اکثر پوچھے جانے والے سوالات (عمومی سائنس سے متعلق)

زہیر عبّاس

محفلین
کیا سورج کسی دن بلیک ہول میں تبدیل ہو جائے گا؟


سورج کبھی نہیں پھٹے گا نہ ہی کبھی بلیک ہول میں تبدیل ہوگا۔ ستاروں کی زندگی کا اختتام دو طرح سے ہوتا ہے۔ ان ستاروں کی زندگی کا اختتام کافی اچھا ہوتا ہے جن کی کمیت سورج جتنی ہوتی ہے، یہ مرتے وقت ایک سیاروی سحابیہ بناتے ہیں اور اپنے پیچھے سفید بونا چھوڑ جاتے ہیں۔ سورج سے کافی زیادہ ضخیم ستارے نو تارے کی صورت میں پھٹ کر اپنے پیچھے ایک نیوٹران ستارہ یا ایک بلیک ہول چھوڑ دیتے ہیں۔ لہذا اس بارے میں فکر مند ہونا چھوڑ دیں کہ سورج کبھی بلیک ہول بنے گا۔

اب آپ کے دوسرے سوال کا جواب۔ اگر فرض کریں کہ سورج یکایک بلیک ہول میں تبدیل ہو جائے (جو کہ کبھی نہیں ہوگا) تو زمین پر کچھ نہیں ہوگا۔ بلیک ہول جا کر انسانوں اور سیاروں کو نہیں کھاتے۔ تاہم کیونکہ سورج کی روشنی باقی نہیں رہے گی اس لئے ہمیں حرارت کو حاصل کرنے کے لئے مشکل صورتحال سے نمٹنا ہوگا۔

تاہم یہ بات بھی یاد رکھیں کہ ہم زمین پر ہمیشہ کے لئے محفوظ نہیں ہیں۔ اگلے ٤ ارب ٥٠ کروڑ برس میں (یہ ایک طویل عرصہ ہے) سورج پھیل کر ایک سرخ دیو بن جائے گا اور زمین کے مدار سے کافی قریب ہو جائے گا۔ اس وقت زمین اس قدر گرم ہو جائے گی کہ یہاں پر سمندر باقی نہیں رہ پائیں گے اور شاید ہماری جانی پہچانی حیات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ بہرحال یہ مستقبل کی بات ہے فی الوقت ہمیں سورج کی وجہ سے کچھ بھی ہونے کے بجائے اپنے آپ سے خود کو ختم کرنے کا زیادہ خطرہ ہے (جنگ اور آلودگی کے ذریعہ سے)۔





جگ دیپ ڈی پانڈین
جگ دیپ نے اریسیبو ریڈیائی دوربین کے لئے ایک نیا وصول کنندہ بنایا ہے جو ٦ اور ٨ گیگا ہرٹز کے درمیان کام کرتا ہے۔ وہ ہماری کہکشاں میں 6.7 گیگا ہرٹز کی میتھانول میزر کی تحقیق کر رہے ہیں۔ یہ میزر وہاں وقوع پذیر ہوتی ہیں جہاں ستارے پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنی پی ایچ ڈی کی سند کارنیل سے جنوری ٢٠٠٧ء میں حاصل کی اور بعد میں مابعد ڈاکٹرفیلو ، میکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار ریڈیو ایسٹرونومی ، جرمنی میں تعینات رہے ۔ اس کے بعد انہوں نے بطور سب ملی میٹر ما بعد ڈاکٹرل فیلو کے یونیورسٹی آف ہوائی کے شعبہ انسٹیٹیوٹ فار ایسٹرو نومی میں کام کیا۔ فی الوقت جگ دیپ انڈین انسٹیٹیوٹ آف اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں کام کر رہے ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
کیا سورج پھیل رہا ہے؟

میں نے سنا ہے کہ وقت کے ساتھ سورج پھیل رہا ہے اگر نہیں تو یہ کتنا بڑا ہو سکتا ہے؟


جواب: یہ سچ ہے کہ سورج بہت آہستگی کے ساتھ پھیل اور زیادہ روشن ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہائیڈروجن کو جلا کر اپنے قلب میں ہیلیئم میں بدل رہا ہے اور اس میں موجود ہائیڈروجن بتدریج کم ہو رہی ہے۔ توانائی کی پیداواری شرح کو برقرار رکھنے کے لئے قلب میں کمیت اور درجہ حرارت کو لازمی طور پر بڑھنا پڑتا ہے۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ توانائی سطح پر تھوڑا تیزی سے آتی ہے اور بیرونی پرت کو پھلا دیتی ہے (جبکہ سورج کو ہلکا سا زیادہ روشن بھی کرتی ہے)۔

جب سورج کے قلب میں ہائیڈروجن مکمل طور پر ختم ہو جائے گی (جو اگلے ٥ ارب یا اس سے زائد کے عرصے میں ہوگی) وہاں نیوکلیائی تعامل رک جائے گا، تاہم وہ قلب کے گرد موجود خول میں جاری رہے گا۔ قلب سکڑ جائے گا (کیونکہ وہ اب توانائی کو پیدا نہیں کر رہا ہوگا) اور جب وہ سکڑے گا تو وہ گرم ہو جائے گا۔ بالآخر یہ اتنا گرم ہو جائے گا کہ ہیلیئم کو کاربن میں گداخت کرنا شروع کر دے گا (ایک مختلف نیوکلیائی عمل) جب قلب سکڑ رہا ہوگا تو اس کے ارد گرد موجود ہائیڈروجن گرم ہو جائے گی اور بیرونی پرت کو بھی گرم کرے گی جو پھیل جائے گی اس طرح سے وہ ٹھنڈی ہوگی۔ اس وقت سورج سرخ دیو بن جائے گا اور اس کا نصف قطر اتنا ہوگا کہ زمین کو ڈھانپ لے!

