ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
اک جہانِ رنگ و بو اعزاز میں رکھا گیا
خاک تھا میں ، پھول کے انداز میں رکھا گیا
حیثیت اُس خاک کی مت پوچھئے جس کے لئے
خاکدانِ سیم و زر آغاز میں رکھا گیا
-ق-
اک صلائے عام تھی دنیا مگر میرے لئے
کیا تکلف دعوتِ شیراز میں رکھا گیا
ایک خوابِ آسماں دے کر میانِ آب و گِل
بال و پر بستہ مجھے پرواز میں رکھا گیا
بربطِ منظر پہ رکھ کر شرطِ مضرابِ نظر
نغمہائے بے صدا کو ساز میں رکھا گیا
ایک خوئے جستجو دی ، ایک دستِ ممکنات !
زندگی کو آدمی سے راز میں رکھا گیا
-
کھا رہا ہے تیرگی سے بس لڑائی کا فریب
وہ دیا جو حجرۂ درباز میں رکھا گیا
اک جہانِ حرف کتنی بار ٹوٹا اور بنا
تب کہیں احساس کو الفاظ میں رکھا گیا
بن گئی میرا تشخص میری خاموشی ظہیرؔ
درد کچھ ایسا مری آواز میں رکھا گیا
ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔ ۲۰۱۷
آخری تدوین: