سید عمران

محفلین
غیر منقسم ہندوستان میں مشاعرہ ہورہا تھا۔اس میں طرح کا ایک مصرع دیا گیا؎
چمن سے آرہی ہے بوئے کباب​
مصرع پر بڑے بڑے شعراء نے طبع آزمائی کی لیکن ڈھنگ کی گرہ کوئی نہ لگا سکا۔ایک سرپھرے نے قسم کھائی کہ جب تک گرہ نہ لگالوں گا چین سے نہ بیٹھوں گا۔ وہ ہر صبح دریا کے کنارے نکل جاتا اور اونچی آواز سے یہ مصرع الاپنا شروع کردیتا ؎
چمن سے آرہی ہے بوئے کباب​
ایک دن ایک کم سن لڑکا ادھر سے گزرا، اس نے یہ مصرع سنا تو فوراً بول اٹھا؎
کسی بلبل کا دل جلا ہوگا​
شاعر نے یہ موزوں مصرع سنا تو خوش ہوکر اس لڑکے کو سینے سے لگالیا۔ یہ لڑکا آگے چل کر جگر مرادآبادی کے نام سے مشہور ہوا۔
جگر بیسویں صدی کے نصف اوّل میں مقبول ہونے والے اردو زبان کے بڑے شاعر تھے جنہیں رئیس المتغزلین اور شاہِ غزل کہا جاتا ہے۔ آپ اپنی خوش خیالی اور خوش الحانی کے باعث ہم عصروں پر بازی لے گئے۔ پاک و ہند میں آپ کی خوش آہنگ شاعری کا طوطی بولتا تھا۔

ابتدائی حالات

آپ کا پیدائشی نام شیخ محمد علی سکندر تھا۔ 6 اپریل 1890ء کو مرادآباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ سے حاصل کی جہاں عربی، اردو اور فارسی سیکھی۔ مشرقی علوم کے حصول کے بعد انگریزی تعلیم کے لیے چچا کے پاس لکھنؤ چلے گئے جہاں اسٹینلی اسکول میں نویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ان کو انگریزی تعلیم سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ نویں جماعت میں دو بار فیل ہوئے۔اسی عرصہ میں والد کا انتقال ہو گیا اور انہیں مراد آباد واپس آنا پڑا۔گھریلو حالات کی خرابی اور تعلیم سے عدم دلچسپی کے باعث میٹرک نہ کرسکے۔ ان کے ایک جاننے والے عاقل نام کے شخص کا چشموں کا کارخانہ تھا، جگر اس کارخانے کے ایجنٹ مقرر ہو گئے۔ اس کام کے لیے جگر کو جگہ جگہ گھوم کر آرڈر لانے ہوتے تھے جس کے لیے وہ بنارس سے لے کر اعظم گڑھ تک کا دورہ کرتے۔
کچھ عرصہ بعد آپ گونڈا چلے گئے۔ یہ قصبہ لکھنؤ کے قریب واقع ہے۔ گونڈا جانا ان کی زندگی کا اہم موڑ ثابت ہوا۔ یہاں انہوں نے مشہور صوفی شاعر اصغر گونڈوی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت اختیار کی۔ اصغر گونڈوی جگر سے صرف چھ برس بڑے تھے۔ اصغرگونڈوی نے جگر کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ جگر نے اصغر گونڈوی کی اہلیہ کی بہن سے شادی کرکے گونڈا کو اپنا مستقل وطن بنا لیا۔