بالآخر سورج کے قلب میں ہیلیئم بھی ختم ہو جائے گی۔ جب ایسا ہوگا تو قلب دوبارہ سکڑے گا، تاہم اس وقت وہ کبھی بھی اتنی گرمی حاصل نہیں کر پائے گا جس سے دوسرے عناصر کی گداخت شروع ہو سکے۔ ہرچند اس وقت بھی قلب کے گرد موجود خول میں ہیلیئم اور ہائیڈروجن کا نیوکلیائی عمل جاری ہوگا اور یہ مزید بیرونی پرت کو گرم کرنا جاری رکھیں گے اور وہ مزید آگے پھیل جائے گا۔ آخر میں قلب سفید بونے میں تبدیل ہو جائے گی ایک حد درجہ چھوٹا (زمین کے لگ بھگ) ضخیم ستارہ۔ سفید بونا توانائی پیدا نہیں کر سکتا لہذا یہ آہستہ آہستہ جلتے ہوئے ٹھنڈا ہو جائے گا۔ سورج کی بیرونی پرت سیاروی سحابیہ میں بدل جائے گی (ہرچند اس کا سیاروں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے) اور بتدریج بین النجمی خلاء میں کھو جائے گی۔ سیاروی سحابیہ رات کے آسمان میں نظر آنے والے چند گنے چنے خوبصورت اجسام میں سے ایک ہیں۔ نیچے ایک چھلے والا سحابیہ ہے ۔



لہٰذا سورج کبھی نہیں پھٹے گا (ہرچند اس سے زیادہ ضخیم ستارہ ایسا کر سکتے ہیں اور کرتے بھی ہیں)۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سورج اتنا زیادہ ضخیم نہیں ہے کہ یہ اپنے قلب میں ہیلیئم کو گداخت کرکے دوسرے عناصر کو بنا سکے۔ دوسرے زیادہ ضخیم ستارے اپنا نیوکلیائی عمل جاری رکھتے ہیں تاوقتیکہ وہ لوہا گداخت کرنا نہ شروع کر دیں۔ جس کی وجہ سے ان کا قلب غیر پائیدار ہو جاتا ہے اور وہ ایک نوتارے کے دھماکے میں پھٹ پڑتے ہیں۔


کیرن ماسٹرز
کیرن کارنیل میں ٢٠٠٠ء سے لے کر ٢٠٠٥ء تک سند حاصل کرنے والی طالبہ رہی ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں ہونے والی کہکشاؤں کی سرخ منتقلی کی تحقیق کے لئے انہوں نے حصّہ لیا اور اب وہ اپنے آبائی وطن یو کےمیں موجود یونیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔ ان کی بعد کی تحقیق نے کہکشاؤں کی شکلیات پر اپنی توجہ مرکوز رکھی جو ان کی بناوٹ اور ارتقا کے بارے میں معلومات فراہم حاصل کرنے کے لئے کی گئی تھی۔ وہ کہکشانی جنگل کے منصوبے کی پروجیکٹ سائنٹسٹ ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
کیا سورج سپرنووا دھماکے میں بنا ہے؟


جواب : زینون کے ٩ پائیدار جبکہ ٢٠ یا اس سے زائد غیر پائیدار ہم جا موجود ہیں۔ (ہم جا وہ جوہر ہوتے ہیں جن میں پروٹون کی تعداد ایک جیسی ہی ہوتی ہے ، ایک ہی طرح کے کیمیائی خصائص ہوتے ہیں تاہم ان کے مرکزے میں مختلف تعداد میں نیوٹران ہوتے ہیں۔ زمین پر زینون کے ہم جاؤں میں ایک مخصوص تناسب ہے۔ مثال کے طور پر زمین پر سب سے کمیاب ہم جا Xe134 (١٠ فیصد) اور Xe136 (٨ فیصد) ہیں۔ عجیب زینون شاید ہم جاؤں کا مختلف تناسب شہابیوں میں پایا جانے وال لگ رہا ہے تاہم یہ عام طور پر استعمال ہونے والی اصطلاح نہیں ہے۔

مجھے گمان ہے کہ آپ نے ڈاکٹر آلیور منیل کے سورج کے بارے نظریئے میں پڑھ لئے ہوں گے۔ انہوں نے زینون کے تناسب کو اپنے نظریئے کے حق میں استعمال کیا ہے ان کا دعویٰ ہے کہ یہ مشتری اور شمسی ہواؤں میں مختلف تناسب سے ہیں لہٰذا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نظام شمسی ایک سپرنووا کے دھماکے میں پیدا ہوا ہے اور سورج لوہے سے بنا ہے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ عجیب زینون کے ہم جا شہابیوں میں اس وقت تک نہیں بن سکتے جب تک نظام شمسی سپرنووا دھماکے میں نہ پیدا ہو۔ میرے اپنے خیال میں ایسا نہیں ہوا۔ ہم جانتے ہیں کہ گیس کے بادلوں جس سے ہمارا نظام شمسی بنا ہے اس میں بھاری عناصر بھی موجود تھے لہٰذا اس میں کافی سارے سپرنووا کی باقیات بھی موجود ہوں گی۔ زینون کا تناسب آسانی کے ساتھ اس کی نشانی ہو سکتا ہے اور اس کے لئے نظام شمسی کو سپرنووا کے دھماکے میں بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ حقیقت میں منیل کا یہ کام جس پر شہابیوں میں اس نے ہم جاؤں کا تناسب ناپا ہے وہ ان ثبوتوں کے لئے انتہائی اہم ہے جس میں گیس کے بادل جس سے نظام شمسی بنا ہے لازمی طور پر ایک سے زیادہ سپرنووا کی باقیات رکھتے تھے۔

