غم کا احوال ہو بیاں ڈھب سے
دل نے سیکھا ہے صحبت شب سے
اس سے تو اصل شعر ہی بہتر تھا اور با معنی۔ اس کو تو سمجھ ہی نہیں سکا
اے ہنر کچھ دکھا اثر اب تو
داغِ دل چاک ہے مرا کب سے
کاشف کی بات درست ہے۔ دوسرا مصرع شاید میں یوں کہتا
زخم دل ہے مرا ہرا کب سے
اک جنوں اب ہے بس مرے ہمراہ
اب مرا راستہ جدا سب سے
÷÷پہلے مصرع میں ’اب‘ کی نشست بدل کر دیکھیں شاید کچھ بہتری آئے۔
آس کا بجھ چلا دیا دل میں
دشتِ وحشت کو ہے گلہ شب سے
÷÷ بجھ چلا‘ صوتی طور پر کچھ کرخت لگتا ہے۔ بہتر شاید یوں ہو
آس کی شمع گل ہوئی دل میں
سب کو بھائے ہے جانِ گلشن ہے
گل کو نسبت ہے یار کے لب سے
÷÷جان گلشن ہے‘ کا فقرہ اجنبی محسوس ہوتا ہے۔
اس سبب سے ہی سب کو بھائے ہے
یا
اس سبب سے ہی سب کو بھاتا ہے