اکیلے مجاہد یا مختصر جماعت کا دشمن کے بڑے لشکر پر حملہ

اکیلے مجاہد یا مختصر جماعت کا دشمن کے بڑے
لشکر پر حملہ، اس کی فضلیت اور احکام
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
( ۱) کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ واللہ مع الصابرین ( سورہ بقر ہ آیات ۲۴۹)
بار بار بہت سی چھوٹی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آگئی ہیں اور اللہ تعالی استقلال والوں کے ساتھ ہیں۔
اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے :
( ۲ ) و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ واللہ رء وف بالعباد ۔ ( سورہ بقرہ آیات ۲۰۷ )
اور کوئی شخص ایسا ہے کہ اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی چان بیچ ڈالتا ہے اور اللہ تعالی بندوں پر بہت مہربان ہے۔
اس آیات کے شان نزول میں حضرات مفسرین کے مختلف اقوال ہیں : ۔
( ۱ ) ایک قول یہ ہے کہ یہ آیات حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ان کا تعلق قبیلہ بنو نمر بن قاسط سے تھابچپن میں وہ قیدی بنا کر روم لے جائے گئے جہاں ان کی زبان بدل گئی پھر وہ عبداللہ بن جدعان کے غلام رہے اس نے انہیں آزاد کردیا ان کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ وہ روم سے بھاگ کر مکہ مکرمہ پہنچے اور ابن جدعان کے حلیف بنے ۔ مکہ مکرمہ میں ہی آپ نے اسلام قبول کیا اور پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کرکے مدینہ جانے لگے تو قریش کے ایک گروہ نے ان کا تعاقب کیا وہ اپنی سواری سے اتر گئے اور انہوں نے تمام تیر ترکش سے نکال لئے اور کمان ہاتھ میں لیکر فرمایا تم لوگ جانتے ہو کہ میں تم میں بہترین تیر انداز ہوں اللہ کی قسم جب تک میرے پاس ایک تیر بھی موجود ہے تم مجھ تک نہیں پہنچ سکتے میں یہ سارے تیر تم پر چلاؤں گا اور پھر جب تک میری تلوار میری ہاتھ میں رہے گی تم سے لڑتا رہوں گا اس کے بعد تمھیں جو کرنا ہو کرلینا مشرکین نے کہا کہ ہم تمھیں نہیں جانے دیں گے تم جب مکہ میں آئے تھ تو فقیر تھے اور اب یہاں سے مالدار ہوکر جارہے ہو۔ ہاں اگر تم اپنا سارا مال ہمیں دے دو تو ہم تمھیں جانے دیں گے چنانچہ اسی بات پر معاہدہ ہو گیا اور حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے سارے مال کے بارے میں بتا دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہ آیات نازل ہوئی :
و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ واللہ رء وف بالعباد ۔ ( سورہ بقرہ آیات ۲۰۷ )
اور کوئی شخص ایسا ہے کہ اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی چان بیچ ڈالتا ہے اور اللہ تعالی بندوں پر بہت مہربان ہے۔
اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابو یحی تم نے بڑی نفع والی تجارت کی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ بالا آیت مبارکہ پڑھ کر سنائی ۔ ( تفسیر ابن ابی حاتم )
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ کئی بڑے مفسرین حضرات نے اپنی تفاسیر میں نقل فرمایا ہے ۔
( ۲ ) دوسرا قول ! علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے ہر شخص کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ جیسا کہ ایک اور جگہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
ان اللہ اشتری من المؤمنین انفسھم و اموالھم بان لھم الجنۃ ( سورہ توبہ آیات ۱ ۱ ۱ )
بے شک اللہ تعالی نے مسلمانوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو اس کی قیمت پر کہ ان کے لئے ہے خرید لیا ہے ۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ نے جب اکیلے دشمنوں پر حملہ کر دیا تو بعض لوگوں نے ان پر تنقید کی ااس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے تنقید کرنے والوں پر رد فرمایا اور یہ آیت پڑھی :
و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ واللہ رء وف بالعباد ۔ ( سورہ بقرہ آیات ۲۰۷ ) (تفسیر ابن کثیر)
( ۳ ) تیسرا قول ! ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں حضرت عکرمہ رحمہ اللہ یا حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ کے واسطے سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا آیت کا مطلب یہ ہے کہ ان [مجاہدین نے] جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے سے اپنی جانیں اللہ کو بیچ دیں اور انہوں نے اس کا حق اداء کرنے کے لیے اپنی جانیں قربان کردیں۔ (تفسیر ابن ابی حاتم)
( ۴ ) چوتھاقول ! مدرک بن عوف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضرتھا کہ ان کی خدمت میں نہاوند میں اسلامی لشکر کے امیر حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کا قاصد آیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سےمجاہدین کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے فرمایا فلاں فلاں تو شہید ہوگئے اور کچھ لوگ اور بھی شہید ہوئے ہیں جنہیں میں نہیں جانتا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا لیکن اللہ تعالی انہیں جانتا ہے قاصد نے فرمایا اے امیر المؤمنین ایک مرد مجاہد نے اپنی جان [اللہ تعالی کو] بیچ دی ۔ مدرک بن عوف رحمہ اللہ نے کہا ۔ اللہ کی قسم اے امیر المؤمنین وہ میرے ماموں تھے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انہوں نے [ اکیلے دشمنوں میں گھس کر ] اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاکت میں ڈال دیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ لوگ جھوٹے ہیں ۔ تمھارے ماموں نے تو دنیا کے بدلے آخرت خرید لی ہے ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ بسند صحیح )
( ۵ ) پانچواں قول ! محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مشرق کی جانب سے ایک بار کافروں کا ایک فوجی دستہ آگیا ۔ انصار میں ایک شخص انے [اکیلے ] ان پر حملہ کرکے ان کے صفیں منتشر کردیں اور پھرباہر نکل کر اسی طرح دو تین بار حملہ کیا۔ حضرت سعد بن ہشام نے اس کا تذکرہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے سامنے کیا تو انہوں نے یہ آیت پڑھی :
و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ واللہ رء وف بالعباد ۔ ( سورہ بقرہ آیات ۲۰۷ ) (مصنف ابن ابی شیبہ )
 
( ۶ ) چھٹا قول ! حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جہاد میں ایک شخص نے اکیلے دشمن پر حملہ کردیا اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ کچھ لوگوں نے کہا اس نے تو اپنے ہاتھوں سےخود کو ہلاکت میں ڈال دیا ہے چنانچہ اس کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جوابی خط میں تحریر فرمایا لوگوں کا کہنا درست نہیں ہے بلکہ وہ شخص ان لوگوں میں سے ہے جن کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئی ۔
و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ واللہ رء وف بالعباد ۔ ( سورہ بقرہ آیات ۲۰۷ ) ( تفسیر ابن ابی حاتم )
 
ولا تلقوا بایدکم الی التھلکۃ ( سورہ البقرہ آیات ۱۹۵ )
یعنی تم لوگ اپنی ہاتھوں سے خود کو ہلاکت میں نہ ڈالوں
مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں کئی اقوال ہیں !