Xe 136/ 134 کے تناسب کو مشتری بمقابلہ شمسی ہواؤں کے مختلف ناپا گیا ہے۔ ڈاکٹر منیل کے نظریئے کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج کا مرکزی حصّہ سپرنووا کے اندرونی حصّے سے بنا ہے جبکہ بیرونی حصّہ بیرونی حصّے سے۔ جہاں تک مجھے خبر ہے کسی اور دوسرے سائنس دان نے اس طرح کی اہمیت اتنی چھوٹی چیز کو اس طرح سے نہیں دی۔ ہم جاؤں کی نسبت معلوم کرنا ایک مشکل کام ہے اور اس سے زیادہ مشکل اس کا مطلب جاننا ہے لہٰذا میں تو نہیں چاہوں گی کہ اس پر اپنے کسی نظریئے کی بنیاد رکھوں۔ میرے خیال میں نظام شمسی کی پیدائش کے معیاری نمونے کے حق میں جتنے بڑے ثبوت مل چکے ہیں ان کے آگے اس چھوٹے سے نکتے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ مشتری اور سورج دونوں بہت ہی پیچیدہ اجسام ہیں ان میں جوہروں کا امتزاج بہت ہی پیچیدہ ہے۔ اس سے آسانی کے ساتھ زینون کے ہم جاؤں کی نسبت میں فرق آ سکتا ہے۔ میں نہیں سمجھتی کہ نسبت میں فرق کی کوئی زیادہ اہمیت ہے۔

کیا میں آپ کو سائنسی طریقے کے لئے اس ویب سائٹ کا پتا بتا سکتی ہوں۔ میں چاہوں گی کہ آپ بطور خاص نکتہ نمبر 1.5 پڑھیں: "غیر معمولی دعووں کے لئے غیر معمولی ثبوتوں کی ضرورت ہوتی ہے" اور 1.7 "گلیلیو کو اس طرح دق کیا گیا تھا جیسے کہ آج محققین کو "ایکس" کے لئے کیا جاتا ہے ( لوہے سے بنے سورج کو "ایکس" سے بدل دیں)۔ میں چاہوں گی کہ آپ سائنسی نظریات کو پڑھنا جاری رکھیں تاہم اس کو تنقیدی نگاہ سے دیکھیں۔

سوال: آپ کے شاندار جواب کا شکریہ۔ آپ کی تیز فہمی نے اس سوال کو آلیور منیل سے جوڑ دیا ؛ آپ بالکل ٹھیک ہیں۔ میں ان کے مقالات کو پڑھ رہا ہوں اور اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ ان کے خیال سے کچھ حد تک متاثر ہوں تاہم اگر میں رومانوی اصطلاح کا استعمال کر سکوں تو میرا ان سے متاثر ہونا سائنسی طریقے کے بجائے رومانوی ہے۔ آپ وہ پہلی فرد ہیں جس نے مجھے یہ بتایا کہ جس مادّے سے ہمارا نظام شمسی بنا ہے وہ ایک نہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ کئی سپرنووا سے آیا ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ اس بات پر یقین نہیں رکھتیں کہ ہمارا سورج ان میں سے کسی کے قلب سے بنا ہو۔ میں طبیعیات میں کمزور ہوں لہٰذا ہو سکتا ہے کہ آپ میری نیوکلیائی تالیف سے متعلق سوال میں مدد کر سکیں۔ وہ کون سا عمل ہے جس نے "عجیب زینون" کے تناسب کو اس تناسب سے الگ بنا دیا جس کو ہم آج شمسی ہواؤں میں دیکھتے ہیں؟ کیا آپ کا یہ مطلب تو نہیں کہ دوسرے زینون کی نسبتیں بھی موجود ہیں جن کو ابھی تک ناپا نہیں گیا؟​

یہ ایک حقیقت ہے کہ گیس جس سے سورج اور نظام شمسی بنے ہیں وہ لازمی طور پر ایک سے زیادہ سپرنووا کی ہے اور جیسا کہ میں اوپر بیان کیا ہے کہ ڈاکٹر منیل کے کچھ کام نے شہابیوں میں موجود کچھ تناسب کی فراوانی کو پہلے منظر نامے کے ثبوت کے طور پر ثابت کیا ہے۔ ہم سپرنووا سے افزود گی کے عمل کو دوسری کہکشاؤں اور اپنی کہکشاں کے دوسرے حصّوں میں بھی دیکھتے ہیں - ایسا لگتا ہے کہ سپرنووا اور ستاروں کی پیدائش میں ایک نہایت مضبوط رشتہ موجود ہے – شاید سپرنووا سے پیدا ہونے والی صدماتی موجوں کی وجہ سے گیس منہدم ہونا شروع ہوتی ہو (یا شاید اس میں مدد کرتی ہو)۔ یہ بہت ہی دلچسپ باز گیری نظام ہے۔ آپ کا یہ خیال درست ہے کہ میں نہیں سمجھتی کہ ڈاکٹر منیل کا نظریہ کوئی وزن رکھتا ہے۔ میں تو پرکھی ہوئی تصویر کے ساتھ اس وقت تک جڑی رہوں گی جب تک کوئی غیر معمولی ثبوت اس کے خلاف نہیں مل جاتے۔

میں نہیں سمجھتی کہ زینون کے ہم جاؤں جن کو ہم نے ناپا ہے اس کی کوئی اہمیت ہے۔ نیوکلیائی تالیف میں نسبتی پیداوار کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ نے شروع کس سے کیا ہے۔ نسبتوں کو ناپنا کافی مشکل ہوتا ہے اور یہ سورج میں ملنے کے عمل میں تبدیل ہو سکتی ہیں ( یعنی کہ بھاری ہم جا سورج کے مرکز میں گرنا پسند کرتے ہیں)۔ میں سمجھتی ہوں کہ ان ہم جاؤں کو غیر معمولی دعووں کو ثابت کرنے کے ثبوت کے طور پر استعمال کرنا سائنسی طور پر درست نہیں ہوگا۔

