اک اکیلا دو گیارہ۔۔۔برائے اصلاح

عرفان سعید

محفلین
(تمام زندگی کیمسٹری میں گزارنے کے بعد نجانے تُک بندی کا شوق کیسے عود کر آیا؟ وزن کے پیچ و خم میں سر کافی وزنی رہا۔ عروض سے واجبی سی شُد بُد کے بعد اپنی اولین کاوشِ شکستہ کو وزن میں لانے کی کوشش!)

احبابِ محفل سے رہنمائی کی درخواست ہے۔
استادِ محترم الف عین
جناب راحیل فاروق
جناب کاشف اسرار احمد
اک اکیلا دو گیارہ

کیمیا گر اک سخن ور سے ہوا کچھ ایسے گویا
تجربے میں ہوں مگن، لیکن نہیں کوئی سہارا

آپ ہم دو ہوتے ہیں،تھی چار کی مجھ کو ضرورت
کچھ بتائیے! اس مصیبت سے نکلنے کا اشارہ

سوچ کر بولا، جنابِ من! نہیں عقدہ یہ مشکل
یہ بلائے آسمانی ٹالنے کا کہہ دوں چارہ؟

قاعدے پڑھ رکھے ہیں کافی ریاضی کے بھی تم نے
کلیہ یہ ہے ہمارا، اک اکیلا دو گیارہ

(عرفان)​
 
آپ ہم دو ہوتے ہیں،تھی چار کی مجھ کو ضرورت
کچھ بتائیے! اس مصیبت سے نکلنے کا اشارہ
اصلاح تو اساتذہ کا کام ہے ۔ مجھے تو ایک نکتہ جو سمجھ آیا وہ یہ کہ "اشارہ"، "بتایا" نہیں جاتا، کیا جاتا ہے۔ سو مصرعِ ثانی میں شاید یہ ایک سقم ہے۔
روانی کو بھی ذرا سی کوشش سے اور بہتر کر سکتے ہیں۔
باقی خوب ہے جناب !
 
بہت اچھی کوشش ہے، عرفان بھائی۔ ماشاءاللہ۔ دل رکھنے کی بات نہیں۔ آپ باذوق اور عالی فہم آدمی ہیں۔ کبھی کبھی وقت نکال کر کچھ کہہ لیا کریں تو لطف سے خالی نہ ہو گا۔
کچھ بتائیے! اس مصیبت سے نکلنے کا اشارہ
بتائیے، جائیے، آئیے، سنائیے وغیرہ الفاظ کا جزوِ ثانی یعنی "ئیے" اصولاً وتدِ مجموع کے وزن پر باندھا جاتا ہے۔ اسے بتایے کے وزن یعنی فعولن پر باندھنا مناسب نہیں۔ حل اس کا سیدھا سادہ سا ہے۔ دیجیے، کیجیے، لیجیے وغیرہ الفاظ کو ضرورتِ شعری کے تحت دیجے، لیجے، کیجے وغیرہ کی صورت میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر مناسب لگے تو مصرعِ ثانی کو یوں کر لیجیے:
کچھ تو دیجے اس مصیبت سے نکلنے کا اشارہ​
یا کاشف بھائی کی صلاح کے مطابق شاید یوں زیادہ بہتر ہو گا:
کچھ تو کیجے اس مصیبت سے نکلنے کا اشارہ​
کلیہ یہ ہے ہمارا، اک اکیلا دو گیارہ
گیارہ کا وزن فعلن ہے نہ کہ فعولن۔ مثال دیکھیے:
ایک ان میں ریفری گیارہ کھلاڑی ہیں مگر
اس کھلاڑی ٹیم میں فٹ بال ہے ان کا پدر
(سید محمد جعفری)​
اس مصرعے کو اگر یوں کر لیا جائے تو جائز ہے:
کلیہ یہ ہے ہمارا، ایک اکیلا اور دو گیارہ​
اس میں آپ دو کا واؤ ساقط کریں گے جس کے نظائر اردو اور فارسی میں وافر ہیں۔
ان مشوروں کو محض معروضات سمجھیے۔ نہ یہ اصلاح ہیں اور نہ میں خود میں اتنی جرأت پاتا ہوں کہ آپ کے کلام پر قلم پھیروں۔
پہلی کوشش کی مکرر داد اور مبارک باد!
 

عرفان سعید

محفلین
اصلاح تو اساتذہ کا کام ہے ۔ مجھے تو ایک نکتہ جو سمجھ آیا وہ یہ کہ "اشارہ"، "بتایا" نہیں جاتا، کیا جاتا ہے۔ سو مصرعِ ثانی میں شاید یہ ایک سقم ہے۔
روانی کو بھی ذرا سی کوشش سے اور بہتر کر سکتے ہیں۔
باقی خوب ہے جناب !
کاشف بھائی آپ کی بہت عنایت جو آپ نے فقیر کو توجہ کے قابل سمجھا۔ آپ نے جو اشارہ کیا ہے اس کی روشنی میں مزید رواں کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
 

عرفان سعید

محفلین
بہت اچھی کوشش ہے، عرفان بھائی۔ ماشاءاللہ۔ دل رکھنے کی بات نہیں۔ آپ باذوق اور عالی فہم آدمی ہیں۔ کبھی کبھی وقت نکال کر کچھ کہہ لیا کریں تو لطف سے خالی نہ ہو گا۔

محترم راحیل بھائی! کچھ بن نہیں پڑتا کہ کن الفاط میں آپ کا شکریہ ادا کروں۔ آپ نے اب تک جو بھی تبصرے فرمائے ہیں، بے حد وقیع ہیں۔ کیمیا دان کو سخن ور کی پوری بات بے شک پلے نہ پڑے، لیکن آپ کا سمجھانے کا انداز اتنا دلنشیں ہے کہ کیا کہنے! آپ کی نگارش کے بین السطور سے خلوص و اپنائیت صاف جھلکتی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ آپ کی تحریر سے حظ اٹھانے کو بہانے بہانے سےآپ کو زحمتِ کلام دیتا رہوں، سو دے رہا ہوں۔ بالکل مبتدی ہوں، کوئی بچگانہ سوال پوچھ بیٹھوں تو گراں بارِ خاطر ہونے پر پیشگی معذرت کا خواستگار ہوں۔

1۔ "کیجے" کی طرف آپ نے جو اشارہ فرمایا، کسی مثال کا بھی نظارہ کروا دیں تو ڈوبتی ناؤ کا تنکا ہی سہارا ہو جائے ۔

2۔ "گیارہ" کیا "یے" کے اسقاط سے فعلن کے وزن پر ہے؟ اور کیا یہ اسقاط ویسا ہی ہے جیسا مثال کے طور پر "پیاس" میں؟

3۔ "دو" سے "و" کا اسقاط کیا ویسا ہے، جیسا کہ ہندوستان سے ہندستان اور ہوشیار سے ہشیار؟

آخر میں صرف یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آپ لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی اصلاح کا قلم نہیں پھیریں گے تو یہ تہی دامن و تشنہ کام توجہ نہ پا کر ترکِ مشق کی تلوار نہ چلا بیٹھے۔

آپ کی تحسین اور حوصلہ افزائی پر بہت ممنون ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
محترم راحیل بھائی! کچھ بن نہیں پڑتا کہ کن الفاط میں آپ کا شکریہ ادا کروں۔ آپ نے اب تک جو بھی تبصرے فرمائے ہیں، بے حد وقیع ہیں۔ کیمیا دان کو سخن ور کی پوری بات بے شک پلے نہ پڑے، لیکن آپ کا سمجھانے کا انداز اتنا دلنشیں ہے کہ کیا کہنے! آپ کی نگارش کے بین السطور سے خلوص و اپنائیت صاف جھلکتی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ آپ کی تحریر سے حظ اٹھانے کو بہانے بہانے سےآپ کو زحمتِ کلام دیتا رہوں، سو دے رہا ہوں۔ بالکل مبتدی ہوں، کوئی بچگانہ سوال پوچھ بیٹھوں تو گراں بارِ خاطر ہونے پر پیشگی معذرت کا خواستگار ہوں۔

1۔ "کیجے" کی طرف آپ نے جو اشارہ فرمایا، کسی مثال کا بھی نظارہ کروا دیں تو ڈوبتی ناؤ کا تنکا ہی سہارا ہو جائے ۔