( ۱ ) پہلا قول ! ابو اسحق بیان فرماتے ہیں کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا قرآن مجید کی آیات : ولا تلقوا بایدکم الی التھلکۃ ( سورہ البقرہ آیات ۱۹۵ )
اس شخص کے بارے میں ہے جو اکیلا ایک ہزار کافروں پر حملہ کرے اور مارا جائے ۔ انہوں نے فرمایا نہیں بلکہ یہ آیت اس شخص کے بارے میں ہے جو کوئی گناہ کر کے یہ کہنے لگے کہ اب تو اللہ تعالی مجھے نہیں بخشے گا۔ ( امستدرک ۔ تفسیرابن ابی حاتم ۔ ابن عساکر )
( ۲ ) دوسرا قول ! پیچھے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا واقعہ گزر چکا ہے ۔ جس میں انہوں نے ارشاد فرمایا کہ یہ آیت اپنے ہاتھوں کو خود ہلاکت میں نہ ڈالوں ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی جب ہم نے کچھ عرصہ جہاد چھوڑنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ تو ہلاکت سے مراد جہاد چھوڑ کر گھر بیٹھ جانا ہے ( بحوالہ ابوداؤد۔ ترمذی )
٭ صحیح سند سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت حباب رضی اللہ عنہ کو لڑنے کے لیے بھیجا اور حضرت وحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو اکیلے جہاد میں روانہ فرمایا ۔ ( السنن الکبری)

( ۳ ) تیسرا قول ! امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بئر معونہ پر جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے تھے ان کے ساتھ والوں میں سے دو حضرات پیچھے رہ گئے تھے ان میں سے ایک انصاری تھے جب ان انصاری صحابی نے اپنے ساتھیوں کی شہادت گاہ پر پرندوں کو دیکھا تو حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے میں دشمنوں کی طرف لازما بڑھوں گا کہ شہید ہو جاؤں اور ایسی جگہ سے پیچھے نہیں ہٹوں گا جہاں پر میرے ساتھی شہید کر دیے گئے ہیں چنانچہ وہ آگے بڑھے اور شہید کر دئیے گئے۔ حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ نے واپس آکر جب ان انصاری کا واقعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا تو آپ نے ان کی تعریف فرمائی۔
بلکہ ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو رضی اللہ عنہ سے فرمایا تم آگے کیوں نہیں بڑھے ۔ ( السنن الکبری)
روایت سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ اور ایک انصاری صحابی کو جہاد کے لیے بھیجا یعنی صرف دو حضرات کا لشکر روانہ فرمایا اور حضرت عبداللہ بن انیس کو [ ایک مشرک کے لیے ] اکیلے بھیجا [یعنی ایک آدمی کو بطور لشکر روانہ فرمایا ( السنن الکبری )
( ۴ ) چوتھا قول ! قاسم بن مخیمرہ رضی اللہ عنہ جو بڑے تابعین میں سے ہیں ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ آیت کہ خود کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں نہ ڈالو۔ اللہ کے راستے میں خرچ نہ کرنے والوں کے بارے میں نازل ہوئی اور اگر اکیلا آدمی دس ہزار کافروں پر حملہ کر دے تو اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں ہے ۔
( ۵ ) پانجواں قول ! حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب تمھارا دشمن سے سامنا ہو تو مقابلہ کے لئے کھڑے ہو جاؤ یہ آیت کہ خود کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں نہ ڈالو اللہ کے راستے میں خرچ نہ کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے (مصنف ابن ابی شیبہ باسنادجید)
خلاصہ : ایسی ہی تفسیر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما، حضرت عکرمہ رحمہ اللہ ، حضرت حسن بصری رحمہ اللہ ، حضرت عطاء رحمہ اللہ ، حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ ، حضرت ضحاک رحمہ اللہ ، حضرت سدی رحمہ اللہ ، حضرت مقاتل رحمہ للہ سے بھی مروی ہے ۔ (تفسیر ابن جریر )
٭ یزیدبن ابو عبید رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ حدیبیہ کے دن آپ لوگوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کس چیز پر بیعت کی تھی ؟ انہوں نے فرمایا موت پر ( بخاری ، مسلم )
٭ بخاری اور مسلم میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے چچا حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ کا واقعہ مذکور ہے۔ مختصر یہ کہ وہ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوسکےتھے، چنانچہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اظہار فرمایا کہ اگر اللہ تعالی نے مجھے مشرکوں سے لڑنے کا موقع دیا تو وہ اپنے راستے میں میری جانبازی دیکھے گا۔ غزوہ احد کے دن انہوں نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اے سعد رضی اللہ عنہ مجھے احد کی پہاڑوں سے خوشبو آرہی ہے چنانچہ لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کے جسم پر اسی سے زئد زخم تھے مشرکین نے ان کے ناک کان اور دیگر اعضاء بھی کاٹ ڈالے ان کی بہن نے ان کے انگلیوں کے پوروں کے ذریعے سے انہیں پہچانا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم یہ خیال کرتے تھے کہ قرآن مجید کی یہ آیت ان کے اور ان جیسے دوسرے مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
من ا لمؤمنین رجال صدقوا ما عاھدوا للہ علیہ فمنھم من
قضی نحبہ و منھم من ینتظر ومابدلو تبدیلا (سورہ الاحزاب آیات ۲۳ )
ایمان والوں میں کچھ مردایسے بھی ہیں کہ انہوں نے جس بات کا اللہ سے
عہد کیاتھا اسے سچ کر دکھلایا ۔ پھر تو بعض تو ان میں سے وہ ہیں جنہوں نے اپنا
ذمہ پورا کر لیا اور بعض ان میں سے (اللہ کےراستے میں جان قربان کرنے کے لیے)
راہ دیکھ رہے ہیں اور وہ زرہ (برابر) نہیں بدلے ۔ (بخاری ، مسلم)
٭ عمرو بن قتادہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاذ بن عفراء رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے اللہ کے رسول بندے کا کونسا عمل اللہ تعالی کو ہنساتا ہے [یعنی خوش کرتا ہے] حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندے کے آستین چڑھاکر دشمنوں میں گھس جانا [ اور انہیں قتل کرنا ] یہ سن کر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے زرہ اتار پھینکی اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ )
مصنف فرماتے ہیں کہ سیرۃ ابن اسحاق کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت معاذ بن عفراء کا نہیں بلکہ حضرت عوف رضی اللہ عنہ بن عفراء کا ہے ۔
٭ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین شخص ایسے ہیں جن سے اللہ تعالی محبت فرماتاہے اور ان پر [ خوشی سے ] سے ہنستا ہے اور ان سے خوش وقتی کرتا ہے [ پہلا ] وہ شخص جو اپنے لشکر کے شکست کھانے کے بعد ڈٹ کر اکیلاا لڑتا رہے پھر یا تو شہید ہو جائے یا اللہ تعالی کی نصرت سے دشمنوں پر غالب آجائے یا اللہ تعالی اس کی طرف سے کافی ہو جائے [ ایسے شخص کے بارے میں ] اللہ تعالی فرماتا ہے میرے اس بندے کو دیکھو میرے خاطر کیسے ڈٹا رہا ۔ دوسرا وہ شخص جس کی بیوی خوبصورت اور بستر نرم پھر بھی رات کو تہجد کے لیے کھڑا ہو جائے [ اس شخص کے بارے میں ] اللہ تعالی فرماتا ہے یہ اپنی شہوت چھوڑ کر مجھے یاد کر رہا ہے حالانکہ اگر یہ چاہتا تو سو جاتا۔ تیسرا وہ آدمی جو سفر میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہو جب اس کے ساتھی سو جائیں تو وہ سحری کے وقت تہجد کے لئے کھڑا ہو جااتا ہے۔ تنگی میں بھی اور کشادگی میں بھی ۔ ( لطبرانی رجالہ ثقات)
٭ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی خوش ہوتا ہیں دو آدمیوں سے ایک وہ آدمی بستر اور لحاف میں سے اپنے گھروالوں اور محبت کرنے والو میں سے اٹھ کر نماذ پڑھتا ہے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں دیکھو میرے بندے کو کہ وہ اپنے بستر اور لحاف میں سے اپنے گھروالو اور محبت کرنے والوں کے درمیان سے اٹھ کر میری بخشش [ اور جنت ] پانے کے لئے اور میرے عذاب [ اور دوزخ ] کے خوف سے نماز پڑھ رہا ہے اور دوسرا وہ شخص جو اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کے لئے نکلے اور اس کے ساتھی میدان جنگ سے بھاگ جائیں اور وہ شخص جانتا ہو کہ بھاگنے میں کیا گناہ اور ڈٹ کر لڑنے میں کیا اجر ہے ۔ چنانچہ وہ واپس لوٹ کر لڑتا ہوا شہید ہو جائے تو اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ دیکھو میرے بندے کی طرف وہ میری رحمت [ اور بخشش ] کی امید میں اور میرے عذاب کے ڈر سےواپس لوٹا یہاں تک کہ اس کا خون بہا دیا گیا ( مسند احمد ۔ مصنف ابن ابی شیبہ صحیح الاسناد )
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس باب میں اگر کوئی اور حدیث نہ بھی ہوتی تو یہی ایک صحیح حدیث اکیلے آدمی کے بڑے لشکر میں گھس کر لڑنے کی فضیلت کے لئے کافی تھی۔
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا میں تمھیں نہ بتاؤں کہ سخیوں میں سب سے بڑا سخی کون ہے [ بے شک ] اللہ تعالی سب سے بڑا سخی ہے اور میں اولاد آدم میں سب سے زیادہ سخی ہوں اور میرے بعد سب سے زیادہ سخی وہ شخص ہے جس نے علم سیکھا اور پھر اسے پھیلایا یہ قیامت کے دن اکیلا ایک امت بنا کر اٹھایا جائے گا اور وہ شخص [ زیادہ سخی ہے ] جو اپنی جان اللہ تعالی کے حضور پیش کردے ۔ یہاں تک کہ شہید ہو جائے ۔ ( ابو یعلی۔بہیقی۔ مجمع الزوائد )
 
واقعہ نمبر ۱ :
حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ رومیوں کے مقابلے کے لئے صفر [ نامی مقام ] پر اترے تو میں [ اکیلا ] اپنے گھوڑے پر بیٹھ کر جابیہ [ نامی شہر ] کے دروازے تک پہنچ گیا وہاں میں نے اپنے گھوڑے سے اتر کر اس کے جسم کو ملا پھر اس پر زین کسی اور اپنا نیزہ ہاتھ میں سنبھال لیا [ یعنی حملے کے لئے تیار ہو گیا ] اسی اثناء میں میں نے جابیہ کا دروازہ کھلنے کی آواز سنی میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ قضائے حاجت کے لئے نکلے ہیں۔ میں نے کہا ایسے لوگوں پر حملہ کرنا میرے لئے عار کی بات ہے اس کے بعد ایک بڑا لشکر نگلا میں نے اسے اگے جانے دیا۔ جب وہ آگے بڑھ گیا تو میں نے پیچھے سے ان پر حملہ کر دیا اور نعرہ تکبیر بلند کیا انہوں نے سمجھا کہ ان کا شہر گھیرے میں آگیا ہے چنانچہ وہ پیچھے لوٹے میں نے [ تاک کر ] ان کے سردار پر حملہ کیا اور نیزہ مار کر اسے گرادیا پھر میں نے آگے بڑھ کر اس کے برذون [یعنی تیز رفتار دیو ہیکل ترکی گھوڑے ] کی لگام میں ہاتھ ڈالا اور اس پر سوار ہو گیا لشکر والوں نے جب مجھے اکیلا دیکھا تو میرے طرف بڑھے میں بھی ان کی طرف موڑا میں نے دیکھا کہ ایک شخص ان میں سے آگے بڑھ چکا ہے میں نے لگام کو زین کے سرے میں پھنسایا اور خود نیزہ لے کر اس پر حملہ آوار ہوا اور اس کو چھید دیا پھر میں برذون کی طرف لوٹا لشکر والے میرے طرف بڑھے میں پھر واپس مڑا اور پہلے کی طرح ایک اور شخص کو نیزے سے ہلاک کر دیا جب انہوں نے میرا یہ طریقہ دیکھا تو واپس لوٹ گئے میں وہاں سے واپس صفر [نام مقام ] میں آگیا ۔ میں نے اپنے خیمے کے پاس آکر ترکی گھوڑے کو باندھا اور اس کی زین اتاری ااور حضرت خالید بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہو کر سارا قصہ سنایا اس وقت ان کے پاس رومیوں کے سب سے بڑے سردار بھی اپنے شہر والوں کے لئے امان مانگنے کے لئے آیا ہوا تھا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے اسے فرمایا کیا تمھیں معلوم ہے کہ تمھارا فلاں سردار مارا گیاہے اس نے رومی زبان میں کہا متانون یعنی خدا نہ کرے ۔ اچانگ حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ وہی ترکی گھوڑا لیکر آگئے ۔ رومی سردار نے جب گھوڑا دیکھا تو پہچان گیا اور حضرت واثلہ سے کہنے لگا کیااس کی زین مجھے بیچو گے۔ حضرت واثلہ نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا میں اس کے دس ہزار دینے کو تیار لیے تیار ہوں ۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مجھے حکم دیا کہ بیچ دو۔ میں نے کہا امیر صاحب آپ بیجئے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے وہ زین بیچ دی اور اس رومی کا سارا سامان مجھے عنایت فرمایا دیا۔ (ابن عساکر )
 
واقعہ نمبر ۲ :
اسی سلسلے کا ایک مشہور واقعہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کا ہے [ ہم ذیل میں اسے مختصر طور پر بیان کرتے ہیں ]

٭ ذی قرد [نام مقام ] حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیوں کی چراگاہ تھی۔ عبدالرحمن بن عیینہ بن حصین فزاری نے چالیس سواروں کے ہمراہ اس چراگاہ پر حملہ کر دیا اور اس چراگاہ کا نگران جو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے تھے کو شہید کر دیا اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ اور تمام اونٹنیوں کو پکڑ کے لے گئے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کو اس چراگاہ میں لے کر جارہے تھے انہوں نے ایک شخص کو اسی گھوڑے پر بٹھا کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دینے کے لئے روانہ کیا اور خود ایک ٹیلے پر کھڑے ہوکر تین بار آواز لگائی یا صباحا اور خود اپنی کمان اور تیر لے کر پیدل ان کے پیچھے دوڑے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بڑے ماہر تیر انداز تھے اور بہت تیز دوڑتے تھے وہ اس لشکر سے آگے نکل کر راستے میں بیٹھ جاتے تھے اور پھر ان کے گھر سواروں پر تیر چلاکر ان کے گھوڑوں کو زخمی کر دیتے تھے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ تیر برساتے جاتے تھے اور یہ شعر پڑھتے تھے۔
