آسمانی بجلی کو قید کر کے اس کا استعمال کرنے کا کوئی طریقہ موجود ہے ؟
آسمانی بجلی سے توانائی حاصل کرنا مشکل صرف اس لئے نہیں ہے کہ آپ اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتے کہ وہ کب اور کہاں چمکے گی۔ مزید براں بجلی کی کڑک واقعی میں پلک چھپکے میں غائب ہو جاتی ہے لہٰذا اس کی توانائی کو فوری طور قید کرنا ہو گا۔
فی الحال کوئی بھی آلہ اس طرح نہیں کر سکتا اور اس طرح کا آلہ بنانا کوئی مالی فوائد حاصل کرنے والی سرمایہ کاری نہیں ہو گی، غور طلب بات یہ ہے کہ بجلی کی کڑک زمین تک پہنچتے ہوئے اپنی زیادہ تر توانائی کو ضائع کر چکی ہو تی ہے۔ ایک محقق نے روشنی کے ایک بلب کو اس وقت روشن کرنے کا دعویٰ کیا جب بجلی ایک دیوہیکل کیپسٹر سے ٹکرائی جو زمین پر موجود تاروں سے منسلک تھا تاہم یہ نتائج دوبارہ کبھی نہیں دہرائے گئے۔
اپنے مدار میں پائیداری سے بیٹھے رہنے کے لئے زمین کے دوسرے چاند کو کسی ایک لینگرینجین نقاط پر موجود ہونا ہوتا - وہ نقاط جہاں زمین اور چاند کی ثقلی قوتیں ایک دوسرے کو جزوی طور پر زائل کر دیتی ہیں۔ دوسرے چاند کی ثقلی کھینچ زمین پر مدو جزر کو بڑھا دیتی، جس سے اگر زمین کو مختلف سمتوں سے کھینچا جاتا تو مدوجزر نمونے پیچیدہ ہو جاتے یا پھر اگر دونوں چاند ایک قطار میں ہوتے تو موجودہ چاند کے کھنچاؤ میں اضافہ کر دیتے۔ اس سے کافی زیادہ مدوجزر پیدا ہوتے جو بڑے سیلابوں کا سبب بنتے یا پھر کم مدو جذر پیدا ہوتے جن کے مہلک اثرات آبی مخلوق پر پڑتے۔
نہیں۔ انٹرنیٹ اپنے آپ میں کوئی چیز نہیں بلکہ ایک تصور ہے۔ پوری دنیا میں موجود اس سے منسلک کمپیوٹر اسی کا حصّہ ہیں۔ جیسے جیسے انفرادی ویب سرور کی جگہ بڑھتی جا رہی ہے اسی طرح انٹرنیٹ کی گنجائش بھی بتدریج بڑھ رہی ہے۔ حالیہ ٹیکنالوجی نے ہمیشہ سے ایک حد متعین کی ہوئی ہے - مثال کے طور پر انٹرنیٹ کے منفرد پتوں کی کل تعداد پر یا کوئی ایک سرور کتنی تعداد میں ایک وقت میں کنکشنز کو قبول کرے گا۔ بہرحال نئے پروٹوکول اور ہارڈویئر متواتر بنائے جا رہے ہیں تاکہ ان حدود سے باہر نکلا جا سکے، لہٰذا انٹرنیٹ اس وقت تک لامحالہ طور پر نمو حاصل کرتا رہے گا جب تک ہم چاہیں گے۔
کیا مردہ ستارے مرنے کے بعد بھی آسمان میں چمکتے ہیں ؟
ماہرین فلکیات ستارے کے 'چمکنے ' کی بات صرف اس وقت کرتے ہیں جب وہ خود سے نیوکلیائی عمل گداخت میں توانائی کو پیدا کرتا ہے، تاہم ستارے عام طور پر اپنا ایندھن اور عمل گداخت ختم ہونے کے طویل عرصے مرتے دم تک چمکنا اور روشنی کی زبردست مقدار اور حرارت کا اخراج جاری رکھتے ہیں۔ سفید بونے ستاروں کی سطح 100,000 ڈگری سیلسیس یا اس سے بھی زیادہ زبردست گرم ہوتی ہے، اور وہ جھلسا دینے والی سفید روشنی بالائے بنفشی روشنی اور ایکس رے کے امتزاج کے ساتھ بھڑکنا جاری رکھتے ہیں۔ وہ مدھم صرف اس لئے ہوتے ہیں کیونکہ وہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ وہ کئی کروڑ ہا برس تک دمکنا جاری رکھتے ہیں کیونکہ وہ آہستہ آہستہ ٹھنڈے اور مدھم ہوتے ہیں۔
مریخ شاید سب سے زیادہ دلچسپ، اور یقینی طور پر نظام شمسی میں سب سے زیادہ زمین جیسی، دنیا ہے اور اس بات کو جاننے کے لئے ناسا اب بھی کافی ساری رقم خرچ کرنے کو تیار ہے۔ اب تک ہم نے صرف چند درجن بھر ہی خلائی کھوجی کامیابی کے ساتھ مریخ کے مدار کے گرد بھیجے ہیں جن میں سے ہر ایک خاص آلات لے کر گیا ہے تاکہ ہمیں سطح کے بارے میں نئی اطلاعات دے سکے، جب کہ کیوریوسٹی جہاں گرد سرخ سیارے پر محفوظ طریقے سے اترنے والا صرف ساتواں خلائی جہاز (اور چوتھا جہاں گرد) ہے۔ مریخ کے کم و بیش یکساں رنگ کے باوجود یہ ایک کافی متنوع فیہ جہاں ہے، جہاں متنوع فیہ ماحول اور زمینی خصائص موجود ہیں - ہم نے ابھی تک صرف سطح کو ہی کھرچا ہے تاہم جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ہمیں تیزی سے زمین کے جیسا ماضی ملتا ہے جو اہم سوالات اٹھاتے ہیں جن کے جوابات ہم اب بھی پورے نہیں دے سکتے۔ سطح پر کتنا پانی بہا ہے ؟ کیا مریخ کے کبھی کوئی سمندر تھے ؟ اس کے کرۂ ہوائی اور سمندروں کا کیا ہوا؟ کیا کبھی وہاں پر سادہ حیات نے اپنا پیر جمائے تھے اور کیا اب بھی کہیں پر موجود ہے ؟ یہ وہ اسرار ہیں جن کے حل کی امید نئے جہاز جیسا کہ میون اور موم دلا رہے ہیں۔
کس طرح سے پانی کے پودے زمین پر موجود پودوں سے مختلف ہوتے ہیں ؟
میٹھے پانی کے آبی پودوں کو زیادہ تاریک ماحول اور کم کاربن ڈائی آکسائڈ کی سطح سے نمٹنا ہوتا ہے۔ قلیل روشنی کا صفایا پانی پر تیرنے والی یک خلوی کائی پہلے ہی کر چکی ہوتی ہے۔ لہٰذا آبی پودے یا تو حد درجہ مہین ہوتے ہیں، پھیلی ہوئی پتیوں کے ساتھ تاکہ اپنی سطحی رقبے کو زیادہ سے زیادہ کر سکیں، یا پھر وہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنی پتیاں پانی سے باہر نکال سکیں۔ کنول کی بڑی، چپٹی پتیاں ہوتی ہیں جو تیرتی ہیں، سرکنڈے اپنی پتیاں سیدھی ہوا میں نکال لیتے ہیں۔ اس حیات کے لئے اہم مطابقت جو وہ اختیار کرتے ہیں وہ ہوا بافت کہلاتی ہے۔ تنے میں موجود یہ ایک مسام دار ہوا سے بھرے بافتے ہوتے ہیں جو پودے میں آکسیجن کا ذخیرہ اور ترسیل کرتے ہیں۔ آکسیجن آس پاس کے پانی سے جذب نہیں ہوتی (کیونکہ وہ اتنی ہوتی ہی نہیں ) بلکہ یہ پودے خود سے ضیائی تالیف کے عمل میں بطور ضمنی محاصل کے پیدا کرتے ہیں۔ آپ اس اضافی آکسیجن کو بنتے ہوئے تالاب کے پودوں میں بطور ننھے بلبلوں کے دیکھ سکتے ہیں۔
اگرچہ مئی مکھی کی زندگی صرف ایک دن سے بھی کم ہوتی ہے، تاہم کیڑے بطور لاروے کے اپنی زندگی کسی نہر یا تالاب میں ایک یا دو برس گزار چکے ہوتے ہیں اور اپنی توانائی کے ذخیرہ کو بناتے ہیں۔ کیڑوں کی اکثریت کی زیادہ تر زندگی کا حصّہ لاروے کی صورت ہوتا ہے مئی مکھیاں صرف اس کی ایک انتہائی مثال ہیں۔ بالغ مئی مکھیاں کھاتی نہیں ہیں اور ان کا نظام ہاضمہ ہوا سے بھرا ہوتا ہے۔ وہ ککروندے کے بیجوں کی طرح صرف نسل بڑھانے کے لئے موجود ہوتی ہیں۔ اس سے پہلے کہ اپنی توانائی کو ختم کریں ایک ساتھ نمودار ہوتے ہوئے مئی مکھیاں شکار خوری کے خطرے کو کم اور اپنے جیون ساتھی کو ڈھونڈنے کے امکان کو بڑھا دیتی ہے۔
مزاج شناس انگوٹھیاں جلد کے درجہ حرارت میں ہونے والی تبدیلی کی وجہ سے رنگ بدلتی ہیں۔ اس کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ ایسا اس وقت ہو سکتا ہے جب جذباتی حالت میں ہونے والی تبدیلی خون کی شریانوں کو جلد کی سطح سے قریب یا دور لے جاتی ہے۔ یہ درجہ حرارتی تبدیلیاں انگوٹھی کے نیچے اندر لگے مائع قلموں کے ذریعہ منتقل ہوتی ہیں جو قلموں کو شکل تبدیل کرنے کے لئے اکساتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ تبدیل شدہ قلمیں روشنی کی مختلف طول امواج کی عکاس ہوں اور اسی وجہ سے انگوٹھی کا رنگ تبدیل ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مزاج شناس انگوٹھیاں اس طرح محدود طور پر کام کر سکتی ہیں، بہرحال وہ جلد میں ہونے والی دوسری وجوہات کی بدولت ہونے والے بدلاؤ جیسا کہ خون کی نامناسب گردش کی وجہ سے بھی رنگ تبدیل کر سکتی ہیں۔
گردش نما(Gyroscopic) اور ہوائی حرکیات (aerodynamic)کی قوتیں بومرینگ(boomerang) کی وفاداری سے پلٹنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ بومرینگ کے دو بازو جہاز کے پروں کی صورت کے ہوتے ہیں - اوپر سے تھوڑے خم دار اور نیچے سے چپٹے۔ جب دونوں بازو گھومتے ہیں تو اس سے اٹھان پیدا ہوتی ہے جو اس کو ہوا میں رکھتی ہے بعینہ جس طرح سے ہیلی کاپٹر ہوا میں معلق رہتا ہے۔ جب بومرینگ گھومتا ہے تو کسی بھی خاص وقت میں جب تک بومرینگ حرکت کی سمت میں جاتا رہتا ہے ایک بازو ہوا کی نسبت سے اصل میں دوسرے بازو سے تیزی سے گھومتا ہے۔ یہ اس بازو پر زیادہ اٹھان کی قوت کو پیدا کرتا ہے جو بومرینگ کے راستے کی سمت میں گھومتا ہے، نتیجتاً غیر متوازن قوت پیدا ہوتی ہے جو بتدریج بومرینگ کی سمت کو تبدیل کر دیتی ہے۔ اگر بومرینگ کو افقی طور پرپھینکا جائے گا تو وہ اوپر کی طرف خم زدہ ہو کرواپس پھینکی جانے والی جگہ پر لوٹنے کے بجائے گر جائے گا۔ واپس پھینکے جانے والی جگہ پر آنے کا موقع دینے کے لئے لازمی طور پر بومرینگ کو 20-45 درجے پر ایک مجازی عمودی خط پر پھینکنا ہو گا۔
ایک کوزار (Quasar)اور نابض (Pulsar)میں کیا فرق ہوتا ہے ؟
ایک جیسے مبہم ناموں کے باوجود، یہ فلکی اجسام بہت ایک مختلف ہیں۔ ایک نابض (اصل میں جو 'نابض ستارے ' [Pulsar Star]کا مختصر نام ہے ) ایک تیز رفتار گھومتا ہوا نیوٹران ستارہ ہوتا ہے - نو تارے کے دھماکے کی باقیات۔ اس کے طاقتور مقناطیسی میدان ہوتے ہیں، جو اشعاع کی پھواریں پھینک رہے ہوتے ہیں جو پوری خلاء میں مینارہ نور کی کرنیں کی طرح پھیلتی ہیں - جب وہ زمین کے ساتھ قطار میں ہوتی ہیں تو وہ روشنی، ریڈیائی یا دوسری اشعاع کے تیز لگاتار جھماکوں کی طرح نظر آتی ہیں۔ ایک کوزار (جو 'نجمی ریڈیائی منبع جیسے اجسام' سے نکلا ہے ) اصل میں ایک دور دراز کی کہکشاں غیر پائیدار روشنی کی بھڑک اور دوسری اشعاع کے ساتھ ہوتی ہے جو اس کے مرکزی علاقے سے آ رہی ہوتی ہیں۔ ان کہکشاؤں میں یہ سرگرمیاں ان کے عین قلب میں موجود دیوہیکل بلیک ہول کی وجہ سے ہوتی ہے، جو اپنے آس پاس کے علاقے سے مادّے کو کھینچ رہا ہوتا ہے، اور اس کو نگلنے سے پہلے پاش پاش اور زبردست درجہ حرارت تک گرم کرتا ہے۔
کیا ہم ایک ڈائنوسار کو ایک محفوظ ڈی این اے سے جلا بخش سکتے ہیں ؟
ناپید انواع کو واپس لانا ایک حقیقی امکان ہے۔ سچ تو یہ ہے، سائنسدانوں نے سائبیریا کی مستقل جمی ہوئی برف میں محفوظ اونی میمتھ کی باقیات سے اس کو کلون کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ وہ ہاتھی کے خلیے کے مرکزے کو میمتھ کے مرکزے سے تبدیل کر کے میمتھ کے ان جنین کو ہاتھیوں کے اندر پیوست کرنے کے بعد میمتھ کو بنانے کی امید کرتے ہیں۔
ڈائنوسار کی کلوننگ کی امید کا امکان بہرحال کوئی بہت اچھا نہیں ہے۔ نئی تحقیق بتاتی ہے کہ ڈی این اے کی نصف زندگی صرف 521 برس کی ہے، اور یہ 68 لاکھ برس میں مکمل طور پر ٹوٹ جائے گا۔ ڈائنوسارس لگ بھگ 6 کروڑ 65 لاکھ برس پہلے مر چکے ہیں، یعنی کہ ان کا ڈی این اے کافی عرصہ پہلے ہی ختم ہو گیا ہے۔ دوسرا ممکنہ متبادل یہ ہے کہ ڈائنوسار جیسے جانوروں کے جینیاتی کوڈ کو لے کر کمپیوٹر کے ساتھ قدیم 'ختم ہوئی' ڈائنوسار کی جین کا استعمال کیا جائے جو اب ممکنہ طور پر ڈائنوسارس کی نسل کے ڈی این اے میں موجود ہیں جیسا کہ پرندے۔ آج ہمارے پاس ضروری فنی مہارت موجود نہیں ہے، تاہم سائنس دانوں نے اس امکان کو رد نہیں کیا ہے۔
کیا یہ سچ ہے کہ قطبی ریچھ حقیقت میں کالے ہوتے ہیں ؟
نہیں، وہ قطعی طور پر سفید ہیں۔ یہ سچ ہے کہ قطبی ریچھ کی جلد کالی ہوتی ہے، تاہم جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ سفید فر کی موٹی تہہ سے ڈھکی ہوتی ہے، لہٰذا بحیثیت مجموعی ریچھ کالا ہوتا ہے۔ چیزوں کا رنگ یہ ہے کہ وہ آپ کی آنکھوں کے سامنے کیسے ظاہر ہوتا ہے۔ اس بارے میں ذرا یوں سوچیں : اگر آپ اپنے کمروں کی دیواروں کو سفید رنگ کرتے ہیں، تو کیا یہ واقعی اینٹوں کا رنگ ہوتا ہے ؟ اگر انفرادی طور پر دیکھیں تو قطبی ریچھ کے بال اصل میں شفاف ہوتے ہیں۔ اس کے بال سفید اسی وجہ سے ہوتے ہیں جس وجہ سے بادل ہوتے ہیں : دسیوں ہزار الجھی ہوئی سطحوں کی وجہ سے ننھی منعکس ہونے والی روشنی آپ کی آنکھوں پر واپس منعکس ہوتی ہے۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ ہر بال بصری تار کی طرح سے سورج کی روشنی کو نیچے کھال تک پہنچانے کے لئے روشن دان جیسا برتاؤ کرتا ہے، تاہم حالیہ تحقیق اس کو رد کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ سفید رنگ خالص طور پر بہروپ کے لئے ہے۔
ہم دوربین کی مدد سے ماضی میں کہاں تک جھانک سکتے ہیں ؟
اس کا تمام تر انحصار دوربین کے حجم پر ہے ! کائنات کو ایک عظیم ٹائم مشین کی طرح سے استعمال کرنے کی ہماری صلاحیت روشنی کی محدود رفتار کی وجہ سے ہے - اگرچہ یہ کائنات میں سب سے زیادہ تیز رفتار ہے اس کے باوجود یہ صرف 9 کھرب 50 ارب کلومیٹر (5 کھرب 90 ارب میل) فی برس سے سفر کر سکتی ہے، لہٰذا وہ تمام روشنی جو دور دراز اجسام سے آ رہی ہے اور جس کو ہم اب دیکھ رہے ہیں ماضی میں کسی وقت اپنے سفر پر نکلی ہو گی۔
یہاں تک کہ صرف خالی آنکھ سے بھی، آپ اینڈرومیڈا کہکشاں کو دیکھ سکتے ہیں، آپ کی سب سے قریبی کہکشانی پڑوسیوں میں سے ایک، جس کو دیکھنا ماضی میں 25 لاکھ برس دیکھنے کے برابر ہے۔ ایک چھوٹی دوربین کروڑ ہا نوری برس کی دوری پر موجود کہکشاؤں کو دکھا سکتی ہے - سنبلہ جھرمٹ کی کچھ کہکشاؤں سے زمین پر آنے والی روشنی نے لگ بھگ اس وقت رخت سفر باندھا تھا جب ڈائنوسارس معدوم ہو رہے تھے۔ ہبل خلائی دوربین سے اب تک دیکھی جانے والی سب سے دور کی کہکشاں جس کا اعلان نومبر 2012ء میں کیا گیا تھا اور جو MACS0647-JD کے نام سے جانی جاتی ہے، وہ 13 ارب 30 لاکھ نوری برس کے فاصلہ پر ہے، لہٰذا ہم ماضی میں بگ بینگ کے بعد صرف 42 کروڑ پہلے کا وقت دیکھ رہے ہیں۔ اور ریڈیائی دوربینیں تو اس سے بھی بہتر بگ بینگ کے چمکنے کے بعد صرف 13 ارب 70 کروڑ برس پہلے کی کمزور پس منظر کی خرد امواج کا سراغ لگا کر کام کر سکتی ہیں۔
میں فلکیات اور فلکی طبیعیات کی کتب کا مطالعہ ٥٠ برسوں سے کر رہا ہوں اور ایک عام آدمی کے طور پر صرف ان کے کچھ حصّوں کو ہی سمجھ پایا ہوں۔ میں نے ابھی ایک کتاب پڑھی ہے جس کا نام اضافی خلاء ہے جو میچیو کاکو نے لکھی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ زمین میں بھاری عناصر کونیاتی بادلوں سے آئے ہیں جس سے وہ بھی ہے۔ ٹھیک ہے بات سمجھ میں آ گئی۔ تب وہ کہتا ہے کہ سورج ( جو اسی بادل سے بنا تھا) میں بھاری عناصر موجود نہیں ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
سورج میں بھاری عناصر موجود ہیں۔ تاہم یہ بھاری عناصر زمین کے مقابلے میں سورج کا کافی کم حصّہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سورج اتنا ضخیم ہے کہ وہ ہائیڈروجن اور ہیلیئم جیسی گیسوں کی بڑی تعداد کو روک سکتا ہے۔ لہٰذا ہائیڈروجن اور ہیلیئم نے سورج کا زیادہ تر حصّہ بنایا ہے، جبکہ بھاری عناصر اس کا کم حصّہ بناتے ہیں۔
کرسٹوفر اسپرنگوب
کرس کائنات کی بڑی ساختوں کی تحقیق کہکشاؤں کی مخصوص سمتی رفتار کے ذریعہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے ٢٠٠٥ء میں کورنیل سے پی ایچ ڈی کی ہے اور اب وہ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں ریسرچ اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
جواب: یہ سچ ہے کہ سورج ہر سیکنڈ کروڑ ہا ٹن ہائیڈروجن کو جلا کر ہیلیئم میں ایک نیوکلیائی عمل میں بدل رہا ہے۔ یہ سورج کی توانائی کا ذریعہ ہے، اور اگر سورج اس شرح سے کم کی گیس کو استعمال کرے گا تو ہمیں حیات کو سہارا دینے والی حرارت حاصل نہیں ہو سکے گی۔ تاہم خطرے کی کوئی بات نہیں ہے، کیونکہ سورج میں عظیم الجثہ مقدار میں ہائیڈروجن گیس موجود ہے۔ سورج کی کل کمیت 2x10^33 گرام ہے جس میں سے بہت ہی تھوڑی گیس نیوکلیائی عمل میں استعمال ہوتی ہے۔ اگر آپ سورج کی عمر کا اندازہ فی سیکنڈ گیس کے استعمال سے لگائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ سورج دس ارب برس تک زندہ رہ سکتا ہے۔
جگ دیپ ڈی پانڈین
جگ دیپ نے اریسیبو ریڈیائی دوربین کے لئے ایک نیا وصول کنندہ بنایا ہے جو ٦ اور ٨ گیگا ہرٹز کے درمیان کام کرتا ہے۔ وہ ہماری کہکشاں میں 6.7 گیگا ہرٹز کی میتھانول میزر کی تحقیق کر رہے ہیں۔ یہ میزر وہاں وقوع پذیر ہوتی ہیں جہاں ستارے پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنی پی ایچ ڈی کی سند کارنیل سے جنوری ٢٠٠٧ء میں حاصل کی اور بعد میں مابعد ڈاکٹرفیلو ، میکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار ریڈیو ایسٹرونومی ، جرمنی میں تعینات رہے ۔ اس کے بعد انہوں نے بطور سب ملی میٹر ما بعد ڈاکٹرل فیلو کے یونیورسٹی آف ہوائی کے شعبہ انسٹیٹیوٹ فار ایسٹرو نومی میں کام کیا۔ فی الوقت جگ دیپ انڈین انسٹیٹیوٹ آف اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں کام کر رہے ہیں۔
آیا کچھ جینز کیوں دوسروں سے زیادہ مضبوط ہوتی ہیں ؟
'مضبوط' جین غالب کہلاتی ہیں اور انہیں اثر ڈالنے کے لئے صرف اپنی ایک ہی نقل درکار ہوتی ہے۔ راجع (Recessive)جینز کو اپنا اثر ڈالنے کے لئے دو نقول کی ضرورت ہوتی ہے (یعنی کہ آپ کو ایک ایک نقل اپنے دونوں والدین سے وراثت میں درکار ہوتی ہے )۔ گہری آنکھوں کی خصلت غالب خصوصیت ہے کیونکہ متعلقہ جین کی یہ صرف ایک ہی نقل سے آنکھ کی سیاہی کو پیدا کر دیتی ہے - رنگ دار مادّے جو آنکھوں کو بھورا کرتے ہیں۔ دوسری طرف نیلی آنکھیں راجع ہوتی ہیں کیونکہ سیاہی کی موجودگی پر نیلا رنگ چڑھ جاتا ہے - ایک ایسا شخص جس کی ایک نیلی آنکھ کی جین اور ایک بھورے رنگ کی جین ہوگی اس کے پاس دونوں آنکھیں بھوری ہوں گی۔ یہ مثال صرف ان کئی طریقوں میں سے ایک ہے جس میں غالب جین اور راجع جین ایک دوسرے سے متعامل ہوتی ہیں، تاہم سائنس دانوں کے لئے ابھی ان کے کام کے طریقے کو سمجھنے کے لئے کافی کچھ سیکھنا باقی ہے۔
زمین کے خم کو دیکھنے کے لئے آپ کو کتنا بلندی پر جانا پڑے گا؟
بصری محققین کے مطابق، اگرچہ ہم اپنے آپ کو یہ کہہ کر بیوقوف بنا سکتے ہیں کہ ہم بلند پہاڑ پر کھڑے ہو کر زمین کے خم کو دیکھ رہے ہیں، تاہم اصل میں یہ دلپسند سوچ ہے۔ آپ اس کا سراغ 10,600 میٹر (35,000 ہزار فٹ ) پر اڑتے ہوئے جہاز سے لگا سکتے ہیں، تاہم اس کے لئے آپ کو کافی وسیع دیکھنے کا میدان (یعنی 60 درجے ) اور عملی طور پر بادلوں سے پاک افق کا منظر نامہ درکار ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ بادل، پہاڑیاں اور پہاڑوں کا مطلب یہ ہے کہ ہم شاذونادر ہی بے عیب قسم کا چپٹا افق دیکھنے کے قابل ہوں گے جہاں خم سب سے زیادہ واضح ہو۔
بہرحال، آپ ساحل کی سطح پر کھڑے ہو کر زمین کے خم کا سراغ دوربین سے لگا سکتے ہیں - بس صرف افق پر دور دراز پانی کا جہاز دیکھیں اور آپ دیکھیں گے کہ ان کا بیج کا حصّہ بادبانوں کے ستونوں اور بالائی تعمیر سے پہلے غائب ہونا شروع ہو گا۔ قدیم یونانی سائنس دانوں نے اس کو دوربین کی مدد کے بغیر ہی دیکھ لیا تھا، اور اس کا استعمال کرتے ہوئے نتیجہ نکالا کہ زمین گول ہے۔
1980ء کے عشرے کے وسط میں، یورپ میں مواصلاتی محققین کی ایک جماعت کوشش کر رہی تھی کہ ایک ایسا معیار بنا سکیں جو ٹیکسٹ پیغام کو موبائل فون کہلانے والی بالکل نئی ٹیکنالوجی کے ذریعہ بھیجا جا سکے۔ ان کی سب سے زیادہ امید مواد کو وصولی طاقت سے منتقل کرنے کے لئے موبائل نیٹ ورک پر محفوظ رکھنے والا ثانوی ریڈیائی چینل تھا۔ تاہم تنگ مواد کا چینل صرف محدود تعداد میں الفاظ کو منتقل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تحقیق کے سربراہ، فرائیڈ ہیلم ہلربرانڈ نے پوسٹ کارڈز، ٹیلیکس ترسیل، اور اپنے اکثر پوچھے جانے والے سوالات کی فہرست کی ایک غیر سائنسی مطالعہ اس بات کو تعین کرنے کے لئے کیا کہ 160 حرف زیادہ تر بات چیت کے لئے کافی ہوں گے۔ نتیجتاً، مختصر پیغام کا نظام (ایس ایم ایس) پیدا ہوا۔ لہٰذا ٹیکسٹ پیغام بھیجتے وقت آپ جب بھی حروف کی قید کا سامنا کریں تو الزام جناب ہلر برانڈ کو دیں۔
مجھے حالیہ ایک ویب سائٹ ملی ہے جس کا نام ہے thesurfaceofthesun.com اور ان کا کہنا ہے کہ سورج کی سطح ٹھوس لوہے کی ہے، کیا یہ تازہ معلومات ہے؟ میرے خیال میں تو لوہا وہ آخری عنصر ہوتا ہے جو ستارے کے پھٹنے سے پہلے بنتا ہے۔ میں ہمیشہ سے یہ سمجھتا رہا ہوں کہ تمام عناصر گداخت کرتے ہوئے ستارے کے آخر میں لوہے کو چھوڑتے ہیں۔
جواب: آپ کی معلومات بالکل درست ہے۔ سورج کے جزو ترکیب کے عمومی طور پر جاننے والے علم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے بلکہ اس کی تصدق کے لئے مزید ثبوت ملے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سورج لوہے سے بنا ہے اور سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس اپنے دعووں کے کافی مضبوط دلائل و ثبوت موجود ہیں۔ جیسا کہ ہم نے اور جگہوں پر بھی کہا ہے کہ یہ تجسس کی سائٹ اس قسم کے نمونے پر تفصیلی بحث کرنے کی جگہ نہیں ہے ہرچند کہ میں نے دیکھا ہے کہ سورج کے لوہے کی سطح کے خیال میں پائے جانے والے نقائص کو صرف بنیادی طبیعیات کی روشنی میں ہی پکڑا جا سکتا ہے (مثال کے طور پر لوہا سورج کے درجہ حرارت پر بخارات بن کر اڑ جائے گا)۔ اگر آپ اس بارے میں مزید تفصیلات جاننا چاہتے ہیں تو میں آپ کو میں آپ کو ایک فورم پر جاری بحث کی لڑی کا پتا دیتی ہوں۔ جہاں پر اس مذکورہ بالا ویب سائٹ کے مصنف نے جون –جولائی ٢٠٠٥ء میں اپنے نمونے کے اوپر دوسرے فورم کے اراکین کے ساتھ مل کر دلائل دیئے تھے۔
سورج کے گیسی نمونے کے نظریہ بجائے پرانے اور متروک ہونے ( جیسا کہ آپ کی بیان کردہ ویب سائٹ کے مطابق ہے)کے اس کے حق میں مزید ثبوت ملے ہیں۔ اگر آپ نجمی ساخت کو کالج کی سطح پر پڑھیں تو آپ دیکھیں گے کہ کس طرح سے معیاری نمونہ نصف قطر، درجہ حرارت اور دوسرے قابل مشاہدہ خصائص کو کتنے اچھے طریقے سے بیان کرتا ہے۔ اصل میں شمسی نیوٹرینو مسئلہ ( یہ حقیقت کہ معیاری نمونہ سورج سے نیوٹرینو کے اخراج کو زیادہ بتاتا ہے بنسبت اس کے جس کا مشاہدہ ہم آج کرتے ہیں) بجائے شمسی طبیعیات میں تبدیلی کے نیوٹرینو کے نئے خصائص کے بارے میں عندیہ دے رہا ہے! شمسی ارتعاش (سورج کے اندرون سے نکلنے والی صوتی امواج کا مشاہدہ بذریعہ سطح پر اثر کے) بھی نمونے کی تصدیق کرتا ہے۔ لہٰذا ہمارے پاس (حالیہ) ثبوت موجود ہیں جو اس خیال کی تصدق کرتے ہیں کہ سورج زیادہ تر ہائیڈروجن کی گیس سے بنا ہے۔ حقیقت میں تو خلا نوردوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ کائنات زیادہ تر ہائیڈروجن سے بنی ہے، لہٰذا اگر سورج سب سے الگ ہو تو یہ بات کافی عجیب ہوگی۔
سورج میں لوہے کی تھوڑی سی مقدار موجود ہے کیونکہ سورج اس گیسی بادل سے بنا تھا جس میں لوہے (اور دیگر عناصر) بھی موجود تھے اور یہ پچھلے ستاروں اور سپرنووا کے درمیان بنے تھے۔ جب سورج میں ہائیڈروجن ختم ہو جائے گی تو وہ بھاری عناصر کو ضم کرکے اور بھاری عناصر بنائے گا۔ سورج سے ضخیم ستارے یہ عمل لوہے کے عنصر کو بنانے تک جاری رکھتے ہیں۔ لوہا وہ آخری عنصر ہے جس جو بنتے ہوئے توانائی کو خارج کرتا ہے مزید بھاری عناصر کو بننے کے لئے توانائی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے (تاہم یہ انشقاق کے عمل میں توانائی کا اخراج کرتے ہیں) لہٰذا ستارہ ایک مرتبہ جب لوہا بنا لیتا ہے تو مزید توانائی نہیں بچتی جس سے عمل گداخت جاری رہ سکے لہٰذا ستارہ مر جاتا ہے۔ سورج تو اتنا بھی ضخیم نہیں ہے کہ کاربن کو جلا سکے (بھاری عناصر بنانے کے لئے زیادہ درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے) ایک مرتبہ سورج نے اپنے قلب میں کاربن کو بنا لیا تو اس کا قلب ختم ہو جائے گا اور اپنے پیچھے ایک آہستہ ٹھنڈا ہوتا دھما اور سفید بونا ستارہ چھوڑ دے گا۔
لہٰذا کچھ بھی نہیں بدلا اور آپ کا سورج کے کام کرنے کے طریقے کے بارے میں پہلا نظریہ ہی اکثر لوگوں کی نظر میں درست ہے۔