ڈاکٹر منیل نے اس کے جواب میں مزید ثبوت پیش کئے جو ان کے دعووں کو ثابت کرنے کے لئے تھے اور انہوں نے درخواست کی کہ ان کو یہاں پر شایع کیا جائے۔ تمام نظریات کو صرف ثبوتوں کی بنیاد پر پرکھنے کا حق ہے تاہم ہم نہیں سمجھتے کہ یہ ویب سائٹ کسی بھی طرح سے اس قسم کے دقیق سائنسی مباحثوں کے لئے مناسب ہے اور ہم یہ کام یعنی کہ ڈاکٹر منیل کے نظریئے کی جانچ کو ان سائنس دانوں پر چھوڑ دیتے ہیں جو نظام شمسی کے بننے کے اوپر تحقیق میں مصروف عمل ہیں۔ ایسے دو سائنس دانوں کا موقف آپ سی این این کی ویب سائٹ پر یہاں دیکھ سکتے ہیں۔ آخر میں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ہم تمام لوگوں کو اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ بہت زیادہ دلچسپ نظریات کو پڑھیں تاہم ان کو تنقیدی نگاہ سے بھی دیکھیں اگر آپ ڈاکٹر منیل کے نظریات کو مزید جاننا چاہتے ہیں تو ان کی ویب سائٹ کا ربط یہ ہے۔ ایک آن لائن بحث و مباحثہ فزلنک پر چل رہا ہے (جس کا ربط ہم ڈاکٹر منیل کی فرمائش پر دے رہے ہیں)۔


کیرن ماسٹرز
کیرن کارنیل میں ٢٠٠٠ء سے لے کر ٢٠٠٥ء تک سند حاصل کرنے والی طالبہ رہی ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں ہونے والی کہکشاؤں کی سرخ منتقلی کی تحقیق کے لئے انہوں نے حصّہ لیا اور اب وہ اپنے آبائی وطن یو کےمیں موجود یونیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔ ان کی بعد کی تحقیق نے کہکشاؤں کی شکلیات پر اپنی توجہ مرکوز رکھی جو ان کی بناوٹ اور ارتقا کے بارے میں معلومات فراہم حاصل کرنے کے لئے کی گئی تھی۔ وہ کہکشانی جنگل کے منصوبے کی پروجیکٹ سائنٹسٹ ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
کیا بگلے ڈائنوسارس ہوتے ہیں اور ان کی ٹانگیں اتنی لمبی کیوں ہوتی ہیں ؟



ماہرین رکازیات کے درمیان رائج نظریہ ہے کہ پرندے جراسک دور کے براہ راست گر گٹی ڈائنوسارسوں کی نسل سے ہیں۔ اس کے خلاف کا نظریہ یہ اے کہ پرندے اصل میں قبل از تاریخ کے رینگنے والے جانوروں کی نسل سے ہیں۔ اگر ڈائنوسارس کی نسل کا نظریہ درست ہے، تب سارس - بلکہ اصل میں تو تمام پرندے - ڈائنوسارس کے ذیلی گروہ میں درجہ بند ہو سکتے ہیں۔ تاہم یہ کہنا ایسا ہی ہے جیسے کہ وہیل سم دار (کھر والے خشکی کے جانور) ہیں، کیونکہ وہ سم داروں کی نسل سے ہیں۔ سارس کی لمبی ٹانگوں کا ارتقاء لمبی گھاس اور اتھلے پانی میں، مچھلیوں، مینڈکوں اور دوسرے شکار کی تلاش کے لئے چلنے کے لئے ہوا ہے۔ ماہرین رکازیات کو یقین ہے کہ اڑنے والے ڈائنوسارس کے اجداد - زرافے جتنے پر دار سوسمار - بھی شاید اسی طرح سے شکار کرتے تھے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
کیا اگر آلات اسٹینڈ بائی بھی ہوں تو زیادہ بجلی استعمال کرتے ہیں ؟




کے الیکٹرک کا ایک اشتہار اکثر آتا تھا جس میں بجلی کا بل کم کرنے کے لئے یہ مشورہ دیا جاتا تھا کہ استعمال نہ ہونے والے تمام آلات کے سوئچ نکال دیں۔ مائی کلاچی بائی پاس سے اب بھی اکثر آفس آتے جاتے کے الیکٹرک کے بلنگ دفتر کے باہر یہ اشتہار لگ بھگ روزانہ ہی دیکھتا تھا اور سوچتا تھا کہ کیا واقعی سوئچ لگے رہنے سے بجلی ضائع ہوتی ہے اگرچہ آپ آلات کو استعمال نہ بھی کررہے ہوں۔

اس بات کا جواب تو ابھی تک نہیں مل سکا۔ تاہم اگر آپ اپنے آلات کو ریموٹ سے بند کرکے اسٹینڈ بائی پر رکھنے کے عادی ہیں تو ایک بار اس پوسٹ کو ضرور پڑھ لیجئے گا :)


81 سینٹی میٹر (32 انچ) کا اوسط ٹی وی 123 واٹ کھلتے وقت استعمال کرتا ہے - 107 سینٹی میٹر (42 انچ) اسکرین کے لئے اس کا استعمال بڑھ کر 235 واٹ تک ہو جاتا ہے - تاہم جب اسے ریموٹ سے 'بند' بھی کر دیا جائے تب بھی وہ پانچ واٹ استعمال کرتا رہتا ہے۔ ایک ایکس بکس 360 کھلتے وقت لگ بھگ 170 واٹ استعمال کرتا ہے جبکہ اسٹینڈ بائی رہنے پر صرف 2.2 واٹ (1.2 فیصد)۔ بہرحال کچھ سیٹ-ٹاپ باکسز لگ بھگ اتنی ہی طاقت اسٹینڈ بائی پر استعمال کرتے ہیں جتنی کہ وہ چلنے پر کرتے ہیں۔ لارنس برکلے لیبارٹری، سی اے میں ہونے والی ایک 2013ء کی تحقیق سے پتا لگا کہ سیٹلائٹ ڈیکوڈر اوسطاًً 16.15 واٹ چلنے کے وقت اور ریموٹ سے بند ہونے کے بعد 15.66 واٹ - یعنی کہ پوری بجلی کا 97 فیصد - استعمال کرتے ہیں۔ بے شک صرف پانچ واٹ فی آلہ بھی تیزی سے بجلی کے استعمال کو بڑھا سکتا ہے۔ یو کے کا اوسط گھرانہ £50-90 سالانہ کی بجلی ان آلات کو توانائی پہنچانے میں استعمال کرتا ہے جو بند سمجھے جاتے ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
کس ثقافت میں چائے پینے کا رواج شروع ہوا؟