2۔ "گیارہ" کیا "یے" کے اسقاط سے فعلن کے وزن پر ہے؟ اور کیا یہ اسقاط ویسا ہی ہے جیسا مثال کے طور پر "پیاس" میں؟

3۔ "دو" سے "و" کا اسقاط کیا ویسا ہے، جیسا کہ ہندوستان سے ہندستان اور ہوشیار سے ہشیار؟

آخر میں صرف یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آپ لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی اصلاح کا قلم نہیں پھیریں گے تو یہ تہی دامن و تشنہ کام توجہ نہ پا کر ترکِ مشق کی تلوار نہ چلا بیٹھے۔

آپ کی تحسین اور حوصلہ افزائی پر بہت ممنون ہوں۔
راحیل کی بجائے میں ہی میدان میں آ جاؤں؟
1۔ کیجے کی بہت مثالیں مل سکتی ہیں۔
غالب: درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
ساحر: پھر نہ کیجے مری گستاخ نگاہی کا گلہ

2۔ درست کہا گیارہ، پیاس ، دھیان ان سب میں ’ی‘ کا اسقاط ایک جیسا ہے۔

3۔ ہندوستان اور ہوشیار کی واؤ گرانے سے تو نئے الفاظ بن جاتے ہیں، ہندستان اور ہشیار۔ دو کی واؤ کا اسقاط ایسا نہیں۔ جیسے صرف ہندو کی واؤ کا اسقاط۔
 

عرفان سعید

محفلین
راحیل کی بجائے میں ہی میدان میں آ جاؤں؟
1۔ کیجے کی بہت مثالیں مل سکتی ہیں۔
غالب: درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
ساحر: پھر نہ کیجے مری گستاخ نگاہی کا گلہ

2۔ درست کہا گیارہ، پیاس ، دھیان ان سب میں ’ی‘ کا اسقاط ایک جیسا ہے۔

3۔ ہندوستان اور ہوشیار کی واؤ گرانے سے تو نئے الفاظ بن جاتے ہیں، ہندستان اور ہشیار۔ دو کی واؤ کا اسقاط ایسا نہیں۔ جیسے صرف ہندو کی واؤ کا اسقاط۔
بہت بہت شکریہ استادِ محترم!
 
محترم راحیل بھائی! کچھ بن نہیں پڑتا کہ کن الفاط میں آپ کا شکریہ ادا کروں۔ آپ نے اب تک جو بھی تبصرے فرمائے ہیں، بے حد وقیع ہیں۔ کیمیا دان کو سخن ور کی پوری بات بے شک پلے نہ پڑے، لیکن آپ کا سمجھانے کا انداز اتنا دلنشیں ہے کہ کیا کہنے! آپ کی نگارش کے بین السطور سے خلوص و اپنائیت صاف جھلکتی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ آپ کی تحریر سے حظ اٹھانے کو بہانے بہانے سےآپ کو زحمتِ کلام دیتا رہوں، سو دے رہا ہوں۔ بالکل مبتدی ہوں، کوئی بچگانہ سوال پوچھ بیٹھوں تو گراں بارِ خاطر ہونے پر پیشگی معذرت کا خواستگار ہوں۔
آپ کی محبت، عرفان بھائی۔ دعا کیا کیجیے میرے لیے۔
1۔ "کیجے" کی طرف آپ نے جو اشارہ فرمایا، کسی مثال کا بھی نظارہ کروا دیں تو ڈوبتی ناؤ کا تنکا ہی سہارا ہو جائے ۔
یہ مثالیں تو قبلہ الف عین نے عنایت کر دیں۔
2۔ "گیارہ" کیا "یے" کے اسقاط سے فعلن کے وزن پر ہے؟ اور کیا یہ اسقاط ویسا ہی ہے جیسا مثال کے طور پر "پیاس" میں؟
بھائی، یہ دراصل اسقاط نہیں اختلاط ہے۔ ہندی کے چند الفاظ بعض اوقات مخلوط التلفظ ہوتے ہیں۔ ان میں فی الحال مجھے ی، ر اور ھ یاد آ رہے ہیں۔ ی کی مثالیں تو آپ جانتے ہیں۔ پیاس، کیا، کیوں، پیار، چیونٹی وغیرہ۔
رائے مخلوط التلفط کی مثالیں پریم، پریت (بمعنیٰ عشق و محبت) وغیرہ ہیں۔ ان میں رائے مہملہ کی آواز اپنے ماقبل سے بالکل جڑ کر یوں نکلتی ہے کہ عروض میں ان دو حروف کو ایک قیاس کر لیا جاتا ہے۔ مثال دیکھیے:
تو پریم کنھیّا ہے یہ پریم کی نیّا ہے
یہ پریم کی نیّا ہے تو اس کا کھویّا ہے
(اخترؔ شیرانی)
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن​
دونوں مصرعوں میں پریم تواتر سے پیم کے وزن پر لایا گیا ہے اور یہی درست ہے۔
تیسری صورت ہائے مخلوط التلفظ کی ہے۔ اس سے بھی آپ خوب واقف ہوں گے۔ اردو میں اس کا املا دو چشمی ھ سے کیا جاتا ہے اور یہ بھی اپنے ماقبل سے ملا کر پڑھی جاتی ہے۔ جیسے کھایا، پھیکا، چولھا، انھیں، دلھن وغیرہ۔
نکتہ یہ ہے کہ دو حروف کا یہ اختلاط صرف ہندی الاصل الفاظ کا خاصہ ہے اور عربی یا فارسی سے آئے ہوئے الفاظ پر اس کا قیاس کرنا درست نہیں۔ مثلاً اگر لفظ خیال جو عربی الاصل ہے، کی یائے تحتانی کو آپ خائے معجمہ کے ساتھ مخلوط کر کے باندھیں تو یہ ظلم اور جہالت ہو گی۔ مجید امجدؔ صاحب نے فارسی لفظ پیالہ کو فعلن کے وزن پر باندھنے پر کئی بحثیں فرمائی تھیں مگر میں اسی اصول کی بنا پر ان کے اجتہاد کو بدعت سمجھتا ہوں۔
ہندی رسم الخط میں غالباً تمام مخلوط التلفظ آوازوں کو ایک ہی حرف سے لکھا جاتا ہے۔ ہائے مخلوط التلفظ یعنی بھ، پھ، گھ، ڈھ وغیرہ کی حد تک تو مجھے یقین ہے۔ باقی استاذی شکیب بھائی یا الف عین صاحب بہتر بتا سکیں گے۔ اگر ایسا ہی ہے تو یہ ہمارے موقف کی حمایت میں ایک اور اہم دلیل ہو گی۔
3۔ "دو" سے "و" کا اسقاط کیا ویسا ہے، جیسا کہ ہندوستان سے ہندستان اور ہوشیار سے ہشیار؟
دو کا لفظ غالبا ہمارے ہاں فارسی سے آیا ہے اور اہلِ ایران بھی اس میں واؤ کا اسقاط بوقتِ ضرورت کر دیا کرتے ہیں۔
مرا غیرِ تماشای جمالت
مبادا در دو عالم کارِ دیگر
(رومیؔ)
مفاعیلن مفاعیلن فعولن​
اردو کی مثال دیکھیے:
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
(غالبؔ)
فَعِلات فاعلاتن فَعِلات فاعلاتن​
غالبؔ نے اس شعر کے مصرعِ ثانی میں دو چار کو دُچار باندھا ہے۔
ہندستان اور ہشیار وغیرہ کی مثالیں قدرے غیرمتعلق ہیں کیونکہ یہ لفظ کے اندر تغیر ہے نہ کہ اس کے اخیر میں۔ جس کے نتیجے میں ان الفاظ کا تلفظ ہی نہیں بلکہ املا بھی متاثر ہوتا ہے۔ عروض میں لفظ کے اندر تغیر کا معاملہ بالعموم اخیر یا شروع کے تغیر کی نسبت زیادہ نازک ہوتا ہے۔ اگلے جو کچھ کر گئے کر گئے اب یہ تصرف خطا میں شمار کیا جاتا ہے۔۔ مثلاً خاموش کو تو قدما نے خموش لکھ کر نظیر فراہم کر دی مگر ہم تاریک کو تریک باندھیں تو یہ بڑی فاش غلطی ہو گی۔
آخر میں صرف یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آپ لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی اصلاح کا قلم نہیں پھیریں گے تو یہ تہی دامن و تشنہ کام توجہ نہ پا کر ترکِ مشق کی تلوار نہ چلا بیٹھے۔
لگی لپٹی تو میں رکھوں گا نہیں، یہ وعدہ رہا۔ باقی رہی اصلاح تو سچی بات ہے کہ آپ اس کے نہیں، فقط صلاح کے سزاوار ہیں۔
آپ کی تحسین اور حوصلہ افزائی پر بہت ممنون ہوں۔
:)
ایک برأت نامہ (disclaimer) بھی داخل کرتا چلوں۔ میری یادداشت اتنی کمزور ہو چلی ہے کہ جب کبھی شعری نشستوں وغیرہ میں جانا ہوتا ہے تو اپنے اشعار لکھ کر لے جاتا ہوں ورنہ کچھ یاد نہیں ہوتا۔ گزشتہ دنوں عجیب لطیفہ ہوا۔ ایک غزل لکھ کر لے گیا۔ جلدی میں مقطع لکھنا یاد نہیں رہا۔ وہاں جا کر پڑھی تو مقطع ندارد۔ کافی تعمق کے بعد بھی یاد نہ آیا تو ناچار معذرت کر کے اٹھ آیا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ گو اصول کسی حد تک مجھے مستحضر ہیں مگر نظائر و امثال کے سلسلے میں بالکل کورا ہوں۔ آپ کا حسنِ ظن ایک طرف مگر یہ تفصیل و تدقیق جو آپ نے دیکھی، بڑی حد تک انٹرنیٹ کی مرہونِ احسان ہے۔ خدا گوگل اور ریختہ والوں کا بھلا کرے، اکثر نہایت عمدہ مثالیں میسر آ جاتی ہیں۔ آپ کو خود بھی آئندہ کسی معاملے میں تردد ہو تو مستند ویب سائٹوں سے مدد لے لینے میں کوئی عار نہیں۔
 

عرفان سعید

محفلین
آپ کی محبت، عرفان بھائی۔ دعا کیا کیجیے میرے لیے۔

یہ مثالیں تو قبلہ الف عین نے عنایت کر دیں۔

بھائی، یہ دراصل اسقاط نہیں اختلاط ہے۔ ہندی کے چند الفاظ بعض اوقات مخلوط التلفظ ہوتے ہیں۔ ان میں فی الحال مجھے ی، ر اور ھ یاد آ رہے ہیں۔ ی کی مثالیں تو آپ جانتے ہیں۔ پیاس، کیا، کیوں، پیار، چیونٹی وغیرہ۔
رائے مخلوط التلفط کی مثالیں پریم، پریت (بمعنیٰ عشق و محبت) وغیرہ ہیں۔ ان میں رائے مہملہ کی آواز اپنے ماقبل سے بالکل جڑ کر یوں نکلتی ہے کہ عروض میں ان دو حروف کو ایک قیاس کر لیا جاتا ہے۔ مثال دیکھیے:
تو پریم کنھیّا ہے یہ پریم کی نیّا ہے
یہ پریم کی نیّا ہے تو اس کا کھویّا ہے
(اخترؔ شیرانی)
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن​
دونوں مصرعوں میں پریم تواتر سے پیم کے وزن پر لایا گیا ہے اور یہی درست ہے۔
تیسری صورت ہائے مخلوط التلفظ کی ہے۔ اس سے بھی آپ خوب واقف ہوں گے۔ اردو میں اس کا املا دو چشمی ھ سے کیا جاتا ہے اور یہ بھی اپنے ماقبل سے ملا کر پڑھی جاتی ہے۔ جیسے کھایا، پھیکا، چولھا، انھیں، دلھن وغیرہ۔
نکتہ یہ ہے کہ دو حروف کا یہ اختلاط صرف ہندی الاصل الفاظ کا خاصہ ہے اور عربی یا فارسی سے آئے ہوئے الفاظ پر اس کا قیاس کرنا درست نہیں۔ مثلاً اگر لفظ خیال جو عربی الاصل ہے، کی یائے تحتانی کو آپ خائے معجمہ کے ساتھ مخلوط کر کے باندھیں تو یہ ظلم اور جہالت ہو گی۔ مجید امجدؔ صاحب نے فارسی لفظ پیالہ کو فعلن کے وزن پر باندھنے پر کئی بحثیں فرمائی تھیں مگر میں اسی اصول کی بنا پر ان کے اجتہاد کو بدعت سمجھتا ہوں۔
ہندی رسم الخط میں غالباً تمام مخلوط التلفظ آوازوں کو ایک ہی حرف سے لکھا جاتا ہے۔ ہائے مخلوط التلفظ یعنی بھ، پھ، گھ، ڈھ وغیرہ کی حد تک تو مجھے یقین ہے۔ باقی استاذی شکیب بھائی یا الف عین صاحب بہتر بتا سکیں گے۔ اگر ایسا ہی ہے تو یہ ہمارے موقف کی حمایت میں ایک اور اہم دلیل ہو گی۔