شعر و شاعری

جگر کو شاعری ورثہ میں ملی تھی۔ والد مولوی علی نظر اور چچا مولوی علی ظفر دونوں شاعر تھے۔ مورثِ اعلی محمد سمیع دہلی سے تعلق رکھتے تھے اور مغل بادشاہ شاہجہاں کے دربار سے وابستہ تھے لیکن شاہی عتاب کے نتیجہ میں مراد آباد آ کر بس گئے۔ جگر بارہ تیرہ برس کی عمر سے ہی شاعری کرنے لگے تھے۔ شاعری میں ابتدائی اُستاد راسا رامپوری تھے، اپنے والد سے بھی اصلاح لیتے تھے۔ داغ دہلوی اور منشی امیر اللہ تسلیم نے جگر کی شاعری کو مزید جلا بخشی۔ آپ نے اپنا تخلص جگر رکھا تو سکندر کی بجائے جگر مراد آبادی کے نام سے مشہور ہوگئے۔
جگر کو مرزا غالب اور دیگر اساتذہ شعراء کی طرح یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کے کئی اشعار ضرب المثل بن گئے اور برسوں گزر جانے کے باوجود آج بھی تر و تازہ ہیں۔ جگر داغ کے شاگرد تھے اور اصغر کی عزت کرتے تھے لیکن داغ کی طرح لذت پرست اور اصغر کی مانند صوفی منش بہرحال نہ بن سکے۔ خود لکھتے ہیں:
”ہو سکتا ہے میرے کلام میں کہیں کہیں مومن کا اثر غیر شعوری طور پر موجود ہے۔ لیکن واضح رہے کہ میں تقلید کا قائل نہیں۔ البتہ اس کا اعتراف ہے کہ میرے ابتدائی کلام پر داغ کا نمایاں اثر موجود ہے۔ غالب کی عظمت اور محبت میرے دل میں ہے لیکن مقلد ان کا بھی نہیں۔‘‘
جگر کو اپنے عہد میں جو شہرت ملی آج تک اس کی کوئی مثال نہیں ملی۔ جب ان کی شاعری مختلف منازل طے کر کے منظر عام پر آئی تو برصغیر کی شاعری کا رنگ بدل دیا۔ بہت سے شعراء ان کے کلام اور ترنّم تک کی نقل کرنے لگے۔ جگر کا نام مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت تھا۔ مصرعوں میں شگفتہ و شستہ الفاظ کا استعمال اور ترنم سے شعر پڑھنا، اسٹیج پر بیٹھے دوسرے شعراء کو جگر کی یہ خصوصیات پریشانی میں ڈال دیتیں۔
اگرچہ جگر صاحب کا اصل میدان غزل تھا اور وہ اسی میدان کے شاہ سوار تھے لیکن انہوں نے چند نعتیں بھی کہی ہیں۔ ان کی ایک نعت کا مطلع ہے ؎
اِک رِند ہے اور مدحتِ سلطانِ مدینہ
ہاں اِک نظرِ رحمت سلطانِ مدینہ​

بلا نوشی

جگر دو باتوں کی وجہ سے ہندوستان میں مشہور تھے، ایک ان کی شاعری، دوسری ان کی بلا نوشی۔ وہ اتنی پیتے تھے کہ مدہوشی کی وجہ سے مشاعرے کے بعد لوگ انہیں اٹھا کر گھر لاتے۔ جگر کی شراب نوشی میں کافی قصور ان کے دوستوں کا تھا جو بقول اصغر گونڈوی ان کا گوشت کھا رہے تھے۔ انہیں سستی شراب پلاکر مشاعروں میں لے جاتے یا نجی محفلوں میں ان سے غزلیں سنتے۔جگر ہوش میں آتے تو ہمیشہ پشیمان ہوتے اور اس عادت سے باز رہنے کے منصوبے بناتے۔ جگر توبہ کرتے تو یہ دوست پھر بوتل کھلوا کر ان کے سامنے رکھ دیتے، اور جگر پھر بہک جاتے کیوں کہ شراب نے ان کی قوت ارادی کمزور کردی تھی۔ اس صورتِ حال پر جگر کا درد یوں سامنے آتا؎
اب چھلکتے ہوئے ساغر نہیں دیکھے جاتے
توبہ کے بعد یہ منظر نہیں دیکھے جاتے​
جگر اپنی بلانوشی سے خوش نہ تھے، آپ نے شراب نوشی پر کبھی فخر نہیں کیا بلکہ اس زمانہ کو ہمیشہ دورِ جہالت کہتے رہے۔ جگر صاحب نے ایک مرتبہ خود کہا کہ میں شراب نوشی کے بعد کئی کئی گھنٹے روتا ہوں۔اپنی اس حالتِ زار کا نقشہ ایک شعر میں یوں پیش کرتے ہیں ؎
پینے کو تو بے حساب پی لی
اب ہے روزِ حساب کا دھڑکا​
اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ جگر کی شاہکار شاعری اُن کی کثرتِ مے نوشی کا نتیجہ ہے۔ حالاں کہ جگر نے شراب نوشی سے توبہ کے بعد سوز و گداز کی حامل جو غزلیں کہی ہیں وہ اُن سے بدرجہا بہتر ہیں جو پہلے کہی گئی تھیں۔ وہ خود کہتے ہیں کہ شعر میں نے کہے ہیں شراب نے نہیں۔