انا ابن اکوع ا لیوم یوم الرضع
میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کے دن معلوم ہو جائے گا کہ کس نے شریف عورت کا دودھ پیا ہے اور کون کمینہ ہے ۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی یہ عجیب و غریب پیدل کاروائی جاری رہی اور ایک ایک کرکے اونٹنیوں کو چھڑاتے ، باندھتے اور پھر دوڑ کر اگے بڑھتے رہے ۔یہاں تک کہ تمام اونٹنیاں بھی ان سے چھڑا لیں اور تیس یمنی چادریں بھی ان سے چھیں لیں۔ اسی اثناء میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر آپہنچا اس میں سب سے آگے حضرت اخرم اسدی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ تھے۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہں کہ میں نے حضرت اخرم کو سمجھایا کہ آپ پیچھے سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کو آنے دیں اور جلدی نہ کریں اسی پر حضرت اخرم رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے سلمہ اگر تم اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور مانتے ہو کہ جنت اور جہنم حق ہیں تو میرے اور شہادت کے درمیان روکاوٹ نہ بنو یہ سن کر میں نےان کے گھوڑے کی لگام چھوڑ دی۔ انہوں نے عبدالرحمن بن عیینہ پر حملہ کیا اور اس کے گھوڑے کو زخمی کر دیا مگر عبدالرحمن نےنیزے کا وار کیا جس سے وہ شہید ہو گئے۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے بڑھ کر عبدالرحمن کو قتل کردیا پھر وہ آگے بڑھے تو میں ان کے پیچھے دوڑتا رہا اور شام کو ان کے دو گھوڑے لے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر میں پہنچا جو پانج سو یا سات سو افراد پر مشتمل تھا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول میں ان کو فلاں جگہ پیاسا چھوڑ آیا ہوں اگر آپ سو آدمی مجھے دے دیں تو میں ان سب کو قتل [ یا گرفتار ] کرکے لے آؤں گا۔ یہ سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خوشی سے مسکرانے لگے۔ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو قتادہ ہمارے بہترین گھڑ سوار ہیں اور سلمہ بن اکوع ہمارے بہترین پیادے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مال عنیمت میں سےگھڑ سوار اور پیادے دونوں کا حصہ عطاء فرمایا ( مختصر از صحیح مسلم )
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحیح حدیث سے ثابت شدہ اس قصے سے چند باتیں وضاحت کے ساتھ سمجھ میں آتی ہیں۔
( ۱ ) اکیلے آدمی کا کافروں کے لشکر پر حملہ کرنا جائز ہے۔ جیسا کہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ ، حضرت اخرم رضی اللہ عنہ اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نےکیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ، ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی تعریف فرمائی اور حضرت اخرم رضی اللہ عنہ کے فعل کو بھی غلط قرار نہیں دیا۔
( ۲ ) امیر کو چاہیے کہ اپنے مامور کو اکیلے حملہ کرنے سے روکے لیکن اگر اسے اپنے اس مامور کے مضبوط ارادے سچی نیت اور شوق شہادت کا علم ہو جائے تو پھر اجازت دینے میں بخل نہ کرے جیسا کہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ نے پہلے حضرت اخرم رضی اللہ عنہ کو منع کیا پھر اجازت دے دی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کسی عمل کو غلط قرار نہیں دیا۔
( ۳ ) حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو سو آدمی مانگے اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ کافروں کا لشکر کئی افراد پر مشتمل تھا ورنہ سو آدمیوں کو لے جانے کی کیا ضرورت تھی۔
٭ عقبہ بن قیس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے جنگ یرموک کے دن حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ سے کہا آج میں نے دشمنون پر [ اکیلے ] حملہ کرنے کا عزم کر لیا ہے کیا آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کوئی پیغام بھیجنا چاہتے ہیں۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میرا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ ہم نے اپنے رب کے وعدوں کو سچا پایا ( ابن عساکر )
 
واقعہ نمبر ۳ :
حضر بسربن ارطاۃ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آیا ہے کہ رومیوں کے ساتھ جہاد کے دوران ان کے لشکر کے ساقہ [ پچھلے حصے ] کو برابر نقصان پہنچتا رہا، حضرت بسر ان کے لیے کمین گاہیں بناتے مگر رومی چھپ کر ان پر حملہ کر دیتے ، حضرت بسر رضی اللہ عنہ نے یہ صورت حال دیکھ کر سو آدمی اپنے ساتھ لئے اور لشکر سے پیچھے ایک پہاڑی کے دامن میں چھپ گئے وہاں سے انہوں نے ایک جگہ تیس ترکی گھوڑےبندھے ہوئے تھے اور ان کے ایک جانب گرجاگھر تھا اس گرجے میں گھوڑوں کے سوار تھے۔ حضرت بسر نے اپنا گھوڑا قریب ہی باندھا اور خود اکیلے گرجا گھر میں داخل ہو ئے اور اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ رومی دروازے کے بند ہونے سے حیران ہوئے اور اپنے نیزوں کی طرف بھاگے مگر نیزے اٹھانے سے پہلے ہی ان میں سے تین زمین پر تڑپ رہے تھے ادھر حضرت بسر رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے جب انہیں نہ پایا تو ان کی تلاش میں نکلے۔ گرجے کے پاس انہوں نے آپ کے گھوڑے کو پہچان لیا اور انہیں گرچے کے اندر سے شور بھی سنائی دیا تو انہوں نے اس میں داخل ہونے کی کوشش کی مگر دروازہ بند تھا چنانچہ انہوں نے چھت کو توڑ کر جگہ بنائی اور اندر گھس گئے انہوں نے دیکھا کہ حضرت بسر رضی اللہ عنہ اپنے بائیں ہاتھ سے اپنی آنتیں سنبھالی ہوئی ہیں اور دائیں ہاتھ میں تلوار لے کر لڑ رہے ہیں جب ان کے ساتھی گرجا گھر پر قابض ہوگئے تو حضرت بسر بے ہوش ہو کر گرپڑے اس لڑائی میں کئی رومی مارے گئے اور کئی قید ہوئے ان قیدیوں نے حضرت بسر رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ ، انہوں نے کہا یہ بسر بن ارطاۃ رضی اللہ عنہ ہیں کہنے لگے کہ اللہ کی قسم کسی ماں نے اس جیسا نہیں جنا ہوگا۔ ان کے ساتھیوں نے ان کی آنتوں کو ان کے پیٹ میں واپس رکھ دیا اور اپنے عمامے پھاڑ کر ان کی پٹی کی اور انہیں اٹھا کر لے آئے علاج کے بعد اللہ تعالی نے انہیں تندرستی عطاع فرما دی ( رواہ الحافظ ابوالحاج المزی )
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت بسر بن ارطاۃ اس امت کے عظیم بہادروں میں سے تھے ان کے صحابی ہونے میں مورخین کا اختلاف ہے ۔ یزیدبن ابو حبیب کہتے ہیں کہ حضرت بسر تلوار کے دھنی تھے۔ اللہ تعالی ان کے ہاتھ پر کئی علاقے فتح فرمائے۔