کہانی کے مطابق، چینی شہنشاہ شینونگ نے 2737 قبل مسیح میں پہلا چائے کا مگ پیا۔ مبینہ طور پر جب شہنشاہ اپنے باغ میں بیٹھا ہوا تھا، تو اس پانی میں جو وہ پینے کے لئے ابال رہا تھا سدا بہار جھاڑی کی کچھ پتیاں گر گئیں۔ شینونگ کو پانی پینے سے مزہ آ گیا، اور یوں چائے کی پیدائش ہوئی۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ درج بالا منظرنامہ حقیقت میں واقعہ ہوا تھا، تاہم ثبوت عندیہ دیتے ہیں کہ چائے کی ابتداء چین کے یوننان صوبے میں 1,000 قبل مسیح سے پہلے ہوئی۔ تاریخی حوالہ جات اشارہ دیتے ہیں کہ یہ اصل میں طبی مشروب سمجھی جاتی تھی۔ صرف تانگ سلطنت کے آغاز کے دوران (جس کی ابتداء 618 قبل مسیح میں ہوئی)، یہ ایک مزیدار ضیافت کے طور پر سمجھی جانے لگی۔ ولندیزی تاجروں نے چائے کو یورپ میں 1606ء میں متعارف کروایا اور اس نے تیزی سے مقبولیت حاصل کی۔ برطانیہ میں یہ 1662ء کے بعد اس وقت مشہور ہوئی، جب بادشاہ چارلس دوم نے پرتگال کی شہزادی برانگنزا کی کیتھرین سے شادی کی اور چائے کا پرجوش پرستار بنا۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
کیا دور حاضر کے برقی آلات کے لئے شمسی شعلہ تباہی پیدا کر سکتا ہے ؟


بالکل۔ جب شمسی شعلے سے کورونل ماس ایجیکشن (سی ایم ای) زمین پر پہنچتا ہے، تو بے ترتیب مقناطیسی میدان برقی رو کو کسی بھی طویل موصل میں مائل کرتے ہیں۔ تیل و گیس کی پائپ لائنوں میں یہ چنگاری بننے کا سبب بن سکتا ہے جو ٹرمنل پر آگ اور دھماکے کا موجب بن سکتی ہیں اور بجلی کی تاروں میں اضافہ ٹرانسفارمرز کو اوورلوڈ کر سکتا ہے۔ 1989ء ایک طاقت ور شعلے نے کیوبک، کینیڈا میں 60 لاکھ لوگوں کو بجلی سے محروم کر دیا تھا۔ اب تک کا سب سے زیادہ بڑے مندرج شعلے نے 1859ء میں ٹیلی گراف آپریٹر کو ٹیلی گراف کی تاروں سے برقی جھٹکا مارا تھا۔ اگر ویسا ہی شعلہ آج بھڑکتا ہے - تو ہمارے کہیں زیادہ حساس آلات کے ساتھ - نقصان کئی ارب ہا تک جا پہنچ سکتا ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
کیا گاڑی کے ایندھن کی ٹنکی پر گولی مارنے سے وہ دھماکے سے پھٹ جاتی ہے ؟



آپ میں سے اکثر نے فلموں میں دیکھا ہوگا کہ ہیرو ولن کا پیچھا کررہا ہے ولن گاڑی میں فرار ہورہا ہے ہیرو بے بسی سے اس کو جاتا دیکھ رہا ہوتا ہے یکایک ہیرو کو خیال آتا ہے اور وہ پستول سے گاڑی کی ٹنکی کا نشانہ لیتا ہے اور فائر کردیتا ہے۔ اس کے بعد گاڑی ایک دھماکے سے پھٹتی ہے اور اکثر ولن کا قصہ تمام ہوجاتا ہے۔

کیا واقعی سائنسی طور پر ایسا دکھانا ٹھیک ہے؟

بنیادی طور پر یہ ایک فلمی داستان سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ دھماکے کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے : موزوں تناسب سے ایندھن میں ملی ہوئی آکسیجن، اور ایک حرارتی ذریعہ۔ ایک پٹرول کی ٹنکی میں، تاوقتیکہ کہ بالکل خالی نہ ہو، دھماکہ خیز آمیزے کے لئے اتنی ہوا نہیں ہوتی اور گولی دھات سے ٹکرانے سے ہمیشہ چنگاری پیدا نہیں کرتی۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
اگر مقناطیس ایک دوسرے کو دھکا دیتے ہیں، تو ہم معلق گاڑیاں کیوں نہیں بنا سکتے ؟



کیا یہ ایک حیرت انگیز منظر نہیں ہو گا - ہزاروں مقناطیسی معلق گاڑیاں بغیر شور کے مستقبل کی سڑکوں پر چل رہی ہوں؟ سچ تو یہ ہے، بالکل اس جیسی ٹیکنالوجی کی قسم پہلے ہی سے موجود ہے۔ یہ مقناطیسی ارتفاع (مختصراً میگلو) کہلاتی ہے، اور یہ ستر کی دہائی سے یورپ اور ایشیاء میں تیز رفتار ٹرینوں کو چلانے کے لئے بنائی جا رہی ہے۔ میگلو ٹرینوں کے ساتھ دونوں ریل گاڑی اور پٹریاں مقناطیسی میدان کی قوت لگاتی ہیں جو ایک دوسرے کو پرے کرتا ہے۔ برقی مقناطیس معلق اور دھکیلو نظام کے بغیر رگڑ کی ریلوں کو 580 کلومیٹر (360 میل) فی گھنٹہ کی رفتار سے اوپر کی طرف دھکیلتی ہیں۔ میگلو گاڑیاں اگرچہ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ممکن ہیں، تاہم اس کے لئے سڑک کی ایسی سطح درکار ہو گی جس پر انتہائی مہنگی برقی مقناطیسی پٹریاں لگی ہوں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
شمسی ہواؤں میں، الفوین امواج کیا ہوتی ہیں؟