شخصیت و کردار

جگر صاحب دل آویز شخصیت کے مالک تھے، گہری سانولی رنگت اور پٹے دار بال ان کی شخصیت کو جاذبِ نظر بناتے تھے۔ آخری زمانہ میں بہت مذہبی ہو گئے تھے، چہرے پر داڑھی بھی رکھ لی تھی جس سے چہرہ خوبصورت اور نورانی دکھائی دینے لگا تھا۔
جگر صاحب کے ذاتی کردار میں بلانوشی کے علاوہ کوئی خامی نہ تھی۔ حتیٰ کہ نشہ بھی جب گہرا ہوجاتا تو چپ چاپ ایک طرف ہوجاتے اور کسی سے کلام نہ کرتے۔ عالم مدہوشی میں بھی ان کے منہ سے کوئی ناشائستہ بات نہ نکلتی۔دل کے صاف، زبان کے کھرے تھے۔ کسی کا برا نہیں چاہتے تھے۔ کسی کے عیب بیان نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی خوبیوں پر نظر رکھتے تھے۔ مزاج میں سخاوت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ مہمانوں کے سامنے آنکھیں بچھائے رکھتے۔ آپ کے قیمتی کپڑے اور قیمتی چیزیں یار دوست ہتھیا لیتے تو ان سے نہ کچھ کہتے اور نہ کچھ پوچھتے۔ ایک بار وہ لیٹے ہوئے تھے کہ کسی جاننے والے نے سوتا ہوا سمجھ کر ان کی جیب سے سارے پیسے نکال لیے، جگریہ سب دیکھ رہے تھے۔ جب لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے شور کیوں نہیں مچایا؟ کہنے لگے شریف آدمی کو رسوا کرنا اچھی بات نہیں۔
آپ کسی سے مرعوب نہیں ہوتے تھے، یہی وجہ ہے کہ عام آدمی کی بدتمیزی درگزر کرتے لیکن بڑے لوگوں کی ناروا حرکت پر کچھ کہے بغیر نہ رہتے۔ غصے میں بھی آپے سے باہر نہ ہوتے۔ طبیعت میں غیرت و حیا اتنی تھی کہ محفل میں نظریں نیچی کرکے بیٹھتے اور خواتین کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتے۔ آپ ایک ہمدرد انسان تھے، کسی کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی تھی۔ مشاعروں میں کبھی اس بات کی پرواہ نہ کی کہ انہیں سب سے پہلے یا سب سے آخر میں پڑھوایا گیا۔ منتظمین نے جو کچھ دیا خاموشی سے جیب میں ڈال لیا۔ کئی ریاستوں کے والی آپ کو اپنے دربار سے وابستہ کرنا چاہتے تھے اور ان کی شرائط ماننے کو تیار تھے لیکن وہ ہمیشہ اس پیشکش کو ٹال دیتے ۔

