اک نظم

عاطف بٹ

محفلین
تیرے مگروں میرئیے مائے
تیرے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد اے میری ماں
ایس دنیا دے تِلکن ویہڑے
اس دنیا کے پھسلا دینے والے صحن میں
جد وی ڈِگیاں، آپے اُٹھیاں
میں جب بھی گرا ۔۔ خود ہی اٹھا
'بسم اللہ!' دی واج نئیں آئی
کہیں سے سلامتی بھری صدا نہ ابھری
نہ کیڑی دا آٹا ڈُلہیائے
نہ چیونٹی کا آٹا گرا
صاحب کلام اپنی والدہ کی وفات کے بعد اپنے ساتھ پیش آنے والے حادثات پر دنیا کی جانب سے سامنے آنے والے ردعمل پر اپنی والدہ کے اس ردعمل کو یاد کر رہا ہے ۔ جب کبھی بچپن میں وہ کھیلتے کھیلتے کبھی گرتا تھا ۔ تو اس کی والدہ بھاگ کر اسے اٹھا لیتی تھی اور " بسم اللہ " کی صدا کے ساتھ اس کی توجہ " چیونٹی " کی جانب مبذول کرا دیتی تھی ۔ کہ " چیونٹی " کا آٹا " ڈلھ" گیا ہے ۔ اور وہ اپنا گرنے کا درد چوٹ بھول کر اس چیونٹی کو تلاش کرنے میں محو جاتا تھا ۔ جس کا آٹا " ڈلھ " گیا ہوتا ہے ۔
یہاں " ڈلھنا " عجب انوکھی بات کے طور پر استعمال ہوا ہے ۔۔
پنجابی زبان میں " گرنے " کے لیئے " ڈگنا اور ڈھینا" استعمال ہوتا ہے ۔​
بہت عمدہ نایاب بھائی۔
 

عاطف بٹ

محفلین
بہت شکریہ عاطف بھائی، نایاب بھائی ۔۔۔ ۔!

بچوں کے گرنے پر بسمہ اللہ کہنا تو ہمارے ہاں کی خواتین کا بھی معمول رہا ہے۔ ساتھ ساتھ بچوں کا دھیان بٹانے کے لئے ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ 'وہ دیکھو چیونٹی مر گئی" ۔

رہی بات "ڈُلنے" یا "ڈُلھنے" کی تو کسی زمانے میں ہمارے ایک پڑوسی کے بچے یہ یا اس سے ملتا جُلتا لفظ استعمال کرتے تھے پانی گرجانے پر کہ "پانی ڈُل گیا ہے" ۔ عموماً برتن میں موجود کسی رقیق شے کے گر جانے پر یہ اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔

باقی آپ لوگ اہلِ زبان ہیں زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں۔
بہت شکریہ احمد بھائی
 

عاطف بٹ

محفلین
ماشاءاللہ، بہت قابل ترجمہ کار ہیں ہمارے ہاں۔

’کیڑی د اآٹا ڈلہنے‘ (’ڈ ‘کے اوپر پیش) کے محاورے بارے میں بٹ صاحب کے ترجمے میں جس بات کا اضافہ کرنا چاہتا تھا، وہ پہلے ہی جناب نایاب, صاحب اور محترم @ محمد احمد, صاحب نے پیش کر دیا ہے۔ یعنی بچے کے گر جانے پر اس کو رونے سے بچانے اور اس کا دھیان بٹانے کے لیے اس کی توجہ یہ کہہ کر دوسری جانب مبذول کرد ی جاتی ہے کہ ’ اوہو، اوہ دیکھو، کیڑی دا آٹا ڈھل گیا اے‘۔ اور وہ زمین پر تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے کہ کیڑی (چیونٹی) کہاں پر ہے اور اس کا آٹا کیسے گر گیا ہے۔
میراخیال ہے، اب اصلاحی صاحب کو اس نظم کی ساری کیفیت واضح ہو گئی ہوگی۔
سر، بہت شکریہ۔ آپ اور نایاب بھائی نے واقعی ایک اہم بات کا اضافہ کیا ہے میری بات میں بھی اور میرے علم میں بھی۔
 
ماشاءاللہ، بہت قابل ترجمہ کار ہیں ہمارے ہاں۔

’کیڑی د اآٹا ڈلہنے‘ (’ڈ ‘کے اوپر پیش) کے محاورے بارے میں بٹ صاحب کے ترجمے میں جس بات کا اضافہ کرنا چاہتا تھا، وہ پہلے ہی جناب نایاب, صاحب اور محترم @ محمد احمد, صاحب نے پیش کر دیا ہے۔ یعنی بچے کے گر جانے پر اس کو رونے سے بچانے اور اس کا دھیان بٹانے کے لیے اس کی توجہ یہ کہہ کر دوسری جانب مبذول کرد ی جاتی ہے کہ ’ اوہو، اوہ دیکھو، کیڑی دا آٹا ڈھل گیا اے‘۔ اور وہ زمین پر تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے کہ کیڑی (چیونٹی) کہاں پر ہے اور اس کا آٹا کیسے گر گیا ہے۔
میراخیال ہے، اب اصلاحی صاحب کو اس نظم کی ساری کیفیت واضح ہو گئی ہوگی۔
شکریہ بھیا بالکل
کئی محاورے اور نئے الفاظ کا علم ہوا ۔
جزاکم اللہ
 
تیرے مگروں میرئیے مائے
تیرے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد اے میری ماں
ایس دنیا دے تِلکن ویہڑے
اس دنیا کے پھسلا دینے والے صحن میں
جد وی ڈِگیاں، آپے اُٹھیاں
میں جب بھی گرا ۔۔ خود ہی اٹھا
'بسم اللہ!' دی واج نئیں آئی
کہیں سے سلامتی بھری صدا نہ ابھری
نہ کیڑی دا آٹا ڈُلہیائے
نہ چیونٹی کا آٹا گرا
صاحب کلام اپنی والدہ کی وفات کے بعد اپنے ساتھ پیش آنے والے حادثات پر دنیا کی جانب سے سامنے آنے والے ردعمل پر اپنی والدہ کے اس ردعمل کو یاد کر رہا ہے ۔ جب کبھی بچپن میں وہ کھیلتے کھیلتے کبھی گرتا تھا ۔ تو اس کی والدہ بھاگ کر اسے اٹھا لیتی تھی اور " بسم اللہ " کی صدا کے ساتھ اس کی توجہ " چیونٹی " کی جانب مبذول کرا دیتی تھی ۔ کہ " چیونٹی " کا آٹا " ڈلھ" گیا ہے ۔ اور وہ اپنا گرنے کا درد چوٹ بھول کر اس چیونٹی کو تلاش کرنے میں محو جاتا تھا ۔ جس کا آٹا " ڈلھ " گیا ہوتا ہے ۔
یہاں " ڈلھنا " عجب انوکھی بات کے طور پر استعمال ہوا ہے ۔۔
پنجابی زبان میں " گرنے " کے لیئے " ڈگنا اور ڈھینا" استعمال ہوتا ہے ۔​
بھائی جان یہ تو میں نے صبح ہی دیکھ لیا تھا اور واقعی اچھا لگا تھا ترجمہ ۔
آپ نے بہت عمدہ ترجمہ کیا ہے ۔
صبح نیٹ بہت سست چل رہا تھا اس لئے جواب نہیں دے سکا تھا ۔
بہت شکریہ
 
Top