الفوین امواج خاص قسم کی امواج ہوتی ہیں جو سورج کی اوپری کرۂ فضائی میں پائی جاتی ہیں اور یہ شمسی ہوا میں بھی موجود ہوتی ہیں جو ستارے سے پورے شمسی نظام میں نکلتی ہیں۔ یہ آئنز کہلانے والی برقی بار دار ذرّات کی 'لہروں ' سے مقناطیسی میدان کے ٹھیک زاویہ پر آ کر بنتی ہیں، اور ان کی موجودگی کے بارے میں سب سے پہلے سویڈش طبیعیات دان ہینز الفوین نے 1942ء میں پیش گوئی کی تھی۔ سیارچوں نے قدرتی الفوین امواج کو بین السیاروی خلاء میں خلائی دور کے آغاز (ساٹھ کی دہائی) میں ہی دریافت کر لیا تھا، تاہم ان کی موجودگی کی تصدیق سورج کے باہری کرہ (کرونا) میں صرف 2011ء میں ہوئی ہے۔ کئی فلکیات دان سمجھتے ہیں کہ یہ توانائی کی منتقلی اور کرونا کو گرم کرنے کے ذمہ دار ہیں، اور وضاحت کرتے ہیں کہ آیا یہ کیوں جھلسا دینے والے 20 لاکھ ڈگری سیلسیس (36 لاکھ ڈگری فارن ہائیٹ) کے درجہ حرارت تک پہنچ جاتا ہے - سورج کی ظاہری سطح سے کہیں زیادہ گرم۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
جب مطلق صفر ہوتا ہے تو کیا مطلق گرم بھی ہوتا ہے ؟



مطلق صفر کا تصور اچھی طرح سے سمجھا جا چکا ہے، تاہم 'مطلق گرم' زیادہ پراسرار ہے۔ حرارت توانائی کی قسم ہے جس کا تعلق مادّے کو بنانے والے جوہروں کی حرکت سے ہوتا ہے۔ جتنا سرد یہ ہوں گے، اتنا ہی کم ذرّات حرکت اور مرتعش ہوں گے، اور بالآخر مطلق صفر (0 کیلون / -460 ڈگری فارن ہائیٹ) پر وہ عملی طور پر رک جائیں گے۔ پیمانے کے دوسری طرف، روایتی طبیعیات نظریاتی طور پر زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت کی حد کو x 10^32 1.4 کیلون بتاتی ہے : پلانک درجہ حرارت، جس کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ آخری مرتبہ بگ بینگ کے بعد پہلے سیکنڈ کے کچھ ہی حصّے میں واقع ہوا تھا۔ اس سے اوپر، ذرّات کی اتنی توانائی ہو گی کہ ہمارے موجودہ نظریات اس کے برتاؤ کو مزید بیان نہیں کر سکتے، یعنی کہ اس وقت کوئی مزید اضافی درجہ حرارت کا نہیں سوچا جا سکتا۔ تاہم ایک دن کوانٹم ثقل کا نظریہ اس سے بھی زیادہ گرم درجہ حرارت کی اجازت دے گا۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
کیا ایک کمپاس زیر زمین کام کرتا ہے ؟




وہ کمپیوٹرائزڈ کمپاس جو آپ کے فون میں ہوتا ہے شاید وہ کام نہ کرے کیونکہ اس کا انحصار ریڈیائی اشاروں پر ہوتا ہے جو آسانی سے چٹان یا پانی سے رک سکتے ہیں، تاہم ایک روایتی کمپاس ڈگمگاتی سوئی کے ساتھ زمین کی گہرائی پر انحصار کرتا ہے۔ اس قسم کا کمپاس اس لئے کام کرتا ہے کیونکہ اس کی مقناطیسی سوئی مقناطیسی میدان کے ساتھ قطار بند ہو جاتی ہے جو زمین کے شمالی اور جنوبی قطب سے نکلتی ہے، اور چاہئے آپ کان میں جائیں یا سمندر کی گہرائی میں یہ میدان اتنے ہی طاقتور ہوتے ہیں۔ تاہم میدان زمین کے قلب میں گھومتے ہوئے پگھلے ہوئے لوہے سے پیدا ہوتے ہیں، اور اگر آپ اتنی گہرائی تک کھودیں گے، تو آپ کی مقناطیسی سوئی پاگل ہو جائی گی۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
کون سا سیارہ سب سے تیز رفتار حرکت کرتا ہے ؟




ہمارے نظام شمسی میں، سب سے تیز رفتار عطارد ہے۔ یہ اپنے مدار میں لگ بھگ 50 کلو میٹر (31 میل) فی سیکنڈ کی رفتار سے چکر لگاتا ہے، اور سورج کا اپنے مدار کا ایک چکر 88 دنوں میں لگا لیتا ہے - یہی وجہ ہے کہ ابتدائی ستارہ شناسوں نے اس کا نام تیز چلنے والے خدا کے قاصد کے نام پر رکھا تھا۔ نظام شمسی سے باہر، بہرحال ایسے سیارے بھی ہیں جو عطارد کو دھول چٹاتے - ہر وقت نئے سے نئے دریافت ہو رہے ہیں، تاہم سب سے متاثر کن مثال غالباً واسپ- 12 b کی ہے جو 2008ء میں دریافت ہوا تھا۔ یہ دنیا جو زمین سے لگ بھگ 871 نوری برس دور رتھ بان مجمع النجوم میں واقع ہے، صرف 26 گھنٹے اور 12 منت میں اپنے ستارے کا چکر پورا کرتا ہے۔ یہ 'تپتے ہوئے مشتری' کی بہترین مثال ہے - ہمارے اپنی مشتری جیسا گیسی دیو تاہم ایک ایسے درجہ حرارت کے ساتھ جو جلا دینے والی 2,200 ڈگری سیلسیس (4,000 ڈگری فارن ہائیٹ) کے ساتھ ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
سیل کس نوع سے ارتقاء پذیر ہوئی ہیں؟




