اک اور غزل آپ کی بصارتوں کی نذر ۔

جیا راؤ

محفلین
ویسے یہ جملہ یوں بھی پڑھا جا سکتا ہے:
غائب رہنے اور غزل کے تیار نہ ہونے کی وجہ ااختلافات تھے۔
ان سے جان چھوٹتے ہی پھر سے ایک عدد غزل کے ساتھ حاضر ہو گئے۔

اختلافات "غزل" سے یا "محفل" سے ؟

مجھ سے بچھڑ کے خوش رہتے ہو
تم بھی میری طرح جھوٹے ہو۔
مجھ کو شام بتا دیتی ہے
تم کس رنگ کے کپڑے پہنے ہو

یہ ہماری اپنی غزل ہے بچھڑنے کے موضوع پر۔ موضوع کی وضاحت اس واسطے لازم ٹھہری کہ شاپنگ کی دلدادہ بیگمات کی جانب سے اسے سپنا لان کا اشتہار متصور نہ کیا جائے۔
بعد میں ڈاکٹر بشیر بدر نے ہم سے پوچھے بنا اسے اپنی کتاب میں چھاپ ڈالا۔ تب سے تعلقات کشیدہ ہیں نہ وہ ہمیں جانتے ہیں نہ ہم ان کو۔


کمال ہے ہمیں یہ غزل پڑھ کر کبھی محسوس ہی نہ ہو سکا کہ ڈاکٹر صاحب نےیہ آپ سے لکھوائی ہے۔

انشا جی اور یوسفی صاحب کو ہم تفصیل سے پڑھ نہ سکے کہ اکثر کتب خانوں میں بستہ تھیلا باہر رکھوا لینے کی رسم قبیح ہے۔ کم سے کم ہمیں تاریخ میں تو کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا کہ روم و یونانی تہذیب کے دورکے کتب خانوں میں بستے باہر رکھوا لئے جاتے ہوں۔

شمشاد صاحب کے مشورے پر غور کریں۔
 
مختلف پوسٹس پر جوابات کا انداز خاصا شگفتہ بھی ہے اور برجستہ بھی ہے۔۔۔۔۔
جاری رکھیے ماشااللہ اچھا انداز تحریر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شفقت

محفلین
السلام علیکم
کافی عرصہ کے بعد اک اور غزل آپ کی بصارتوں کی نذر۔

بھلا کے رنجش اے دوستو مسکرا دو اب ہم بچھڑ رہے ہیں
دلوں سے اپنے تمام شکوے مٹا دو اب ہم بچھڑ رہے ہیں

سنا ہے جب سے کہ دور ہونگے نگاہیں پل پل برس رہی ہیں
مرے عزیزو دو اشک تم بھی بہا دو اب ہم بچھڑ رہے ہیں

بہت سی خوشیاں بہت سے غم تھے، کبھی ستم تو کبھی کرم تھے
سنہری یادوں کو آج پھر سے جِلا دو اب ہم بچھڑ رہے ہیں

سنا ہے ہم نے کہ دردِفرقت بہت ہی جاں سوز کیفیت ہے
مسیحا ہو تو ابھی سے ہم کو شفا دو اب ہم بچھڑ رہے ہیں

نہ عہد چاہوں، نہ کوئی پیماں مگر سنو اے بچھڑنے والو !
وفا کے زینے پہ اک دیا سا جلا دو اب ہم بچھڑ رہے ہیں​

[grade="00008B 32CD32 FF1493 008080 DC143C"]بہت خوبصورت ہے۔ اتنی اچھی غزل ہم لوگوں سے شئیر کرنے کا بہت بہت شکریہ۔[/grade]
 
Top