احبابِ کرام! اب کھُرچن کی باری آگئی ہے ۔ کچھ پرانی غزلیں ڈھونڈ ڈھانڈ کر جھاڑ پونچھ کر ٹائپ کرلی ہیں اور یہاں پوسٹ کرنے کا ارادہ ہے ۔ میں تو انہیں شائع کرنے کے بارے میں متردد تھا لیکن تابش بھائی نے انہیں بنظرِ غور دیکھ کر بکمالِ مہربانی سندِ توثیق عطا فرمائی اور حوصلہ افزائی فرمائی ۔ چنانچہ تیس سال پرانی یہ غزل پیشِ خدمت ہے ۔
٭٭٭
اک بادباں شکستہ طغیانیوں میں دیکھا
بے حوصلہ سفینہ کم پانیوں میں دیکھا
اتنا قریب تجھ کو پایا نہ محفلوں میں
جتنا قریب تجھ کو ویرانیوں میں دیکھا
اُن مشکلوں سے بہتر آسانیاں نہیں یہ
جن مشکلوں کو میں نے آسانیوں میں دیکھا
کیسے کھلوں میں اُس پر ، اِس زندگی کو جس نے
بس خواہشوں میں سوچا ، من مانیوں میں دیکھا
ملتا نہیں کہیں اب چشمِ جہان بیں کو
جو روپ زندگی کا نادانیوں میں دیکھا
٭٭٭
ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۹۹۰