واقعہ نمبر ۴ :
ولید بن مسلم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے حمص کے رہنے والے ایک بزرگ شخص نے بتایا کہ ان کی ملاقات ایک بوڑھے رومی شہسوار سے ہوئی جو کسی زمانے میں حمص کے رومی لشکر کا سپاھی تھا اور ایک آنکھ سے کانا تھا اس بوڑھے رومی نے بتایا کہ جب مسلمانوں نے حمص پر لشکر کشی کی تو انہوں نے بحیرہ قدس کے ایک دریا پر پڑاؤ ڈالا۔ حمص رومی جرنیل نے مجھے تیس گھڑ سوار دیکر پھیجا کہ میں مسلمانوں میں سے کسی کو پکڑ کے لے آؤں یا ان کے حالات معلوم کرکے آؤں میں اپنے ساتھیوں کو لیکر لشکر کے قریب ایک گھاٹی کے دامن میں چھپ گیا اس دوران ہم نے دریا کے دوسرے کنارے پر ایک شخص کو دیکھا جو دریا میں سے اپنے گھوڑے کو پانی پلارہا تھا اور اس کا نیزہ اس کے ایک طرف رکھا ہوا تھا۔ جب اس کی نظر ہم پڑی تو اس نے گھوڑے پر زین ڈالی اور سوار ہو گیا اور اپنا نیزہ ہاتھ میں لے لیا۔ ہم نے سمجھا کہ یہ ہم سے ڈر کر اپنے لشکر کی طرف بھاگ رہا ہے۔ لیکن اچانک اس نے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا ہم اس کی جرات اور بے خوفی کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ دریا سے نکل کر جب گھوڑا کیچڑ اور دلدل والی جگہ کے پاس آیا تو اس نے وہاں سے چھلانگ لگانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکا یہ دیکھ کر وہ گھڑ سوار گھوڑے کی زین پر کھڑا ہو گیا اور اس نے اپنے نیزے کا سہارا لے کے چھلانگ لگائی اور دلدل کو عبور کر لیا۔ وہاں سے اس نے گھوڑے کو آواز دی تو گھوڑا بھی پہنچ گیا۔ یہ شخص اس پر سوار ہوکر ہماری طرف بڑھا اور ہم پر حملہ کرکے اس نے ہمیں بکھیر دیا اور ہم میں سے ایک شخص کو الگ دیکھ کر قتل کردیا ۔ اسی طرح اس نے کئی بار کیا ہم باقی لوگ جان بجانے کے لیے شہر کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے مگر وہ ہمارا پیچھا کرتا رہا اور ایک ایک کو قتل کرتا رہایہاں تک کہ میرے سوا کوئی زندہ نہ بچا۔ جب وہ حمص کے دروازے کے قریب پہنچ گیا تو دروازے پر موجود پہرے دار نے اس کی ساری کار گزاری دیکھ لی اور اس کی اطلاع پر کئی گھڑ سوار ہماری طرف نکلے میں نے جب گھڑ سواروں کو آتے دیکھا تو میں نے خیال کیا کہ وہ نوجوان گھڑ سواروں کو دیکھ کر واپس بھاگ گیا ہوگا چنانچہ میں نے گردن موڑی تو اس کا نیزہ میری آنکھ میں لگا۔ اسی اثناء میں رومی گھڑ سواروں نے اسے گھیر کر شہید کردیا ادھر سے مسلمانوں کی ایک جماعت اس کی تلاش میں نکلی مگر وہ تب پہنچے جب یہ شہسوار گر چکا تھا میں جب شہر میں داخل ہوا تو لوگ کہتے تھے مسحل مسحل یعنی وہ شخص بہت بہادر اور اکیلا لڑنے والا تھا اسی وجہ سے اس جگہ کو جہاں اس شہسوار کو دفن کیا گیا "" دیر مسحل "" کہتے ہیں۔ (ابن عساکر )
 
واقعہ نمبر۵ :
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت سے بخاری شریف میں ابورافع یہودی کے قتل کاواقعہ مذکور ہے۔اس واقعے میں حضرت عبداللہ بن عتیکؓ کی تنہا جانثاری اور جانبازی کا مختصر قصہ یہاں نقل کیا جاتا ہے۔
حضوراکرمﷺ نے حضرت عبداللہ بن عتیک حضرت مسعودبن سنان،حضرت عبداللہ بن انیس،حضرت ابوقتادہ اور حضرت خزاعی بن اسود رضی اللہ عنہم کو ابورافع یہودی کے قتل کے لئے روانہ فرمایا اور حضرت عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے اپنے رفقاء سےفرمایا کہ تم یہیں بیٹھو میں قلعہ کے اندر جانے کی کوئی تدبیر نکالتا ہوں اس وقت یہودی اپنے ایک گدھے کو ڈھونڈ رہے تھے۔ حضرت عبد اللہ کپڑا ڈھانک کر اس طرح بیٹھ جیسے کوئی قضاء حاجت کرتاہو اسی وقت دربان نے آواز دی کہ جس نے اندر آنا ہو جلدی آجائے میں دروازہ بند کر رہا ہوں۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں فورا اندر داخل ہو گیا اور ایک طرف چھپ کر بیٹھ گیا ابو رافع اوپر بالا خانے میں رہتا تھا اور رات کو اس کے پاس قصہ گوئی ہوتی تھی جب قصہ گوئی ختم ہوگئی اور لوگ اپنے گھروں کو واپس ہو گئے تو دربان نے دروازے بند کرکے چابیوں کا حلقہ ایک کھونٹی پر لٹکا دیا جب سب لوگ سو گئے تو میں اٹھا اور کھونٹی سے چابیاں اتار کر دروازے کھولتا ہوا بالا خانے پر جا پہنچا۔ میں جو دروازہ بھی کھولتا تھا اسے اندر سے بند کر لیتا تھا تاکہ لوگوں کو اگر میری خبر بھی ہو جائے تو بھی میں اپناکام کر گزروں۔ جب میں بالا خانے پر پہنچا تو وہاں اندھیرا تھا اور ابو رافع اپنے اہل وعیال میں سو رہا تھا۔ میں نے اسے آواز دی، ابو رافع، ابورافع نے کہا کون ہے ؟ میں نے اس کی آواز کا اندازہ لگا کر تلوار کا وار کیا مگر وہ خالی گیا، ابورافع نے ایک چیخ ماری، میں نے تھوڑی دیر بعد آواز بدل کر ہمدردانہ لہجے میں کہا ابو رافع تمھیں کیا ہوا۔ ابو رافع نے کہا ابھی کسی شخص نے مجھ پر تلوار کا وار کیا ہے یہ سنتے ہی میں نے اس پر تلوار کا دوسرا وار کیا جس سے وہ زخمی ہو گیا پھر میں نے تلوار کی دھار اس کی پیٹ پر رکھ کر اتنے زور سے دبائی کہ پشت تک پہنچ گئی۔ میں نے جب ہڈی کی آواز سنی تو مجھے یقین ہو گیا کہ اب اس کا کام تمام ہو چکا ہے۔ اس کے بعد میں واپس لوٹا مگر سیڑھی سے اترتے وقت گر پڑا جس سے میری پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی میں نے اپنے عمامے سے اسے باندھ دیا اور لنگڑاتا ہوا اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا اور ان سے کہا کہ جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت سناؤ میں یہیں بیٹھا ہوں اس کی موت اور قتل کا اعلان سن کر آؤں گا چنانچہ جب صبح ہوئی تو خبر دینے والے نے قلعے کی فصیل سے اس کی موت کا اعلان کیا تب میں وہاں سے روانہ ہوا اور ساتھیوں سے آملا۔ پھر ہم سب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو خوشخبری سنائی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا واقعہ سن کر ارشاد فرمایا : اپنی ٹانگ پھیلاؤ میں نے ٹانگ پھیلا دی۔ آپ نے دست مبارک اس پر پھیرا ۔ مجھے ایسا معلوم ہوا گویا کہ کھبی کوئی شکایات ہی پیش نہ آئی تھی۔ (بخاری )
٭ اسی طرح حضرت ابوحدرداسلمی رضی اللہ عنہ نے اپنے دو ساتھیوں سمیت اایک بہت بڑے لشکر پر حملہ کیااور اللہ تعالی نے نے ان تین افراد کو بڑے لشکر پر فتح عطاء فرمائی اور ان کے ہاتھ بہت زیادہ مال عنیمت بھی لگا اس واقعے کی تفصیل ان شاء اللہ آگے سرایا کے بیان میں آئے گی۔ ( الروض الانف )
واقعہ نمبر ۶ :
