واجدحسین
معطل
اکیلے مجاہد یا مختصر جماعت کا دشمن کے بڑے
لشکر پر حملہ، اس کی فضلیت اور احکام
اللہ تعالی کا فرمان ہے :لشکر پر حملہ، اس کی فضلیت اور احکام
( ۱) کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ واللہ مع الصابرین ( سورہ بقر ہ آیات ۲۴۹)
بار بار بہت سی چھوٹی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آگئی ہیں اور اللہ تعالی استقلال والوں کے ساتھ ہیں۔
اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے :
( ۲ ) و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ واللہ رء وف بالعباد ۔ ( سورہ بقرہ آیات ۲۰۷ )
اور کوئی شخص ایسا ہے کہ اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی چان بیچ ڈالتا ہے اور اللہ تعالی بندوں پر بہت مہربان ہے۔
اس آیات کے شان نزول میں حضرات مفسرین کے مختلف اقوال ہیں : ۔
( ۱ ) ایک قول یہ ہے کہ یہ آیات حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ان کا تعلق قبیلہ بنو نمر بن قاسط سے تھابچپن میں وہ قیدی بنا کر روم لے جائے گئے جہاں ان کی زبان بدل گئی پھر وہ عبداللہ بن جدعان کے غلام رہے اس نے انہیں آزاد کردیا ان کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ وہ روم سے بھاگ کر مکہ مکرمہ پہنچے اور ابن جدعان کے حلیف بنے ۔ مکہ مکرمہ میں ہی آپ نے اسلام قبول کیا اور پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کرکے مدینہ جانے لگے تو قریش کے ایک گروہ نے ان کا تعاقب کیا وہ اپنی سواری سے اتر گئے اور انہوں نے تمام تیر ترکش سے نکال لئے اور کمان ہاتھ میں لیکر فرمایا تم لوگ جانتے ہو کہ میں تم میں بہترین تیر انداز ہوں اللہ کی قسم جب تک میرے پاس ایک تیر بھی موجود ہے تم مجھ تک نہیں پہنچ سکتے میں یہ سارے تیر تم پر چلاؤں گا اور پھر جب تک میری تلوار میری ہاتھ میں رہے گی تم سے لڑتا رہوں گا اس کے بعد تمھیں جو کرنا ہو کرلینا مشرکین نے کہا کہ ہم تمھیں نہیں جانے دیں گے تم جب مکہ میں آئے تھ تو فقیر تھے اور اب یہاں سے مالدار ہوکر جارہے ہو۔ ہاں اگر تم اپنا سارا مال ہمیں دے دو تو ہم تمھیں جانے دیں گے چنانچہ اسی بات پر معاہدہ ہو گیا اور حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے سارے مال کے بارے میں بتا دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہ آیات نازل ہوئی :
و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ واللہ رء وف بالعباد ۔ ( سورہ بقرہ آیات ۲۰۷ )
اور کوئی شخص ایسا ہے کہ اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی چان بیچ ڈالتا ہے اور اللہ تعالی بندوں پر بہت مہربان ہے۔
اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابو یحی تم نے بڑی نفع والی تجارت کی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ بالا آیت مبارکہ پڑھ کر سنائی ۔ ( تفسیر ابن ابی حاتم )
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ کئی بڑے مفسرین حضرات نے اپنی تفاسیر میں نقل فرمایا ہے ۔
( ۲ ) دوسرا قول ! علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے ہر شخص کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ جیسا کہ ایک اور جگہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
ان اللہ اشتری من المؤمنین انفسھم و اموالھم بان لھم الجنۃ ( سورہ توبہ آیات ۱ ۱ ۱ )
بے شک اللہ تعالی نے مسلمانوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو اس کی قیمت پر کہ ان کے لئے ہے خرید لیا ہے ۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ نے جب اکیلے دشمنوں پر حملہ کر دیا تو بعض لوگوں نے ان پر تنقید کی ااس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے تنقید کرنے والوں پر رد فرمایا اور یہ آیت پڑھی :
و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ واللہ رء وف بالعباد ۔ ( سورہ بقرہ آیات ۲۰۷ ) (تفسیر ابن کثیر)
( ۳ ) تیسرا قول ! ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں حضرت عکرمہ رحمہ اللہ یا حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ کے واسطے سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا آیت کا مطلب یہ ہے کہ ان [مجاہدین نے] جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے سے اپنی جانیں اللہ کو بیچ دیں اور انہوں نے اس کا حق اداء کرنے کے لیے اپنی جانیں قربان کردیں۔ (تفسیر ابن ابی حاتم)
( ۴ ) چوتھاقول ! مدرک بن عوف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضرتھا کہ ان کی خدمت میں نہاوند میں اسلامی لشکر کے امیر حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کا قاصد آیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سےمجاہدین کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے فرمایا فلاں فلاں تو شہید ہوگئے اور کچھ لوگ اور بھی شہید ہوئے ہیں جنہیں میں نہیں جانتا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا لیکن اللہ تعالی انہیں جانتا ہے قاصد نے فرمایا اے امیر المؤمنین ایک مرد مجاہد نے اپنی جان [اللہ تعالی کو] بیچ دی ۔ مدرک بن عوف رحمہ اللہ نے کہا ۔ اللہ کی قسم اے امیر المؤمنین وہ میرے ماموں تھے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انہوں نے [ اکیلے دشمنوں میں گھس کر ] اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاکت میں ڈال دیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ لوگ جھوٹے ہیں ۔ تمھارے ماموں نے تو دنیا کے بدلے آخرت خرید لی ہے ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ بسند صحیح )
( ۵ ) پانچواں قول ! محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مشرق کی جانب سے ایک بار کافروں کا ایک فوجی دستہ آگیا ۔ انصار میں ایک شخص انے [اکیلے ] ان پر حملہ کرکے ان کے صفیں منتشر کردیں اور پھرباہر نکل کر اسی طرح دو تین بار حملہ کیا۔ حضرت سعد بن ہشام نے اس کا تذکرہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے سامنے کیا تو انہوں نے یہ آیت پڑھی :
و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ واللہ رء وف بالعباد ۔ ( سورہ بقرہ آیات ۲۰۷ ) (مصنف ابن ابی شیبہ )