اصل میں سورج کے لوہے سے بننے کے خیال کے پیچھے ایک دلچسپ بات ہے۔ یہ سوال کچھ زیادہ پرانا نہیں ہے کہ سورج کس چیز سے بنا ہے اور اس کی توانائی کا منبع کیا ہے۔٢٠٠ برس سے کم عرصے کے دوران یہ سوال ہی نہیں تھا۔ اس کے بارے میں انیسویں صدی کے وسط میں سوچا گیا۔ یہ کہا گیا کہ ہو سکتا ہے کہ سورج لوہے کی پگھلی ہوئی گرم گیند ہو تاہم صرف سادہ سے حساب بھی بتا سکتے ہیں کہ اندرونی توانائی کے منبع کے بغیر سورج بہت تیزی سے ٹھنڈا ہو جائے گا۔ ١٥٠ برس قبل یہ سمجھ میں آنا شروع ہوا کہ سورج سے نکلنے والی حرارت سے اس کا درجہ حرارت ناپا جا سکتا ہے۔ یوں سورج کا درجہ حرارت ٦٠٠٠ سینٹی گریڈ ناپا گیا جو ٹھوس لوہے کے لئے بہت ہی زیادہ ہے (یا کسی بھی ٹھوس مادّے کے لئے)۔ سورج کے ماسکونی توازن ( قوّت ثقل اور مادّے کا باہری جانب دباؤ جس سے وہ بنا ہے کے درمیان کا توازن)کا طبیعیاتی حساب فوری بتا دے گا کہ لازمی طور پر سورج کو گیس ہونا چاہئے۔ سورج کی توانائی کے شروعات کے نمونے یہ سمجھتے تھے کہ شاید یہ سورج کے آہستہ سکڑنے کی وجہ سے ہے (توانائی قوّت ثقل کی وجہ سے نکل رہی ہے) تاہم اس سے سورج کی عمر کافی کم نکلتی تھی۔ سورج کا طیف سورج کی سطح پر موجود زیادہ تر عام عناصر یعنی ہائیڈروجن اور ہیلیئم کا بتا سکتے ہیں – اس طرح سے کائنات میں سب سے عام پائے جانے والے عناصر کے نمونے سے بھی میل کھاتے ہیں۔ اس تمام کام نے نیوکلیائی طبیعیات کی اور ہماری سورج کی حالیہ سمجھ بوجھ کی راہ ہموار کی ہے جس میں سورج ایک عظیم الجثہ گیسی ہائیڈروجن کا گداختی ری ایکٹر ہے۔
کیرن ماسٹرز
کیرن کارنیل میں ٢٠٠٠ء سے لے کر ٢٠٠٥ء تک سند حاصل کرنے والی طالبہ رہی ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں ہونے والی کہکشاؤں کی سرخ منتقلی کی تحقیق کے لئے انہوں نے حصّہ لیا اور اب وہ اپنے آبائی وطن یو کےمیں موجود یونیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔ ان کی بعد کی تحقیق نے کہکشاؤں کی شکلیات پر اپنی توجہ مرکوز رکھی جو ان کی بناوٹ اور ارتقا کے بارے میں معلومات فراہم حاصل کرنے کے لئے کی گئی تھی۔ وہ کہکشانی جنگل کے منصوبے کی پروجیکٹ سائنٹسٹ ہیں۔
جواب: کائنات میں موجود تمام ہیلیئم ہائیڈروجن کے جوہروں کے عمل گداخت کے نتیجے میں یا تو کائنات کے شروعات میں یا پھر ستاروں میں پیدا ہوئی ہے۔
ہیلیئم کا کیا ہوتا ہے؟ زیادہ تر ستارے جب اپنی ہائیڈروجن کا اہم حصّہ ہیلیئم میں تبدیل کر لیتے ہیں تو وہ ایک اندرونی تبدیلی سے گزرتے ہیں۔ اندرونی قلب منہدم ہو کر اتنا گرم ہو جاتا ہے کہ ہیلیئم کو دوسرے بڑے جوہروں میں گداخت کرے مثال کے طور پر تین ہیلیئم کے جوہروں کو کاربن میں ضم کر دیتا ہے۔ اسی وقت کچھ ہیلیئم اس کاربن کے ساتھ ضم ہو کر آکسیجن کو بناتی ہے۔ قلب کے باہر جس کو ہم باہری پرت کہتے ہیں وہاں پر بھی اتنی ہائیڈروجن موجود ہوتی ہے جو ہیلیئم میں گداخت ہو سکے۔ تاہم قلب بڑے جوہروں کی گداخت شروع ہے۔ اس طرح سے ایک عام ستارہ جس طرح کا ہمارا سورج ہے ، تبدیل ہوتے ہوئے سرخ دیو بن جاتا ہے۔
بنیادی طور پر یہ عمل سب کے لئے کھلا ہوا ہوتا ہے جس میں بڑے سے بڑا جوہر بنتا ہے۔ جیسے ہی قلب سے ہیلیئم ختم ہوتی ہے، ستارہ دوبارہ سے منہدم ہونا شروع ہوتا ہے اور پھر گرم ہو کر کاربن اور آکسیجن کو دوسرے بڑے جوہروں میں گداخت کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اگر ستارہ زیادہ ضخیم ہوتا ہے تو وہ یہ سلسلہ لوہے کو بنانے تک جاری رکھتا ہے۔ اس جگہ پر پہنچ کر گرم قلب مزید عمل گداخت کو جاری نہیں رکھ سکتی۔ ستارہ منہدم ہو کر غیر پائیدار ہوتا ہے اور دھماکے سے پھٹ کر سپرنووا اور نیوٹران ستارے کو بناتا ہے۔