دریائی شیر اور دریائی گھوڑے کے ساتھ، سیل اس گروہ سے تعلق رکھتی ہیں جو پنکھ پایاں کہلاتی ہیں، یہ خشکی کے جانوروں سے ارتقاء پذیر ہوئے ہیں۔ محققین کو اس بات کے ٹھوس ثبوت 2007ء میں پوجیلا ڈارونی کی دریافت سے مل گئے ہیں۔ 2 کروڑ سے 2 کروڑ 40 لاکھ برس پہلے، ان میٹھے پانی کے گوشت خور جل تھیلیوں کی ٹانگوں کی خاصیت زمینی مخلوق جیسی جھلی دار پیروں ، رو دار جسم اور آبی جانور جیسی دم تھی۔ نظریہ یہ کہتا ہے کہ جب جھیلوں نے جمنا شروع کیا تو آہستہ آہستہ سمندری طرز زندگی اختیار کرنے سے پہلے پی ڈارونی کبھی آرکٹک کی معتدل جھیلوں اور دریاؤں میں رہتے تھے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
کیا ایک نشانچی کسی ہدف کو ایک میل کے فاصلے سے مار سکتا ہے ؟



بالکل۔ اصل میں موجودہ لڑائی کا ریکارڈ 2.8 کلومیٹر (1.7 میل) کا ہے۔ اصل میں ریکارڈ رکھنے والا کون ہے یہ تو راز ہے، تاہم ہم جانتے ہیں کہ یہ ان دو آسٹریلیائی نشانچیوں میں سے ایک ہے جنہوں نے ایک ساتھ فائر کیا تھا۔ ان میں سے ایک نے اپنے انسانی ہدف کو نشانہ بنایا تھا۔ اس فاصلے سے نشانچی ننگی آنکھ کی پہنچ سے دور ہوتے ہیں اور اتنی دور ہوتے ہیں کہ ہدف گولی کی آواز بھی نہیں سن سکتا۔ گولی ہوا میں چھ سیکنڈ تک رہی۔ آسٹریلیائی نشانچیوں نے بیرٹ ماڈل 82A1 رائفل استعمال کی تھی جس کی درج موثر حد 1.8 کلومیٹر (1.1 میل) کی ہے۔ اس حد تک ہدف کو نشانہ بنانے کے لئے بہرحال، نشانچیوں کو قوت ثقل، ہوا، درجہ حرارت یہاں تک کہ نمی سے نمٹنے کے لئے کافی بہتری کے سلسلوں کوٹھیک کرنا پڑا۔ پچھلے ریکارڈ ہولڈر برطانوی کارپورل کریگ ہیریسن ہیں، جنہوں نے یکے بعد دیگرے تیزی سے 2.4 کلومیٹر (1.5 میل) دور سے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا تھا۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
کیا جانور بھی شمار کر سکتے ہیں ؟



جب ہم سیب ٹوکری میں ڈالتے ہیں تو ہم لاشعوری طور پر اعداد و شمار سے اس وقت تک نمٹتے ہیں جب تک سیب ختم نہیں ہو جاتے۔ گنتی کرنے کے لئے لسانی قابلیت ہر عدد کے لئے درکار ہوتی ہے۔ جس میں الفاظ کو یاد رکھنے اور اس کی ترتیب کے لئے مخصوص اشارے استعمال کئے جاتے ہیں۔ شاید جانور ایسا نہیں کر سکتے۔ تاہم اس کے علاوہ بھی گنتی کی ایک قسم ہے جس کا اندازہ آپ بغیر گنے بھی لگا سکتے ہیں۔ اس کو سباٹیزنگ کہتے ہیں اور زیادہ تر انسان یہ چار یا پانچ اجسام کے لئے کر سکتے ہیں اور کبھی اس سے بھی زیادہ۔ کئی جانوروں میں اس طرح کی مہارت بھی ہوتی ہے بلکہ کچھ بندروں میں بھی۔ سرخ پشت والی سمندری چھپکلی ایک دو اور تین کے درمیان فرق بتا سکتی ہے۔ مچھر مچھلی ایسا چار تک کر سکتی ہے۔

چھلے والی دم والا لیمور مختلف اجسام کے اعداد کو حجم کے اعتبار سے مختلف گروہوں میں رکھ سکتا ہے۔ وہ بتا سکتا ہے کہ کون سا گروہ بڑا ہے تاہم صرف اس وقت جب ایک گروہ دوسرے سے کم از کم دوگنا بڑا ہو۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
کیا کسی ستارے کی زندگی انسانی مداخلت سے بڑھ سکتی ہے ؟



