شاعر ہونا اور شاعر بننا دو مختلف باتیں ہیں اگر آپ شاعر ہیں تو شاعر ہی رہیں گے خواہ جدت پسند ہوں یا نہیں اور جدت سوچ میں نہ ہو تو شاعری میں نہیں آ سکتی
میں بھی اس بات کے حق میں ہو ۔۔ وصی شاہ نے ''کنگن '' بھی ''کاش میں ترے ہاتھ کا بن گوش ہوتا'' سے نقالی کی ۔۔ یہ دیکھیں وضو ککی ترکیب کہاں سے لی وصی شاہ وصی نے ۔۔ وضو کا میرے نزدیک مفہوم پاک ہونا ہے ۔۔ اور تم جب تصور میں آتے ہو ۔۔۔جب بھی ۔۔ اس کا مطلب تم تصور می ہر وقت نہیں ۔۔ تو ؤضو سے خارج ہو جاتے ہو ۔۔یعنی رونے سے تمہارا عکس دھل جاتا ہے ۔۔ سو کیا ؤصی شاہ نے بھی اسی نہج پہ سوچا
مجید امجد کی ایک خوبصورت نظم "بُندا" جس سے متاثر ہو کر وصی شاہ نے اپنی مشہور زمانہ نظم کنگن لکھی تھی یاد رہے کہ یہ نظم وصی شاہ کی نظم کنگن لکھنے سے تقریباً 35 سال پہلے لکھی گئی تھی
کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا
رات کو بے خبری میں جو مچل جاتامیں
تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں
صبح کو گرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول
میرے کھو جانے پہ ہوتا ترا دل کتنا ملول
تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں
اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر اک سلوٹ میں
جونہی کرتیں تری نرم انگلیاں محسوس مجھے
ملتا اس گوش کا پھر گوشہ مانوس مجھے
کان سے تو مجھے ہر گز نہ اتارا کرتی
تو کبھی میری جدائی نہ گوارا کرتی
یوں تری قربت رنگیں کے نشے میں مدہوش
عمر بھر رہتا مری جاں میں ترا حلقہ بگوش
کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا!
(مجید امجد)
کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا
تو بڑے پیار سے چاؤ سے بڑے مان کے ساتھ
اپنی نازک سی کلائی میں چڑھاتی مجھ کو
اور بے تابی سے فرقت کے خزاں لمحوںمیں
تو کسی سوچ میں ڈوبی جو گھماتی مجھ کو
میں ترے ہاتھ کی خوشبو سے مہک سا جاتا
جب کبھی موڈ میں آ کر مجھے چوما کرتی
تیرے ہونٹوں کی میں حدت سے د ہک سا جاتا
رات کو جب بھی تو نیندوں کے سفر پر جاتی
مرمریں ہاتھ کا اک تکیہ بنایا کرتی
میں ترے کان سے لگ کر کئی باتیں کر تا
تیری زلفوں کو ترے گال کو چوما کرتا
جب بھی تو بند قبا کھولنے لگتی جاناں
اپنی آنکھوں کو ترے حسن سے خیرہ کرتا
مجھ کو بے تاب سا رکھتا تری چاہت کا نشہ
میں تری روح کے گلشن میں مہکتا رہتا
میں ترے جسم کے آنگن میں کھنکتا رہتا
کچھ نہیں تو یہی بے نام سا بندھن ہوتا
کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا
(وصی شاہ)