اک تواتر سے دل پہ غم گزرے -- برائے اصلاح

اتنی کڑی تنقید! ہے نا ۔۔ جی، بالکل ہے! اور وہ اس لئے کہ ۔۔
شعر اور کلامِ منظوم دو الگ الگ چیزیں ہیں، یہ بات پہلے بھی بہت بار بیان ہو چکی۔ رہی بات معیار فنیات اور چابک دستی کی تو غنی کاشمیری کا یہ شعر دیکھئے:
غنی! روزِ سیاہِ پیرِ کنعان را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخا را
غنی (تخلص)
استاد محترم
مجھے یہ تنقید کسی بھی تعریف سے زیادہ عزیز ہے۔۔
آپ اور عبید سر دونوں کی دی گئی اصلاح "اصل میں اصلاح" ہے ۔۔
آپ کے تنقید ور تبصرے مجھے عزیز تر ہیں
جزاک اللہ ۔۔
 
1۔ وہ کیفیت والی بات جو میں نے کہی تھی وہ مطلع میں ہے، یہ الگ بات کہ کمزور ہے۔ "اک تواتر سے" یہ تو ہوان بیانِ محض! اگر یہاں "اس تواتر سے" ہو تو انشائیہ بنتا ہے اور وہ تقاضا کرے گا کہ دوسرے مصرعے میں صرف پلکوں کا بھیگنا کافی نہیں۔ آنکھوں کے ساتھ سوچیں بھی بھیگ جائیں تو "اس تواتر سے" کا حق ادا ہو سکتا ہے۔ شعر میں ایک احساس منتقل کرنا ہوتا ہے، محض خبر دینا مقصود نہیں ہوتا۔
ایک مثال عام بیانیہ سے لیجئے کہ "ایک عورت فوت ہو گئی" یہ خبر ہے، اور اگر اسی کو کہیں "ایک ماں مر گئی!" تو یہ انشائیہ ہے۔ کچھ ایسا ہی فرق شعر اور خبر میں ہونا چاہئے۔
اس تواتر سے دل پہ غم گزرے
درد آنکھوں کو کرتے نم گزرے
دل کو نسبت ہے تیرے دل سے یوں
رنج میں تم تھے، دکھ سے ہم گزرے


کچھ بہتر ہوا استاد محترم؟
 
Top