ماضی میں بھی ایسے واقعات کی مثال ملتی ہے جب حضرت طالوت نے صرف تین سو تیرہ مجاہدین کے ساتھ مل کر جالوت کے نوے ہزار یا تین لاکھ کے لشکر پر حملہ کیا اور کامیابی حاصل کی۔ یہ واقع تب پیش آیا تھا جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے انتقال کے بعد بنی اسرائیل نے جہاد چھوڑ دیا ۔ تو ان پر عمالقہ کے کفار مسلط ہو گئے جنہوں نے بنی اسرائیل کے مردوں کو قتل کیا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا۔ تب انہوں نے اپنے نبی سے درخواست کی کہ ہمارے لئے کوئی امیر بنا ئیے تاکہ ہم جہاد کرکے اس غلامی کی ذلت سے نجات پائیں۔ اللہ تعالی کی طرف سے حضرت طالوت کو ان کے علم اور بہادری کی وجہ سے ان کا امیر بنا دیا گیا۔ وہ اسی نوے ہزار کا لشکر لے کر بیت المقدس سے روانہ ہوئے۔ راستے میں سخت گرمی تھی۔ اللہ تعالی نے ان کا امتحان لیا اور ایک دریا پر انہیں اتارا حضرت طالوت نے حکم دیا کہ اس میں سے ایک چلو سے زیادہ کوئی نہ پئے ورنہ وہ ہمارے ساتھ نہیں جاسکے گا۔ مگر ان میں اکثر نے خوب پانی پیا اور اگے نہ جاسکے۔ صرف تین سو تیرہ آگے بڑھے بعض کہتے ہیں کہ چار ہزار نے دریا عبور کرلیاتھا مگرجب جالوت کے طاقتور لشکر کو دیکھا تو تین ہزار چھ سو ستاسی آدمی واپس ہوگئے اور صرف تین سو تیرہ ڈٹے رہے جالوت جب میدان میں نکلا تو اس کے سر پر تین سورطل وزنی لوہے کی ٹوپی تھی لیکن حضرت داؤد علیہ السلام جیسے چھوٹے سے بچے کے ہاتھوں وہ قتل ہوا اور اس کے پورے لشکر کو شکست ہوئی۔ [یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ مکمل تفصیلات کے لیے کتب تفسیر کی طرف رجوع کریں ] ۔
اسی طرح جنگ قادسیہ میں مسلمانوں کی تعداد سات ہزار سے کچھ زائد تھی اور ان کے امیر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے ۔ جبکہ دشمنوں کی تعداد چالیس یا ساٹھ ہزار تھی اور ان کے ساتھ ستر ہاتھی تھے اور ان کی قیادت رستم کی ہاتھ میں تھی۔ علامہ مدائنی فرماتے ہیں شوال ۱۵ ھ میں تین دن تک یہ عظیم لڑائی ہوتی رہی۔ اس میں رستم مارا گیا۔ اور اس کی فوج کو شکست ہوئی۔
وا قعہ نمبر ۷ :
علامہ طرطوشی رحمہ اللہ اسی جنگ قادسیہ میں حضرت عمرو بن معدی کرب رضی اللہ عنہ کا واقعہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے دریا کے کنارے کھڑے ہوکر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میں تو دشمن پر اکیلا حملہ کرنے جارہاہوں اگر تم اونٹ ذبح ہونے کی دیر تک پہنچ گئے تو مجھے دشمنوں کے درمیان گھرا ہوا لڑتا پاؤ گے لیکن اگر تم نے اس سے زیادہ دیر کی تو مجھے شہید پاؤگے اس کے بعد وہ دریا عبور کرکے دشمنوں میں گھس گئے۔ کچھ دیر کے بعد ان کے ساتھیوں نے بھی حملہ کر دیا اور جب ان تک پہنچے تو وہ زمین پر گرے پڑے تھے اور انہوں نے دشمن کے ایک سپاہی کے گھوڑوں کی دونوں ٹانگوں کو پکڑ رکھاتھا۔ وہ سپاہی گھوڑے کو مارتا تھا مگر گھوڑا اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتا تھا جب مسلمان وہاں پینچ گئے تو گھڑ سوار گھوڑے سے کود کر بھاگ گیا اور حضرت عمرو بن معدی کرب رضی اللہ عنہ اس گھوڑے پر سوار ہوگئے اور فرمانے لگے کہ میں ابو ثور ہوں ۔ قریب تھا کہ تم لوگ مجھے کھو دیتے ۔ ساتھیوں نے پوچھا آپ کاگھوڑا کہا ہے ۔ فرمایااسے تیر لگا تواس نےمجھے گرا دیا ( سراج الملوک للطرطوشی )
اسی طرح حضرت عبداللہ بن خنظلہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے حرہ کے دن اپنے ساتھیوں سے موت پر بیعت لی اور لڑائی میں اپنے آٹھ بیٹے باری باری قربان کرائے اور پھر آخر میں اپنی تلوار کا نیام تھوڑ کر اکیلے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ۔ رضی اللہ عنہ۔ ( تاریخ اسلام لابن ذہنی )
 
وا قعہ نمبر ۸ :
علامہ طر طوشی رحمہ اللہ اور علامہ قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت طارق بن زیاد رحمہ اللہ صرف سترہ سو مجاہدین لیکر اندلس میں داخل ہوئے۔ تذفیر [ نامی سردار ] جو کہ اندلس کے بادشاہ لذ ریق کا نائب تھا تین دن تک حضرت طارق رحمہ اللہ کے لشکر سے لڑتا رہا پھر اس نےاپنے بادشاہ کو لکھا کہ کچھ لوگوں نے ہم پر چڑھائی کر دی ہیں میں نہیں جانتا یہ لوگ زمین سے آئے ہیں یا آسمان سے۔ ہم نے ان کا مقابلہ کیا ہے لیکن ہمارا کوئی بس نہیں چلا۔ اب تم خود ہماری مدد کے پہنچو۔ خط پاتے ہی لزریق نوے ہزار گھڑ سواروں کو لے آگیا تین دن تک یہ جنگ ہوتی رہی اور مسلمان سخت مشکل میں پھنس گئے۔ حضرت طارق رحمہ اللہ نے مسلمانوں سے کہا کہ ہماری جائے پناہ تو ہماری تلواریں ہیں ہمارے پیچھے سمندر اور سامنے دشمن ہے ۔ اب میں ایک ایسی کاروائی کرنے لگا ہوں جس میں یا تو ہمیں فتح ملے گی یا شہادت۔ لشکر والوں نے پوچھا وہ کونسی کاروائی ہے ۔ فرمایا میں ان کے بادشاہ پر حملہ کرنے والاہوں ۔ چنانچہ جب میں حملہ کروں تو تم بھی ایک جسم کی طرح اکھٹے میرے ساتھ حملے میں شریک ہو جانا چنانچہ حملہ شروع ہوا اور اندلس کا بادشاہ اور ان کے بہت سارے ساتھی مارے گئے ان کا لشکر شکست کھاکر بھاگا اور مسلمان ان کا پیچھا کرکے انہیں قتل کرتے رہے۔ اس دن مسلمانوں کے صرف چند آدمی شہید ہوئے حضرت طارق بن زیاد رحمہ اللہ نے لزریق کا سر حضرت موسی بن نصیر [گورنر افریقہ ] کی خدمت میں بھجوادیا۔ انہوں نے وہاں سے اس دمشق ولید بن عبدالملک کے پاس بھجوایا۔ اس کے بعد طارق بن زیاد رحمہ اللہ نے طلیطلہ پر اورمغیث رومی رحمہ اللہ نے قرطبہ پر حملہ کیا اور یہ دونوں علاقے فتح کر لئے اور وہاں کے بے شمار خزانے اور مال ودولت ان کے ہاتھ لگا۔ انہیں میں حضرت سلیمان علیہ السل ام کا دستر خوان بھی تھا جس کی قیمت دو لاکھ دینار لگائی گئی کیونکہ اس پر بہت زیادہ جواہرات جوڑے ہوئے تھے۔
وا قعہ نمبر ۹ :
اس طرح کے واقعات میں عجیب ترین واقعہ محمد بن داؤد الب ارسلان کا ہے۔ علامہ قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ رومیوں کا بادشاہ قسطنطنیہ سے چھ لاکھ کا لشکر جرار لے کر نکلا اور رضا کارانہ طور پر نکلنے والوں کی تعداد ان کے علاوہ تھی یہ لشکر سمندر کی طرح آگے بڑھ رہا تھا اور اس کے پاس موجود اسلحے اور آلات حرب کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تھا۔ اپنی طاقت اور کثرت کے نشے میں مست ہو کر انہوں نے ہر ایک لاکھ لشکر کے لئے مسلمانوں کے الگ الگ علاقے تقسیم کر دیئے تھے کہ فلاں علاقہ فلاں ایک لاکھ کو ملے گا فلاں علاقہ فلاں ایک لاکھ کو۔ یہ صورت حال دیکھ کر اسلامی ممالک میں بے چینی اور خوف پھیل گیا اور کئی جگہوں پر مسلمان اپنے علاقوں سے بھاگ کھڑے ہوئے اور انہوں نے یہ علاقے رومی لشکر کے لئے خالی کر دیئے۔ الب ارسلان ترکی رحمہ اللہ اس وقت عجم اور عراق کے مسلمان حکمران تھے انہوں نے اپنے وزراء کو جمع کیا اور فرمایا تم جانتے ہوں کہ آج مسلمانوں پر کتنی بڑی مصیبت نازل ہو چکی ہے تم لوگ اس بارے میں کیا رائے دیتے ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو آپ کے حکم کے تابع ہیں ویسے اتنےبڑےلشکر کا مقابلہ کسی کےبس کی بات نہیں ہے ۔ سلطان ارسلان نے کہا ہمارے لئے کوئی جائے فرار بھی تو نہیں ہے۔ جب ہم نے مرنا ہی ہے تو عزت والی موت مرنا زیادہ بہتر ہے ۔ وزراء نے کہا اگرآپ تیار ہیں تو ہماری جانیں بھی آپ کے ساتھ قربان ہو ں گی۔ چنانچہ جہاد کا فیصلہ ہو گیا اور یہ طے پایا کہ اپنے ملک کے پہلے ہی شہر میں اس لشکر کا مقابلہ کیا جائے چنانچہ بیس ہزار چنے ہوئے مشہور بہادر اس لشکر میں شامل ہوئے جب لشکر نے پہلا پڑاؤ ڈالا تو سلطان نے دیکھا کہ اب وہ پندرہ ہزار رہ گئے ہیں اور پانچ ہزار [خوف کی وجہ سے ] واپس جا چکے ہیں ۔ اگلے پڑاؤ پر لشکر کی تعداد بارہ ہزار رہ گئی تھی ۔ جس دن صبح کے وقت یہ مختصر لشکر رومی لشکر کے سامنے پہنچا تو رومی لشکر کو دیکھ کر ان کی عقلیں دنگ رہ گئیں اور ذہن ماؤف ہو گئےاسلامی لشکر رومی لشکر کے مقابلے میں اس طرح نظر آرہا تھا جس طرح کالے بیل کے جسم میں سفید تل [یا نشان ] ۔ سلطان نے کہا کہ میں نے اردہ کیا ہے کہ میں سورج کے زوال کے بعد ان سے جنگ شروع کرونگا۔ ساتھیوں نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ اس وقت روئے زمین کے ہر ممبر پر ہمارے لئے دعا کی جارہی ہوگی کیونکہ آج جمعہ کا دن ہے۔
سورج ڈھلنے کے بعد سب نے نماز اداء کی پھر سلطان نے کہا ہر کوئی اپنے ساتھی سے الوداعی ملاقات کرلے اور جو وصیت کرنی ہو وہ بھی کرلے سب نے ایسا کیا۔ سلطان نے فرمایا میں نے ان پر خود حملہ کرنے کا اردہ کیاہے۔ جب میں حملہ کروں تم بھی حملہ آوار ہو جانا اور جو میں کروں وہی کچھ کرنا۔ مسلمانوں نے کل بیس صفیں بنائیں اور کسی صف کا بھی کنارہ نظر نہیں آتا تھا۔ سلطان نے کہا اللہ کے نام اور اس کی برکت کے ساتھ میرے پیچھے پیچھے حملہ شروع کردو۔ سلطان نے حملہ شروع کیا اور لشکر والوں نے بھی اکھٹا حملہ کردیا اور وہ دشمنوں کی صفوں کو پھاڑتے ہوئے بادشاہ کے خیموں تک پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر سلطان نے رکنے کا حکم دیا اور پھر خیموں کو گھیر لیا بادشاہ کے ساتھ والوں کو اس کا تصور بھی نہیں تھا کہ کوئی ان تک پہنچ سکے گا۔ چنانچہ وہ سب غفلت میں مارے گئے۔ مسلمانوں نے ایک رومی کا سر کاٹ کرنیزے پر رکھا اور اعلان کر دیا کہ رومی بادشاہ مارا گیاہے ۔ یہ سنتے ہی لشکر میں بھگڈ ڑ مچ گئی اور وہ شکست کھا کر پیچھے بھاگنے لگے لیکن مسلمانوں کی تلواروں نے ان سے پچھلے تمام دنوں کا بدلہ چکایا چنانچہ تمام لشکر والے یا تو مارے گئے یا گرفتار کرلئے گئے۔ سلطان ارسلان رومی بادشاہ کے تخت پر بیٹھ گئے انہوں نے دستر خواں پر کھانا کھایا اور پھر رومی بادشاہ کو حاضر کرنے کے لئے کہا۔ رومی بادشاہ کے گلے میں رسی ڈال کر سلطان کے سامنے پیش کیا گیا تو سلطان نے پوچھا اگر تم مجھ پر فتح پا لیتے تو میرے ساتھ کیا سلوک کرتے۔ رومی بادشاہ نے کہا کیا تمھیں اس میں شک ہے کہ تم قتل کر دیئے جاتے ۔ سلطان نے کہا کہ میں تچھ جیسے گھٹیا آدمی کو قتل کرنا گوارہ نہیں کرتا ۔ اسے لے جاؤ اور فروخت کردو۔ مسلمان سپاہی اس کے گلے میں رسی ڈال کر پورے لشکر میں گھوم رہے تھے اور اسے بیچنے کا اعلان کر رہے تھے مگر کوئی اسے نہیں خرید رہاتھا۔ یہاں تک کہ وہ لشکر کے آخری حصے میں پہنچے تو ایک شخص نے کہا اگر تم اسے کتےکے بدلے پیچتے ہو تو میں یہ کتا دیکر خرید لیتا ہوں ۔ سپاہی اس شخص کو لیکر سلطان کے پاس آئے اور بتایا کہ یہ خریدار ہے مگر کتے کے بدلے میں۔ اس پر سلطان نے کہا کہ کتا اس رومی سے بہتر ہے کیونکہ یہ کتا تو کوئی فائدہ تو پہنچاتا ہے جبکہ یہ رومی کسی کا م کا نہیں پھر سلطان نے اس بیچ دیا اور کتا بھی اسے دے دیا پھر سلطان نے اسے آزاد کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ایک رسی میں کتے کو اور اس کو باندھ کر اس کے شہر پہنچا دو۔ جب وہ اپنے شہر پہنچا تو وہاں کے لوگوں نے اسے معزول کرکے اس کا منہ کالا کیا۔







وا قعہ نمبر ۱۰ :
ابو اسحاق انصاری رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ علی بن اسد نام کا ایک قتل اور دوسرے بڑے بڑے گناہوں کا مرتکب تھا ایک بار وہ رات کے وقت کو فہ سے گزر را تو ایک شخص رات کے آخری حصے میں یہ آیت پڑھ رہا تھا :
قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ ( سورہ زمر آیات ۵۳)
( اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف سے لوگوں کو ) کہہ دو کہ اے میرے
بندوں! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ تعالی کی رحمت سے نا امید نہ ہونا۔
علی نے یہ آیت سنی تو کہنے لگا دوبارہ پڑھو اس شخص نے دوبارہ پرھی پھر اس نے بار بار اس سے آیت پڑھوائی اور سنی اور گھر آکر اس نے غسل کیا۔ اپنے کپڑے دھوئے اور عبادت میں لگ گیا یہاں تک کہ زیادہ رونےکی وجہ سے اس کی آنکھیں خراب ہو گئیں اور اس کے گھٹنے اونٹ کی گھٹنوں کی طرح ہو گئے۔ پھر وہ رومیوں کے خلاف سمندری جہاد کی طرف نکلا۔ مسلمانوں نے اپنی کشتیاں رومیوں کے کشتیوں کے قریب لائیں تو علی نے کہا میں آج کے دن جنت پانے کی کوشش کروں گا۔ یہ کہہ کر اس نے رومیوں کی کشتیوں میں چلانگ لگا دی اور ان پر حملہ اور ہو گیا۔ لڑتے لڑتے وہ اور کئی رومی کشتی کے ایک کونے میں جمع ہو گئے۔ تو کشتی الٹ گئی اور علی بن اسد جنہوں نے لوہے کی زرہ پہن رکھی تھی ڈوپ کر شہید ہوگئے۔ (ابن عساکر )
وا قعہ نمبر ۱۱ :
محمد بن ثاقب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب یمامہ کے دن مسلمان پیچھے ہٹنے لگے تو حضرت سالم رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی میں ایسا نہیں کرتے تھے پھر انہوں نے گڑھا کھودا اور اس میں کھڑے ہو کر لڑتے رہے اور شہید ہو گئے۔ اس دن مہاجرین کا جھنڈا انہی کے ہاتھ میں تھا۔ یہ واقعہ ۱۲ ھ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں پیش آیا۔
واقعہ نمبر ۱۲ :
مالک بن دینا رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ زاویہ کی لڑائی کے دن عبداللہ بن غالب رحمہ اللہ نے فرمایا میں ایک ایسی چیز دیکھ رہا ہوں جس سے صبر کرنا ممکن نہیں ہے۔چلو ہمیں جنت لے چلو یہ فرما کر انہوں نے تلوار کا نیام توڑ ڈالا اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ فرماتے ہیں کہ ان کی قبر سے مشک کی خوشبو آتی تھی مالک بن دینا فرماتے ہیں کہ میں ان کی قبر پر گیا اور میں نے اس پرسے مٹی اٹھا کر سنگھی تو اس میں مشک کی خوشبو آرہی تھی۔ (بہیقی)
دوسری روایت میں آیا ہے کہ اس دن عبداللہ بن غالب رحمہ اللہ کو روزہ تھا اور یہ بھی آیا ہے کہ لوگ ان کی قبر کی مٹی خوشبو کے لئے اپنے کپڑوں پر لگایا کرتے تھے۔
 
اکیلے آدمی کے زیادہ دشمنوں پر حملہ کرنے کا کیا حکم ہے۔ اس بارے میں آپ بہت سارے دلائل پڑھ چکے ہیں۔ حضرات علماء کرام کے اس بارے میں مختلف اقوال ہیں ان میں سے بعض کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔
( ۱ ) علامہ عزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی مسلمان کو اس بات کا یقین ہو کہ وہ شہید ہونے سے پہلے دشمنوں کا کچھ نقصان ضرور کر لے گا یا اپنی جرات کا مظاہرہ کرکے کافروں کو خوف زدہ کرے گا یا کافروں پر مسلمانوں کی بہادری اور شوق شہادت کا رعب ڈال دے گا تو ایسے آدمی کے لئے اکیلے پورے لشکر پر حملہ کرنا جائز ہے اگرچہ اسے شہید ہونے کا مکمل یقین ہو۔ لیکن اگر اسے معلوم ہو کہ اس کے حملہ کرنے سے دشمن کا کچھ نقصان نہیں ہوگا تو پھر یہ حملہ کرنا حرام ہے۔ جیسے اندھا آدمی خود کو دشمنوں پر جا گرائے کہ مجھے شہید کر دیں۔ ( احیاء علوم الدین )
( ۲ ) علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جمہور علماء کے نزدیک اکیلے آدمی کا دشمنوں کی صفوں میں گھس جانا اور اپنے آپ کو شہادت کے لیے پیش کرنا بلا کراہت جائز ہے وہ حضر عمیر بن حمام کے قصے سے دلیل پکڑتے ہیں۔ یہ قصہ پیچھے کئی بار گزر چکاہے۔ ( شرح النووی علی مسلم )
( ۳ ) امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مبارزہ میں حصہ لیا اور انصار کے ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فضائل سن کر بدر کے دن اکیلے مشرکوں پر حملہ کیا۔ یہ انصاری حضرت عوف بن عفراء تھے ( السنن الکبری )
( ۴ ) علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اکیلے آدمی کے پورے لشکر پر حملے کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔
قاسم بن مخیمرہ ، قاسم بن محمد اور عبدالملک فرماتے ہیں اگر کسی شخص میں اس کی قوت ہو اور اس کی نیت خالص اللہ کے لئے ہو تو اس کے لئے بڑے لشکر پر حملہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر قوت نہ ہو تو یہ خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے ۔
ایک قول یہ ہے کہ اگر وہ شہادت کی طلب میں خالص نیت رکھتا ہوں تو حملہ کر سکتا ہے کیونکہ اس کا مقصد وہ چیز ہے جس کو قرآن مجید کی اس آیت میں بیان کیا گیا ہے۔
ومن الناس من یشری نفسہ ابتعاء مرضات اللہ ( سورہ بقرہ آیات ۲۰۷ )
اور کوئی شخص ایسا ہے کہ اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنی جان بیچ ڈالتا ہے۔
ابن خوایز منداد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اکیلے آدمی کے سو آدمیوں پر یا پورے لشکر پر یا چوروں اور خوارج کی جماعت پر حملہ کرنے کی دو صورتیں ہیں اگر حملہ آور کو غالب گمان ہو کہ وہ اپنے اوپر حملہ کرنے والوں کو قتل کرکے خود محفوظ رہے گا تو پھر حملہ کرنا بہت اچھا ہے اسی طرح اگر اسے یقین یا گما ن غالب ہو کہ وہ شہید ہو جائے گا لیکن دشمنون کو بھی نقصان پہنچائے گا یا ان پر ایسا تاثر چھوڑے گا جو مسلمانوں کے لیے مفید ہو گا تو یہ بھی جائز ہے۔ جب قبیلہ بنو حنفیہ کے مرتدوں نے باغ میں پناہ لے لی تومسلمانوں میں سے ایک شخص نے فرمایا مجھے چمڑے کی ڈھال میں ڈال کر دشمنوں پر پھینگ دو ۔ دوسرے مسلمانوں نے بھی ایسا کیا اور یہ شخص اکیلے لڑتے رہے اور انہوں نے اندر سے باغ کا دروازہ کھول دیا ۔ تفسیر القرطبی )
انصار کے ان سات نوجوانوں کا واقعہ پہلے گزر چکاہے۔ جنہوں نے اپنی جانیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے نچھاور کر دی تھیں اور وہ اپنے سے بہت بڑے لشکر پر حملہ آور ہوئے تھے۔
( ۵) امام محمد بن حس رحمہ اللہ بھی اس بارے میں وہی کچھ فرماتے ہیں جو اوپر گزر چکا ہے کہ اگر دشمنوں کو نقصان پہنچانا، یا مسلمانوں کا حوصلہ بڑھانا یا دشمنوں پر مسلمانوں کا رعب ڈالنا مقصود ہو تو اکیلے آدمی کا حملہ کرنا درست ہے ورنہ مکروہ ۔
[ اس زمانے کے خود کش حملوں کو مذکورہ اقوال اور دلائل کی روشنی میں دیکھا جائے تو مسئلے کی مکمل وضاحت سامنے آجاتی ہے ] ۔
فصل
[ اس فصل میں مصنف رحمہ اللہ نے مبارزہ کے بارے میں احکامات ، اقوال اور واقعات نقل فرمائے ہیں۔ مبارزہ اسے کہتے ہیں کہ عمومی لڑائی سے پہلے کوئی شخص اکیلا نکل کر کافروں کو لڑنے کی دعوت دے ۔ چونکہ اس زمانے کی جنگوں میں یہ صورت حال نہیں ہوتی اس لیے ہم فی الحال اسے ذکر نہیں کر رہے ہیں۔ اگر آئندہ اس کی ضرورت پیش آئے تو کوئی اللہ کا بندہ اس فصل کو بھی کتاب میں شامل کردے اور ان شاء اللہ آخری زمانے کی جنگیں پھر ابتدائی زمانے جیسی ہوں گی ۔ ]
[ یہ باب آج کے دور کے اعتبار سے بہت ہی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اسے بار بار پڑھئے اور ایک دوسرے کو سنایئے۔ کیونکہ آج کفر نے ہم پر جو جنگ مسلط کی ہے اس میں ہماری کامیابی اسی وقت ممکن ہے ۔ جب ہم میں سے ہر شخص اپنےاسلاف کی طرح اکیلا دشمنون میں گھسنے اور لڑنے اور ان کی صفوں کو پھاڑنے کا عزم رکھتا ہو اور خوف نام کی کسی چیز سے واقف نہ ہو۔ آج عالمی جہاد شروع ہو چکا ہے اس میں پورا لشکر وہ کام نہیں کرسکتا جو اکیلا جانباز اور بہادر سر انجام دے سکتا ہے ۔ آج دشمنوں کے اندر گھس کر اس کے ان لوگوں پر وار کرنے کی ضرورت ہے جو دشمن کا دماغ ہیں اور یہ کام بھی اکیلے جانباز اور سر فروش کر سکتے ہیں۔ اسی طرح دشمن کی تنصیبات کے اندر تک پہنچنے کی اور دشمن کےدل کے اوپر گرنے کی ضرورت ہے ۔ اور یہ کام کوئی اکیلا سرفروش ہی کر سکتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ آج حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ اور حضرت سلمہ بن اکوع اور حضرت زیاد بن سکن رضی اللہ عنہم کے جانشینوں کی ضرورت ہے جو اسلامی غیرت اور ایمانی جذبے سے سرشار ہوکر یہ اعلان کریں کہ ہم ان شاء اللہ اکیلے دشمنوں پر موت بن کر گریں گے۔
اللہ کی قسم ایسے دس جوان جو اکیلے اکیلے جاکر مخصوص طریقے سے جان قربان کرنے کے لئے تیار ہوں دس ہزار کے لشکر سے زیادہ کام کر سکتے ہیں آج مسلمانوں کو جنگ کے اس اہم طریقے اور پہلو کو جلد از جلد اپنانا چاہئے اور مجاہدین کے اس طرح کے سرفروش دستے بنانے چاہئیں۔ پھر دیکھیں کہ کفر کس طرح سے صلح کےلئے ہاتھ بڑھاتا ہے۔ اور امن کے لئےقدموں میں گرتاہے۔ مگر اس کے لیے ضرورت ہے علم و عمل سے سر شار مضبوط ایمان رکھنے والی قیادت کی جو مجاہدین کو اس کامیاب جنگی طریقے سے استعمال کرسکے۔ یا اللہ ہمیں ان باتوں کی سمجھ عطاء فرمااور ہمیں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلا آمین ثم آمین ]
 
Top