فلمی گانے لکھنے سے توبہ

قیامِ پاکستان سے پہلے کا واقعہ ہے۔ جگرنے اپنے ایک دوست کے اصرار پر کاردار فلم کمپنی سے فلمی گانے لکھنے کا معاہدہ کرلیا۔ معاہدہ یہ تھا کہ جگرصاحب دس غزلیں دیں گے اور فی غزل ایک ہزار روپیہ معاوضہ مل جائے گا۔ دس ہزار روپے اُس زمانہ میں اچھی خاصی رقم ہوتی تھی۔ فلم کمپنی نے پانچ ہزار روپے پیشگی دے دئیے۔ جگرصاحب رقم وصول کر کے گھر آگئے۔ رات کو ایک عجیب خواب دیکھا کہ غلاظت کا چھوٹا سا پہاڑ ہے جس پر ایک شیر بیٹھا ہے۔ پہاڑ کے دامن میں بہت سے لوگ جمع ہیں۔ وہ شیر وقفے وقفے سے دونوں پنجوں سے غلاظت اچھال رہا ہے۔ لوگ اُس غلاظت سے اپنا دامن بھر رہے ہیں۔ شیر کا جسم اور لوگوں کے کپڑے سب غلاظت سے آلودہ ہیں۔ جگر صاحب نے اس خواب کو غیبی اشارہ سمجھا۔ صبح ہوئی تو سارا روپیہ فلم کمپنی کو واپس کردیا اور فلمی گانے لکھنے سے توبہ کرلی۔

دین سے محبت

جگر سخت مذہبی آدمی تھے، مشہور شاعر جوش سے ان کی بے دینی پر الجھتے رہتے تھے۔ عالم مدہوشی میں بھی دین یا علماء کرام کے خلاف کوئی بات کرتا تو حال سے بے حال ہوجاتے اور بدمستی کا پورا زور اس پر نکل جاتا۔آپ اصغر گونڈویؔ کا بہت احترام کرتے تھے، ان کے سامنے کبھی اونچی آواز میں بات نہ کرتے، ان کی ہر بات مانتے اور ان کی موجودگی میں نظریں نیچی کیے رکھتے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کے قریبی دوستوں سے بھی اسی طرز عمل سے پیش آتے۔ اپنے مذہبی رجحان کے بارے میں کہتے ہیں کہ میں مختلف مذہبی عقائد سے گزرتا رہا ہوں۔ ایک زمانے میں دہریت بھی مجھ پر حاوی رہی۔ میرا یہ زمانہ روحانی اذیتوں کا تھا۔ آخر ایک روز میں حضرت اصغر گونڈوی سے ملنے گیا تو وہ ایک صاحب سے بحث کر رہے تھے۔ میں تمام بحث سنتا رہا۔ عجیب بات تھی کہ حضرت اصغر سمجھا اسے رہے تھے، مگر کانوں کے ذریعہ ہر بات دل میں میرے اُتر رہی تھی۔ جوشبہات میرے دل میں آتے وہاں سے اس کا جواب آجاتا۔ مجھے وہ وقت یاد ہے جب میں تھوڑی دیر میں راسخ العقیدہ حنفی ہوگیا۔
جگرصاحب میں دین سے محبت کا جو جذبہ غالب تھا اس کی شہادت علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی دی، بلکہ سید صاحب نے پیش گوئی کی کہ جگر ایک دن ضرور تائب ہو جائیں گے۔ آگے چل کر یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی۔ جگر مرادآبادی کے دیوان ’’شعلۂ طور ‘‘ پر علامہ سید سلیمان ندوی کی تقریظ کا آخری پیراگراف ہے:
’’جگر مست ازل ہے ، اس کا دل سرشار الست ہے ، وہ محبت کا متوالا ہے اور عشق حقیقی کا جویا ، وہ مجاز کی راہ سے حقیقت کی منزل تک اور میخانہ کی گلی سے کعبہ کی شاہ راہ کو اور خم خانہ کے بادہ کیف سے خود فراموش ہوکر ساقی کوثر تک پہنچنا چاہتاہے ۔‘‘
ایک مرتبہ جگر بھوپال ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ نعت کے مشہور شاعر حمیدؔ صدیقی بھی وہاں قیام پذیر تھے۔ ایک دن وہ جگر سے ملنے چلے آئے۔ جگر سرشاری کے عالم میں لیٹے ہوئے کوئی غزل گنگنا رہے تھے۔ تپائی پر بوتل دھری تھی۔ جیسے ہی ان کی نظر حمید صدیقی پر پڑی گھبرا گئے، بولے میں نے آپ کو منع کیا تھا کہ ایسے وقت میرے پاس نہ آیا کریں۔ انہوں نے کہا حرج ہی کیا ہے۔ میں آپ کے اس شغل سے واقف ہوں اور معترض بھی نہیں۔ جگرنے کہا بات معترض ہونے کی نہیں ہے، اس عالم میں اگر میں آپ سے نعت سنوں تو کیسے سنوں۔ اور آب دیدہ ہوگئے۔

