاتی حیثیت میں بہادری نے اکبر کو وہ بنایا جیسا کہ کتاب بتاتی ہے۔ کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دور مذہبی عدم رواداری کا دور تھا۔ اکبر عیسائیوں کے عقائد و حالات جاننا چاہتا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ عیسائی بادشاہ کا گجرات پر قبضہ تھا۔ پرتگال کے بادشاہ نے اپنی تمام مقبوضات سے غیر مسیحوں کو نکال دیا تھا۔ مجوسیوں کو گوا میں کوئی حقوق حاصل نہ تھے۔ پرتگالی زبردستی لوگوں کو مسیح بناتے۔ ہندوستان میں وہ جہاں جاتے لوٹ مار کا بازار سرگرم رکھتے۔ سمندروں پر انکا قبضہ تھا سو مسلمانوں کے چند علماء نے حج پر نہ جانے کا فتویٰ دیا۔ ایسے حالات میں اکبر ہر مذہب و عقیدے کو سمجھنے کی کوشش کرتا تا کہ رواداری کو فروغ دے کر اپنی سلطنت کو بڑھایا جائے۔ صاف ظاہر ہے کہ اکبر ایک بادشاہ تھا جو اپنے مذہب کو اپنی رعایا پر مسلط کیے بغیر اپنی حکومت کو وسیع کرنا چاہتا تھا۔
اکبر مذہب اسلام سے کب بدظن ہوا؟
جب تک اکبر نے فتح پور سیکری میں عبادت خانہ تعمیر کرایا وہ مذہبی تھا۔ علماء و صوفیہ کی قدر کرتا۔ اب جب عبادت خانہ تعمیر ہو گیا تو اس میں ہر جمعرات کو محفل کا انعقاد کیا گیا۔ 400 علماء و صوفیہ کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ لوبان اور طرح طرح کے پھولوں سے عبادت خانے کو سجایا گیا تھا تاکہ پاکیزگی کا احساس ہو۔ لیکن جب انہی علماء و صوفیہ کے بیٹھنے کی جگہوں کی باری آئی تو ان میں سخت جھگڑا ہو گیا۔ یہاں تک کہ اکبر کو کہنا پڑا کہ جو لڑائی کر رہے ہیں ان کو باہر نکال دیا جائے۔ اس کے وزیر نے جواب دیا ایسے میں تو سب کو ہی باہر نکالنا پڑے گا۔ خیر کسی طرح سے گفتگو شروع ہوئی تو اکبر کو ہر طرف سے تنگ نظری، تعصب کی وجہ سے متضاد دلائل سامنے آئے۔ ذاتی نوعیت کے جھگڑوں نے مذہبی جنگ کی صورت اختیار کر لی۔ جب اکبر کی چار سے زائد بیویوں بحث کی ہوئی تو صرف مالکی فقہ میں اسکی گنجائش نکلی۔ کردار کے اس گھٹیا پن اور متضاد باتوں نے اکبر کو پریشان کیا۔ یہی بات اس کے دیگر مذاہب میں حق تلاش کرنے کا باعث بنی۔اکبر نے اب ہندو، سکھ، جین، بدھ، سوامی، عیسائی اور مجوسی علماء کو بلایا۔
لادین اکبر اور دین الہی
سترہویں صدی میں ہندوستان میں جو روشن خیالی تھی یورپ اس سے ناآشنا تھا۔ یورپی لوگوں کے لیے دوسروں کا موقف سننا ایک نئی چیز تھی۔ پادری لکھتا ہے کہ مسلمان علماء کو بائبل کی معلومات نہ تھیں جبکہ عیسائی علماء قرآن کے حوالے پیش کرتے۔ اکبر نے ابوالفضل کو بائبل کا ترجمہ فارسی میں کرنے کو کہا جو کم و بیش 25 سال بعد جہانگیر کے زمانے میں مکمل ہوا۔ اب اس عیسائی مشن کی کوشش تھی کہ اکبر کو عیسائی بنا لیا جائے۔ عیسائی علماء متعصب و تنگ نظر تھے۔ انہوں نے اپنے پرتگالی بادشاہ کو یہاں تک لکھ دیا کہ اکبر نے تمام مساجد گرانے کا حکم دے دیا ہے، ایک بیوی رکھ کر عیسائی ہو گیا ہے۔ اکبر عیسائی تو نہ بنا لیکن اس نے وفد کو عیسائیت کی تبلغ، گرجا گھر اور ہسپتال تعمیر کرنے کی اجازت دے دی۔ شاہی محل میں عیسائی اسکول کھولا گیا جس میں شہزادے اور امراء عیسائیت کی تعلیم حاصل کرتے۔ ان تمام چیزوں کا حاصل ابولفضل کا لکھا آئین رہمونی ہے جو بعد میں چل کر دین الہی بنا۔ اس آئین کا خلاصہ یہ ہے کہ سچائی ہر مذہب میں ہے کوئی ایک مذہب اس میں خاص نہیں۔
آخری تدوین: