ہا ہا ہا ۔ کیا توجیہ ہے۔ حماقت کی انتہا ہے۔
بالکل ہے ۔۔۔ لیکن اس حماقت کی اب ضرورت نہیں رہی۔۔۔ حال ہی میں لکھنا وقت نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے۔۔۔ اب صرف پڑھنے کا وقت ملتا ہے اور کوئی بھی ملتا ہے تو پڑھتا ہوں۔۔۔ حال ہی میں فیض سے بھی واسطہ پڑا:
ہم کہ ٹھہرے اجنبی کتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
فیض کو اپنے دور میں انقلابی حالات و واقعات دیکھنے پڑے۔۔۔ اس وجہ سے بھی ان کے کلام میں بے انتہا تنوع اور گہرائی ہے۔۔۔
حبیب جالب اور دامن کو بھی پڑھنا چاہئے کہ وہ بھی اسی دور کے شاعر ہیں اور اچھا لکھنے والے ہیں ۔۔حبیب جالب کی کلیات انٹرنیٹ سے ملی ہے۔۔ ان کی غزل بھی نظم کی طرح دلکش ہے۔اچھے اور زندہ شعر کہتے ہیں:
ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی نیا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں
ان کی ایک نظم تو ہر کسی کو یاد ہوگی:
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
ایسے دستور کو
صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا
میں نہیں مانتا۔۔۔۔
جدید دور کے مسائل اور عام زندگی یعنی بقول فیض: "اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔۔۔ یہ حالات کی عکاسی حبیب جالب نے بھی خوب کی ہے۔۔۔۔
تاہم کام کی بات اس تھریڈ کے حوالے سے یہ ہے کہ جو نظم آپ نے اوپر لکھی ہے، اس کا حوالہ مجھے معلوم نہیں کہ یہ کہاں ہے۔۔۔سو اوپر جو کچھ لکھا ہے ، اس کا دگنا بھی لکھا جائے تو آپ کے کام کا نہیں۔۔ اس لیے اس پوسٹ کو یہیں ختم کرتا ہوں۔۔۔