جذبۂ حب الوطنی

سردار عبدالرب نشتر شاعر بھی تھے اور پاکستان کے صوبہ پنجاب کے گورنر بھی تھے۔ جگر صاحب پاکستان آئے تو ان سے ملاقات کرنے گئے۔ دروازہ پر جو دربان تھا اس نے انہیں نہیں پہچانا اور گورنر سے ملاقات کرانے سے منع کردیا۔ جگر صاحب نے جیب سے کاغذ نکالا اور اس پر کچھ لکھ کر کہا کہ یہ پرچہ عبدالرب نشتر کو دے آؤ۔ عبدالرب نشتر نے پرچہ دیکھا تو اس پر یہ مصرع لکھا ہوا تھا؎
نشتر سے ملنے آیا ہوں میرا جگر تو دیکھ​
عبدالرب نشتر سمجھ گئے کہ جگر مراد آبادی ہیں۔ دوڑتے ہوئے آئے اور بہت معافی مانگی۔ پاکستان کے دورہ کے دوران جگر کو پاکستان کی شہریت کی پیشکش کی گئی، مگر جگر کو اپنی جائے پیدائش سے بہت محبت تھی، انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں جہاں پیدا ہوا ہوں وہیں مروں گا۔

خواجہ عزیز الحسن مجذوب صاحب سے ملاقات

قدرت کو جب کسی کی ہدایت کا انتظام کرنا ہو تو اس کے اسباب بھی خود مہیا کرتی ہے؎
سن لے اے دوست جب ایام بھلے آتے ہیں
گھات ملنے کی وہ خود آپ ہی بتلاتے ہیں​
کانپور کے ایک مشاعرہ میں جگر اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے محبوب خلیفہ خواجہ عزیز الحسن مجذوب ایک ساتھ جمع ہوگئے۔ اس مشاعرہ میں جگر صاحب کو بھی اپناکلام پڑھنا تھا اور خواجہ صاحب کو بھی اپنی نعت پڑھنی تھی۔جب خواجہ صاحب نے نعت پڑھی تو جگر صاحب نے جو غزل کا بادشاہ کہلاتے تھے اپنی غزل جیب میں ڈال لی اور کہا کہ اب میں کچھ نہیں پڑھوں گا۔خواجہ صاحب کی اس نعت کا مطلع تھا؎
گھٹا اٹھی ہے تو بھی کھول زلفِ عنبریں ساقی
ترے ہوتے فلک سے کیوں ہو شرمندہ زمیں ساقی​
خواجہ صاحب کی نعت سن کر جگر کے دل پر چوٹ لگی اور انہوں نے خواجہ صاحب سے کہا کہ حضرت تھانوی کی برکت سے بہت سے گناہ گار بندے اللہ والے بن رہے ہیں تو کیا میرے لیے بھی کوئی گنجائش ہے کہ میں حکیم الامت کی خدمت میں جاکراللہ والا ہوجاؤں؟ خواجہ صاحب نے فرمایا کہ کیوں نہیں۔ جگر صاحب کہنے لگے مگر میں تو شراب پیتا ہوں، کیا حضرت تھانوی مجھے خانقاہ میں پینے دیں گے؟ خواجہ صاحب کو تردُّد ہوا، خاموش ہوگئے کہ حضرت سے بات کرکے جواب دوں گا۔
خواجہ صاحب نے تھانہ بھون جاکر جگر کی بات حضرت تھانوی کے گوش گزار کردی۔حضرت نے فرمایا کہ خواجہ صاحب آپ جاکر جگر صاحب کو یہ جواب دیں کہ خانقاہ تو اللہ کے لیے وقف جگہ ہے، وہاں تو وہ نہیں پی سکتے لیکن اشرف علی جگر کو اپنے گھر مہمان بنائے گا، میرے گھر میں وہ جیسے چاہیں رہیں۔

حضرت تھانوی کی خدمت میں حاضر ی

حضرت تھانوی کا اِذن ملتے ہی جگرصاحب تھانہ بھون پہنچ گئے۔ حضرت تھانوی بڑے تپاک سے ملے۔ دورانِ گفتگو ان سے کلام سنانے کی فرمائش کی۔ جگرصاحب نے ایک تازہ غزل پڑھی، جس کامطلع تھا ؎
جان کر من جملہ خاصان مے خانہ مجھے
مدّتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے​
اور جب یہ شعر پڑھاتو جگر کی ہچکیاں بندھ گئیں؎
ننگِ مے خانہ تھا میں، ساقی نے یہ کیاکردیا
پینے والے کہہ اٹھے یا پیرِ مے خانہ مجھے​
حضرت تھانوی کی چند مجالس سے جگر کی حالت بدل گئی۔ انہوں نے حضرت تھانوی سے بیعت کی درخواست کردی۔ بیعت کرنے کے بعد حضرت تھانوی نے جگر سے کچھ سنانے کی فرمائش کی تو جگر نے مترنم آواز میں اپنی ایک غزل سنائی جس کا مطلع ہے؎
کسی صورت نمودِسوزِ پنہانی نہیں جاتی
بجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہیں جاتی​
اب جگر صاحب نے حضرت تھانوی سے کہا کہ حضرت آپ سے چار دعاؤں کی درخواست کرتا ہوں، نمبر ایک جگر کو حج نصیب ہوجائے، نمبر دو شراب چھوٹ جائے، نمبرتین جگر داڑھی رکھ لے اور نمبر چار جگر کی میدانِ قیامت میں مغفرت ہوجائے۔ جگر صاحب کی درخواست پر حضرت تھانوی کے ہاتھ دعا کے لیے اُٹھ گئے۔ جگر صاحب نے دو تین روزوہیں قیام کیا۔ اب ان کی زندگی یکسر بدل گئی تھی۔جس بغل میں شراب کی بوتل دابے ہوتے تھے پھر اسی بغل میں مصلیٰ نظر آنے لگا۔
جگر صاحب تھانہ بھون سے واپس آئے تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ شراب چھوڑ دی۔ کثرتِ مے نوشی کی عادت ترک کرنے سے وہ بیمار ہوگئے اور قلب میں درد رہنے لگا، جگر و معدہ میں سوزش ہوگئی جس کی وجہ سے چہرے اور گردن کی جلد پھٹنے لگی۔ان کا طبی معائنہ کرنے کے لیے ماہر ڈاکٹروں کا ایک بورڈ بیٹھ گیا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اگر جسم کو تھوڑی مقدار میں شراب ملتی رہے گی تو جان بچ سکتی ہے ورنہ زندگی کا چراغ گُل ہونے کا اندیشہ ہے۔ جگر نے کہا کہ اگر میں شراب پیتا رہوں گا تو کب تک جیتا رہوں گا؟ ڈاکٹروں نے کہا پانچ دس سال اور چلو گے۔ کہا کہ پھر موت آئے گی؟ کہا ہاں موت تو ضرور آئے گی، ہمارے پاس ایسی کوئی دوا نہیں جو موت سے بچالے۔ تو جگر صاحب رونے لگے اور کہنے لگے کہ شراب پینے کی حالت میں پانچ دس سال زندہ رہ کر خدا کے غضب کو میدانِ محشر میں لے کر جاؤں گا، اس سے بہتر ہے کہ جگر کو شراب چھوڑنے کی وجہ سے ابھی موت آجائے۔بہرحال اللہ تعالیٰ نے جگر پر کرم کیا اور لاہور کے مشہور معالج حکیم حافظ جلیل احمد اور دیگر دیسی علاج معالجہ سے ان کی حالت سنبھل گئی۔
اب ان کا حلیہ سنت کے مطابق ہوگیا تھا، نماز کی عادت ڈال لی، اور کچھ وقت مسجد میں بیٹھنے کو شعار بنا لیا۔۱۹۵۳ء میں حج کرنے چلے گئے اور وہاں داڑھی بھی رکھ لی۔ اس کے بعد جگر صاحب میرٹھ میں ایک تانگے پر جارہے تھے کہ تانگے والا ان کا بیس سال پرانا شعر پڑھنے لگا جو انہوں نے بمبئی میں کہا تھا ؎
چلو دیکھ آئیں تماشا جگر کا
سنا ہے وہ کافر مسلمان ہوگا​
جگر صاحب نے بیس سال پہلے یہ شعر کہا تھا یعنی دل میں یہ بات پہلے ہی سے تھی کہ مجھے داڑھی رکھنی ہے، اللہ والا بننا ہے اور شراب چھوڑ نی ہے، جیسے آفتاب بعد میں نکلتا ہے مگر افق پر سرخی پہلے بکھیر دیتا ہے۔ جگر صاحب کا شعر تانگے والا پڑھ رہا ہے اور جگر پیچھے بیٹھے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد تانگے والے نے پچھلی نشست سے ہچکیوں کی آواز سنی۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ جگر مراد آبادی ہیں۔جگر صاحب کے حق میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تین دعائیں قبول ہوگئیں، شراب چھوٹ گئی، حج نصیب ہوگیا اور داڑھی رکھ لی۔ چوتھی دعا یعنی میدان محشر میں مغفرت کے لیے جگر صاحب کہتے ہیں کہ جب تین دعائیں قبول ہوگئیں تو میں اللہ سے چوتھی دعا کی قبولیت کی بھی امید رکھتا ہوں۔

وقتِ آخر

کثرتِ شراب نوشی نے جگر کے اعضاء رئیسہ کو تباہ کر دیا تھا۔1941ء میں ان کو دل کا دورہ پڑا تھا، 1958ء کو لکھنؤ میں انہیں دوبارہ دل کا دورہ پڑا تو آکسیجن لگا دی گئی۔خواب آور دواؤں کے باوجود رات بھر نیند نہیں آتی تھی۔1960ء میں ان کو اپنی موت کا یقین ہو گیا اور لوگوں کو اپنی چیزیں بطور یادگار دینے لگے۔ دو سال سخت بیمار رہنے کے بعد بالآخر 9 ستمبر1960 ء کو جگر گونڈا میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔
بے شک سرمستی، سرشاری اور بے ساختگی جگر کے کلام کی نمایاں خصوصیات تھیں۔ اسی لیے جگر،جگر رہے اور ان کے ہمعصروں میں یا بعد میں بھی کوئی ان کے رنگ کو نہیں پا سکا۔سچ تو یہ ہے کہ جگر نے غزل کو جس معراج کمال تک پہنچا دیا یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
جان کر من جملہ خاصان مے خانہ مجھے
مدّتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ مجھے​
اور جب یہ شعر پڑھاتو جگر کی ہچکیاں بندھ گئیں؎
ننگِ مے خانہ تھا میں، ساقی نے یہ کیاکردیا
پینے والے کہہ اٹھے یا پیرِ مے خانہ مجھے​
بہت خوب بار بار پڑھا اور کیفیت بیان سے باہر ۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷
 

سیما علی

لائبریرین
بے شک سرمستی، سرشاری اور بے ساختگی جگر کے کلام کی نمایاں خصوصیات تھیں۔ اسی لیے جگر،جگر رہے اور ان کے ہمعصروں میں یا بعد میں بھی کوئی ان کے رنگ کو نہیں پا سکا۔سچ تو یہ ہے کہ جگر نے غزل کو جس معراج کمال تک پہنچا دیا یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔
پروردگار درجات بلند فرمائے ۔۔آمین !جب جب یہ نعت پڑھتے ہیں بے حد رقت طاری ہوجاتی ہے !بے شک وہ ربِ کریم جسے چاہے معراجِ کمال تک پہنچا دے ۔۔۔
اک رند ہے اور مدحتِ سلطان مدینہ
ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطان مدینہ

اس امت عاصی سے نہ منھ پھیر خدایا
نازک ہے بہت غیرتِ سلطان مدینہ

کچھ ہم کو نہیں کام جگرؔ اور کسی سے
کافی ہے بس اک نسبت ِسلطان مدینہ
 
Top