سورج کی طرح کے ستارے بوڑھے ہوتے ہیں اور بالآخر مر جاتے ہیں کیونکہ ان کے مرکزی قلب میں ایندھن کی دستیابی محدود ہوتی ہے۔ قلب ہی وہ علاقہ ہوتا ہے جہاں کا ماحول اتنا گرم اور کثیف ہوتا ہے کہ نیوکلیائی گداخت شروع ہو جاتا ہے اور ہائیڈروجن ہیلیئم میں بدلنی شروع ہو جاتی ہے - زیادہ تر ستاروں کی توانائی کا اہم ذریعہ۔ تاہم جب ستارے کے قلب میں ہائیڈروجن ہیلیئم سے بدلی جاتی ہے (اگلے 5 ارب برسوں میں ہمارا سورج بھی یہی کرے گا)، اور پھولنا شروع ہو جاتا ہے اور وہ سرخ دیو بن جاتا ہے، تو کافی بڑی تعداد میں قلب کے گرد بیرونی حصّے میں ہائیڈروجن بغیر چھوئی باقی رہ جاتی ہے۔ کافی جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ مستقبل کے انسان ہو سکتا ہے کہ سورج کی حیات کو اس کے اندرونی قلب کو گھما کر قلب میں مزید ہائیڈروجن کو ڈال کر بڑھا سکیں تاکہ اس کے ایندھن کی فراہمی کو تازہ ہو جائے۔ اس قسم کے واقعات قدرتی طور پر اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ستارے ٹکرا کر ضم ہوتے ہیں، تاہم شاید ہم اس سے کوئی کم خطرناک طریقہ کام کرنے کا نکال سکیں گے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
کیا جسم میں دوسری 'جھنجھنانے والی ہڈیاں ' (funny bones)بھی ہیں ؟


'جھنجھناہٹ والی ہڈی' کی اصطلاح کچھ درست نہیں ہے کیونکہ یہ وہ تکلیف دہ درد کے احساس کی طرف اشارہ ہوتا ہے جب آپ کے بازو کی ہڈیوں کے اعصاب جلد اور کہنی کی ہڈی کے جوڑ کے درمیان پھنس جاتے ہیں۔ ایسا نام نہاد کہنی کے اندرونی حصّے والی نالی میں ہوتا ہے جو اعصاب کو کہنی کی طرف بھیجتی ہے جس کے پاس بیرونی ضربوں سے بچنے کے لئے تھوڑی سی ہی جگہ ہوتی ہے۔ کہنی کی ہڈی کے اعصاب کا نام ہاتھ کی بڑی ہڈی سے آیا ہے، جو ان دو ہڈیوں میں سے ایک ہے جو کلائی سے کہنی تک جاتی ہے، دوسری ساعدی ہڈی یا رگ بازو کہنی سے نیچے ہاتھ کی ہڈی کہتے ہیں۔ انسانی ڈھانچے میں کسی دوسرے جوڑ کا اس طرح کی صورتحال سے واسطہ نہیں پڑتا جس سے وہ ایسی صورتحال کو پیدا کرے لہٰذا ہمارے پاس صرف ایسی ایک ہی 'جھنجھنانے والی ہڈی' ہوتی ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ثنائی ستارے کیا ہوتے ہیں؟




ایک ثنائی ستارے کا نظام ستاروں کا جوڑا ہوتا ہے جو ایک دوسرے کے گرد چکر لگا رہے ہوتے ہیں۔ یہ کافی زیادہ ہیں، اور حقیقت تو یہ ہے کہ ملکی وے کہکشاں کے زیادہ تر ستارے ثنائی یا کثیر (تین یا اس سے زیادہ ستاروں کے ) نظام کا حصّہ ہیں : ہمارے سورج جیسے اکلوتے اقلیت میں ہیں۔ ثنائی نظام میں ستاروں کے درمیان فاصلہ بہت زیادہ مختلف ہو سکتا ہے - کچھ ایک دوسرے کا چکر پورا کرنے میں دسیوں لاکھ برس لے لیتے ہیں، جبکہ دوسرے ایسا صرف چند دنوں میں کر لیتے ہیں۔ فلکیات دان ثنائیوں کو بہت مفید پاتے ہیں - اس طرح کے نظاموں میں ستارے اپنی تمام عمر ایک ساتھ گزارتے ہیں، اور مشترک گیس/ دھول کے بادل سے ایک ہی وقت میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ جس طرح سے ہر ستارے کا چکر اپنی اضافی کمیت دوسرے کو دیتا ہے۔ لہٰذا ان عوامل کا تقابل کرنا آسان ہے جیسا کہ ہر ستارے کی کمیت اس کے ارتقاء اور آج ہمیں نظر آنے والی ظاہری صورت پر اثر انداز ہوتی ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
کسی بھی جسم میں کتنے جوہر ہونے چاہئیں تاکہ انسانی آنکھ اس کو دیکھ سکے ؟



واہ، یہ ایک مشکل سوال ہے ! اس کا جواب دینے کے لئے سب سے بہتر کام ہم یہ کر سکتے ہیں کہ ایک کچا سا حساب لگائیں۔ انسان 100 مائیکرومیٹر (0.01 ملی میٹر/0.0004 انچ) کے اجسام خالی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک انسانی انڈے کا خلیہ 130 مائیکرو میٹر قطر کا ہوتا ہے، اور اس کی مقدار (فرض کر لیں کہ یہ مکمل طور پر کروی ہے ) 11 لاکھ 50 ہزار مکعب مائیکرو میٹر ہوتی ہے۔ انسانی جسم میں ایک سب سے زیادہ عام پایا جانے والا سالمہ شکر (C6H12O6) ہے، جس میں 24 جوہر ہوتے ہیں۔ چلیں اس مثال کے لئے فرض کرتے ہیں کہ انسانی انڈے مکمل طور پر شکر کے سالمے سے بنا ہے۔ شکر کے سالمے کا قطر لگ بھگ ایک نینو میٹر ہے، اور ایک مائیکرو میٹر میں 1,000 نینو میٹر ہوتے ہیں۔ لہٰذا، مثال کے طور پر اگر آپ جانتے ہیں کہ 1 ارب 15 کروڑ شکر کے سالمات ایک انسانی انڈے (11 لاکھ 50 ہزار مکعب مائیکرو میٹر ضرب 1,000 نینو میٹر) میں ہیں، اور ہر سالمے میں 24 جوہر ہیں، تو اس سے ہمیں 27 ارب 60 کروڑ جوہر ایک واحد انسانی انڈے کے خلیہ میں ملتے ہیں، جو اس چھوٹے سے چھوٹے اجسام میں سے ایک ہے جس کو خالی آنکھ سے کم از کم نظریاتی طور پر دیکھا جا سکتا ہے !​
 
Top