دو کا لفظ غالبا ہمارے ہاں فارسی سے آیا ہے اور اہلِ ایران بھی اس میں واؤ کا اسقاط بوقتِ ضرورت کر دیا کرتے ہیں۔
مرا غیرِ تماشای جمالت
مبادا در دو عالم کارِ دیگر
(رومیؔ)
مفاعیلن مفاعیلن فعولن​
اردو کی مثال دیکھیے:
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
(غالبؔ)
فَعِلات فاعلاتن فَعِلات فاعلاتن​
غالبؔ نے اس شعر کے مصرعِ ثانی میں دو چار کو دُچار باندھا ہے۔
ہندستان اور ہشیار وغیرہ کی مثالیں قدرے غیرمتعلق ہیں کیونکہ یہ لفظ کے اندر تغیر ہے نہ کہ اس کے اخیر میں۔ جس کے نتیجے میں ان الفاظ کا تلفظ ہی نہیں بلکہ املا بھی متاثر ہوتا ہے۔ عروض میں لفظ کے اندر تغیر کا معاملہ بالعموم اخیر یا شروع کے تغیر کی نسبت زیادہ نازک ہوتا ہے۔ اگلے جو کچھ کر گئے کر گئے اب یہ تصرف خطا میں شمار کیا جاتا ہے۔۔ مثلاً خاموش کو تو قدما نے خموش لکھ کر نظیر فراہم کر دی مگر ہم تاریک کو تریک باندھیں تو یہ بڑی فاش غلطی ہو گی۔

لگی لپٹی تو میں رکھوں گا نہیں، یہ وعدہ رہا۔ باقی رہی اصلاح تو سچی بات ہے کہ آپ اس کے نہیں، فقط صلاح کے سزاوار ہیں۔

:)
ایک برأت نامہ (disclaimer) بھی داخل کرتا چلوں۔ میری یادداشت اتنی کمزور ہو چلی ہے کہ جب کبھی شعری نشستوں وغیرہ میں جانا ہوتا ہے تو اپنے اشعار لکھ کر لے جاتا ہوں ورنہ کچھ یاد نہیں ہوتا۔ گزشتہ دنوں عجیب لطیفہ ہوا۔ ایک غزل لکھ کر لے گیا۔ جلدی میں مقطع لکھنا یاد نہیں رہا۔ وہاں جا کر پڑھی تو مقطع ندارد۔ کافی تعمق کے بعد بھی یاد نہ آیا تو ناچار معذرت کر کے اٹھ آیا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ گو اصول کسی حد تک مجھے مستحضر ہیں مگر نظائر و امثال کے سلسلے میں بالکل کورا ہوں۔ آپ کا حسنِ ظن ایک طرف مگر یہ تفصیل و تدقیق جو آپ نے دیکھی، بڑی حد تک انٹرنیٹ کی مرہونِ احسان ہے۔ خدا گوگل اور ریختہ والوں کا بھلا کرے، اکثر نہایت عمدہ مثالیں میسر آ جاتی ہیں۔ آپ کو خود بھی آئندہ کسی معاملے میں تردد ہو تو مستند ویب سائٹوں سے مدد لے لینے میں کوئی عار نہیں۔
راحیل بھائی!
حسبِ معمول ایک پُرلطف تحریر۔ تصحیح، تفصیل اور تدریس پر بہت شکرگزار ہوں۔
حضور! آپ صلاح بھی دیں اور جِلا بھی۔
ریختہ کی جانب اشارہ کرنے کا شکریہ۔ بادی النظر میں کافی سود مند سائیٹ معلوم ہوتی ہے۔انشاءاللہ استفادہ کروں گا۔
 
Top