آپ کی محبت، عرفان بھائی۔ دعا کیا کیجیے میرے لیے۔
یہ مثالیں تو قبلہ
الف عین نے عنایت کر دیں۔
بھائی، یہ دراصل اسقاط نہیں اختلاط ہے۔ ہندی کے چند الفاظ بعض اوقات مخلوط التلفظ ہوتے ہیں۔ ان میں فی الحال مجھے ی، ر اور ھ یاد آ رہے ہیں۔ ی کی مثالیں تو آپ جانتے ہیں۔ پیاس، کیا، کیوں، پیار، چیونٹی وغیرہ۔
رائے مخلوط التلفط کی مثالیں پریم، پریت (بمعنیٰ عشق و محبت) وغیرہ ہیں۔ ان میں رائے مہملہ کی آواز اپنے ماقبل سے بالکل جڑ کر یوں نکلتی ہے کہ عروض میں ان دو حروف کو ایک قیاس کر لیا جاتا ہے۔ مثال دیکھیے:
تو پریم کنھیّا ہے یہ پریم کی نیّا ہے
یہ پریم کی نیّا ہے تو اس کا کھویّا ہے
(اخترؔ شیرانی)
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
دونوں مصرعوں میں پریم تواتر سے پیم کے وزن پر لایا گیا ہے اور یہی درست ہے۔
تیسری صورت ہائے مخلوط التلفظ کی ہے۔ اس سے بھی آپ خوب واقف ہوں گے۔ اردو میں اس کا املا دو چشمی ھ سے کیا جاتا ہے اور یہ بھی اپنے ماقبل سے ملا کر پڑھی جاتی ہے۔ جیسے کھایا، پھیکا، چولھا، انھیں، دلھن وغیرہ۔
نکتہ یہ ہے کہ دو حروف کا یہ اختلاط صرف ہندی الاصل الفاظ کا خاصہ ہے اور عربی یا فارسی سے آئے ہوئے الفاظ پر اس کا قیاس کرنا درست نہیں۔ مثلاً اگر لفظ خیال جو عربی الاصل ہے، کی یائے تحتانی کو آپ خائے معجمہ کے ساتھ مخلوط کر کے باندھیں تو یہ ظلم اور جہالت ہو گی۔ مجید امجدؔ صاحب نے فارسی لفظ پیالہ کو فعلن کے وزن پر باندھنے پر کئی بحثیں فرمائی تھیں مگر میں اسی اصول کی بنا پر ان کے اجتہاد کو بدعت سمجھتا ہوں۔
ہندی رسم الخط میں غالباً تمام مخلوط التلفظ آوازوں کو ایک ہی حرف سے لکھا جاتا ہے۔ ہائے مخلوط التلفظ یعنی بھ، پھ، گھ، ڈھ وغیرہ کی حد تک تو مجھے یقین ہے۔ باقی استاذی
شکیب بھائی یا
الف عین صاحب بہتر بتا سکیں گے۔ اگر ایسا ہی ہے تو یہ ہمارے موقف کی حمایت میں ایک اور اہم دلیل ہو گی۔
دو کا لفظ غالبا ہمارے ہاں فارسی سے آیا ہے اور اہلِ ایران بھی اس میں واؤ کا اسقاط بوقتِ ضرورت کر دیا کرتے ہیں۔
مرا غیرِ تماشای جمالت
مبادا در دو عالم کارِ دیگر
(رومیؔ)
مفاعیلن مفاعیلن فعولن
اردو کی مثال دیکھیے:
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
(غالبؔ)
فَعِلات فاعلاتن فَعِلات فاعلاتن
غالبؔ نے اس شعر کے مصرعِ ثانی میں دو چار کو دُچار باندھا ہے۔
ہندستان اور ہشیار وغیرہ کی مثالیں قدرے غیرمتعلق ہیں کیونکہ یہ لفظ کے اندر تغیر ہے نہ کہ اس کے اخیر میں۔ جس کے نتیجے میں ان الفاظ کا تلفظ ہی نہیں بلکہ املا بھی متاثر ہوتا ہے۔ عروض میں لفظ کے اندر تغیر کا معاملہ بالعموم اخیر یا شروع کے تغیر کی نسبت زیادہ نازک ہوتا ہے۔ اگلے جو کچھ کر گئے کر گئے اب یہ تصرف خطا میں شمار کیا جاتا ہے۔۔ مثلاً خاموش کو تو قدما نے خموش لکھ کر نظیر فراہم کر دی مگر ہم تاریک کو تریک باندھیں تو یہ بڑی فاش غلطی ہو گی۔
لگی لپٹی تو میں رکھوں گا نہیں، یہ وعدہ رہا۔ باقی رہی اصلاح تو سچی بات ہے کہ آپ اس کے نہیں، فقط صلاح کے سزاوار ہیں۔
ایک برأت نامہ (disclaimer) بھی داخل کرتا چلوں۔ میری یادداشت اتنی کمزور ہو چلی ہے کہ جب کبھی شعری نشستوں وغیرہ میں جانا ہوتا ہے تو اپنے اشعار لکھ کر لے جاتا ہوں ورنہ کچھ یاد نہیں ہوتا۔ گزشتہ دنوں عجیب لطیفہ ہوا۔ ایک غزل لکھ کر لے گیا۔ جلدی میں مقطع لکھنا یاد نہیں رہا۔ وہاں جا کر پڑھی تو مقطع ندارد۔ کافی تعمق کے بعد بھی یاد نہ آیا تو ناچار معذرت کر کے اٹھ آیا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ گو اصول کسی حد تک مجھے مستحضر ہیں مگر نظائر و امثال کے سلسلے میں بالکل کورا ہوں۔ آپ کا حسنِ ظن ایک طرف مگر یہ تفصیل و تدقیق جو آپ نے دیکھی، بڑی حد تک انٹرنیٹ کی مرہونِ احسان ہے۔ خدا گوگل اور
ریختہ والوں کا بھلا کرے، اکثر نہایت عمدہ مثالیں میسر آ جاتی ہیں۔ آپ کو خود بھی آئندہ کسی معاملے میں تردد ہو تو مستند ویب سائٹوں سے مدد لے لینے میں کوئی عار نہیں۔