گوہر
محفلین
تحریر: محمد الطاف گوہر
(ای میل، حذف کردہ)
پرانے وقتوں میں سیدھے سادھے لوگوں کو کامیابی کے ساتھ لوٹنے والے افراد کو ٹھگ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ان میں کمال بات یہ ہوتی تھی کہ لوٹے جانے کے عمل میں موصوف سیدھے سادے لوگوں، یعنی شکار کی رضا مندی بھی شامل ہوتی تھی، کیونکہ ٹھگ کسی دوسری دنیا کی مخلوق نہیں ہوتے بلکہ اسی دنیا کے باسی ،انتہائی چاپلوس اور گفتگو کے ماہر ہوتے ہیں جبکہ انکو چور ، ڈاکو اور رہزن کبھی بھی نہیں کہا جا سکتا ا لبتہ کسی نہ کسی طرح سے آپ انکو نوسرباز کہہ سکتے ہیں ۔ حضرت ٹھگ ایک معتدل قسم کی قوم ہے ، نہ تو یہ چوروں کی طرح بزدل اور ڈرپوک ہوتے ہیں کہ راتوں کو گھروں میں نقب لگاتے پھریں اور نہ ہی نڈر ڈاکوؤں کیطرح سر عام دندناتے ہوئے لوگوں کو لوٹتے پھرتے ہیں بلکہ یہ دیدہ دلیری کے ساتھ اپنے شکار کے ساتھ ہنسی خوشی کھاتے پیتے اور اسے لوٹ کر چلے جاتے ہیں کہ لٹنے والے کو پتہ بھی نہیں چلتا ۔ انکے اس کمال کے باعث میں انہیں اس نوع کی اعلیٰ قوم کہو نگا جو نہ تین میں ہیں اور نہ تیرہ میں مگر اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتے ہیں اور کامیابی کا گراف دوسروں کی نسبت سے کئی گنا زیادہ ہے۔
آج اکیسویں صدی میں ٹھگوں کی قوم میں اگر ایک طرف جدت آئی ہے تو دوسری طرف انہوں نے اپنے اندر کلاسیفکیشن بھی کر رکھی ہے۔ جبکہ ان کی یہ تقسیم نہ تو طبقاتی نوعیت کی ہے اور نہ ہی نظریاتی بلکہ زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق افراد تک رسائی اور ان کو اپنی قربت سے فیضیاب کرنا ایسا امر ہے جو ترجیحی بنیادوں پر اس قوم کو متقسم کرتا ہے۔ انکی تمام اقسام کی معلومات تو کوزے میں بند نہیں ہو سکتی البتہ چیدہ چیدہ اقسام مندرجہ ذیل ہیں؛
سائبر ٹھگ
لینڈ لارڈ ٹھگ
موبائل ٹھگ
فقیر نما ٹھگ
ہینڈ فری ٹھگ
کارپوریٹڈ ٹھگ
وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
پرانے وقتوں کے ٹھگوں کا طریقہ کار کچھ دقیانوسی سا ہوتا تھا ، صرف نفسیاتی حربے استعمال کرکے اپنا ہدف حاصل کرتے تھے ، بچارہ لٹنے والا دیکھتا ہی رہ جاتا تھا اور وہ چلتے بنتے تھے ، مگر جیسے جیسے زمانے نے ترقی کی ٹھگوں نے بھی ٹیکنالوجی کی مہارت حاصل کر کے وقت کے ساتھ کندھے سے کندہ ملانا شروع کر دیا۔ آج کل۔۔۔ مزید پڑھیے
(ای میل، حذف کردہ)
پرانے وقتوں میں سیدھے سادھے لوگوں کو کامیابی کے ساتھ لوٹنے والے افراد کو ٹھگ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ان میں کمال بات یہ ہوتی تھی کہ لوٹے جانے کے عمل میں موصوف سیدھے سادے لوگوں، یعنی شکار کی رضا مندی بھی شامل ہوتی تھی، کیونکہ ٹھگ کسی دوسری دنیا کی مخلوق نہیں ہوتے بلکہ اسی دنیا کے باسی ،انتہائی چاپلوس اور گفتگو کے ماہر ہوتے ہیں جبکہ انکو چور ، ڈاکو اور رہزن کبھی بھی نہیں کہا جا سکتا ا لبتہ کسی نہ کسی طرح سے آپ انکو نوسرباز کہہ سکتے ہیں ۔ حضرت ٹھگ ایک معتدل قسم کی قوم ہے ، نہ تو یہ چوروں کی طرح بزدل اور ڈرپوک ہوتے ہیں کہ راتوں کو گھروں میں نقب لگاتے پھریں اور نہ ہی نڈر ڈاکوؤں کیطرح سر عام دندناتے ہوئے لوگوں کو لوٹتے پھرتے ہیں بلکہ یہ دیدہ دلیری کے ساتھ اپنے شکار کے ساتھ ہنسی خوشی کھاتے پیتے اور اسے لوٹ کر چلے جاتے ہیں کہ لٹنے والے کو پتہ بھی نہیں چلتا ۔ انکے اس کمال کے باعث میں انہیں اس نوع کی اعلیٰ قوم کہو نگا جو نہ تین میں ہیں اور نہ تیرہ میں مگر اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتے ہیں اور کامیابی کا گراف دوسروں کی نسبت سے کئی گنا زیادہ ہے۔
آج اکیسویں صدی میں ٹھگوں کی قوم میں اگر ایک طرف جدت آئی ہے تو دوسری طرف انہوں نے اپنے اندر کلاسیفکیشن بھی کر رکھی ہے۔ جبکہ ان کی یہ تقسیم نہ تو طبقاتی نوعیت کی ہے اور نہ ہی نظریاتی بلکہ زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق افراد تک رسائی اور ان کو اپنی قربت سے فیضیاب کرنا ایسا امر ہے جو ترجیحی بنیادوں پر اس قوم کو متقسم کرتا ہے۔ انکی تمام اقسام کی معلومات تو کوزے میں بند نہیں ہو سکتی البتہ چیدہ چیدہ اقسام مندرجہ ذیل ہیں؛
سائبر ٹھگ
لینڈ لارڈ ٹھگ
موبائل ٹھگ
فقیر نما ٹھگ
ہینڈ فری ٹھگ
کارپوریٹڈ ٹھگ
وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
پرانے وقتوں کے ٹھگوں کا طریقہ کار کچھ دقیانوسی سا ہوتا تھا ، صرف نفسیاتی حربے استعمال کرکے اپنا ہدف حاصل کرتے تھے ، بچارہ لٹنے والا دیکھتا ہی رہ جاتا تھا اور وہ چلتے بنتے تھے ، مگر جیسے جیسے زمانے نے ترقی کی ٹھگوں نے بھی ٹیکنالوجی کی مہارت حاصل کر کے وقت کے ساتھ کندھے سے کندہ ملانا شروع کر دیا۔ آج کل۔۔۔ مزید پڑھیے