اک واقعہ اک سوچ۔۔۔۔کسی کو بھی حقیر مت جانیے۔۔

اک واقعہ اک سوچ۔۔۔۔کسی کو بھی حقیر مت جانیے۔۔​
دیکھ کر نہیں چل سکتے اندھے ہو کیا؟ ارسلان زور سے دھاڑا۔ ہسپتال کے گیٹ سے نکلتے وقت اپنی پریشانی میں مگن وہ میلے کچیلے لباس میں ملبوس ایک نوجوان سے ٹکرا گیا تھا۔ ایک تو سیاہ رنگت جو ارسلان کو ویسے ہی سخت نا پسند تھی اوپر سے اس کا لباس؛ لگ رہا تھا کہ وہ کسی گاڑیوں کی ورکشاپ میں کام کرتا تھا۔ اتنے بڑے ہسپتال میں بھی آ دھمکتے ہیں دو ٹکے کے یہ لوگ۔ ارے بابا جاؤ کسی سرکاری ہسپتال میں یہاں علاج کروانے والا تھوبڑا ہے کیا تمہارا؟ وہیں کھڑے کھڑے ارسلان نے اس نوجوان کو کھری کھری سنا دیں۔ اماں کے دل کی سرجری ہوئی تھی۔ کسی پیچیدگی کی وجہ سے خون زیادہ بہہ گیا تھا اور اب خون درکار تھا۔ ڈاکٹرز نے چند گھنٹوں کا وقت دیا تھا کہ اگر خون کا بندوبست ہو جائے تو جان بچ سکتی ہے۔ بدقسمتی سے اب پتہ نہیں اماں کا خون گروپ ایسا نایاب تھا یا ہسپتال کے پاس سٹاک نہیں تھا بہرحال خون ہسپتال سے دستیاب نہیں ہوا۔ اچانک اسے اماں کی حالت یاد آئی تو وہ سب کچھ بھول بھال کر پھر باہر کی طرف دوڑا۔ تمام رشتہ داروں ، دوستوں اور احباب کو خون کے لیے کہا تھا مگر عین وقت پر کسی کو کوئی بیماری نکل آئی تو کسی میں خون کم پڑ گیا۔ کوئی شہر سے باہر چلا گیا تو کوئی شہر میں ہوتے ہوئے بھی غائب ہو گیا۔ اب وہ قریب ہی واقع شہر کے سب سے بڑے بلڈ بینک کی طرف جا رہا تھا۔ اسے پوری امید تھی کہ وہاں سے تو خون مل ہی جائے گا۔ مگر وہاں پہنچنے پر بھی اسے انکار کا ہی سامنا کرنا پڑا۔ اس کا دل ڈوب رہا تھا۔ اماں کا چہرہ اسکی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا۔ فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف اسکی بیوی تھی۔ ارسلان: اماں کی حالت بگڑ رہی ہے تم کہاں ہو؟ کیا جواب دیتا وہ۔ اچانک اسے اپنے ماموں کا خیال آیا۔ اماں کا اور انکا خون گروپ ایک ہی تھا۔ لیکن پچھلے دس سال سے ان کی اوراماں کی بول چال نہیں تھی۔ ارسلان نے سوچا شائد بہن کی حالت کا سن کر بھائی کا دل نرم پڑ جائے۔ ساتھ ہی اس نے ماموں کا نمبر ڈائل کیا، ایک دو دفعہ گھنٹی بجنے کے بعد دوسری طرف سے ماموں کی آواز آئی۔ ارے ارسلان بیٹا: خلاف توقع ماموں کا لہجہ نہایت نرم تھا۔ کیا ہوا بیٹے خیر تو ہے ناں؟ ارسلان نے ساری بات بتا دی۔ ماموں بولے تم فکر نہ کرو بیٹے میں اپنے بیٹے کو ابھی بھیجتا ہوں اسکا بھی یہی خون گروپ ہے۔ اللہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہو گا۔ اس نے فون بند کیا اور ہسپتال کی طرف واپس چل پڑا۔ ابھی آدھے راستے میں ہی تھا کہ اسکی بیوی کا فون پھر آ گیا۔ یا اللہ خیر ارسلان کے دل سے دعا نکلی۔ اسکی بیوی کہہ رہی تھی کہ خون کا بندوبست ہو گیا ہے۔ تم آ جاؤ جلدی سے۔ ماموں کا لڑکا پہنچ گیا ہو گا اس نے سوچا اور تشکر سے اسکی آنکھیں بھیگ گئں۔ اسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے تپتے صحرا میں ٹھنڈی ہوائیں چلنا شروع ہو گئی ہوں۔ من کر رہا تھا اس فرشتہ صفت کے پاؤں میں بیٹھ جائے۔ دل ہی دل میں وہ ماموں کا مشکور ہو رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ یہ ماموں تھے۔ فون کان سے لگاتے ہی اس نے ماموں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے خون کا بندوبست کر دیا تھا۔ دوسری طرف سے ماموں حیران ہو کر بولے نہیں بیٹا میں نے تو تمہیں اس لیے فون کیا تھا کہ میرے لڑکے نے ابھی ایک مہینہ پہلے ہی کسی کو خون دیا ہے اس لیے وہ نہیں آ سکے گا۔ بہرحال خوشی کی بات ہے اگر خون کا بندوبست ہو گیا ہے تو۔ ہم شام کو چکر لگائیں گے۔ یا اللہ پھر یہ فرشتہ کون ہے۔ انہی سوچوں میں گم وہ ہسپتال پہنچ گیا۔ آتے ہی سب سے پہلے خون عطیہ کرنے والے کمرے میں گیا۔ وہاں موجود عملے سے اس نے پوچھا اماں کو خون دینے والے صاحب کہاں ہیں۔ کاؤنٹر پر بیٹھے شخص نے ایک بیڈ کی طرف اشارہ کیا۔ جونہی ارسلان کی نظر اس بیڈ پر پڑی وہ سن ہو کر رہ گیا۔ اس کی ٹانگوں میں جیسے جان ہی نہ رہی۔ یہ وہی میلے کچیلے لباس میں ملبوس سیاہ رنگت والا دو ٹکے کا نوجوان تھا۔ کانپتی ٹانگوں کے ساتھ وہ اسکی طرف بڑھا۔ تم۔ ۔ ۔ کیسے۔ ۔ ۔ ۔ کس نے تمہیں۔ ۔ ۔ ۔ بے ربط سے الفاظ اسکے مونہہ سے نکلنے لگے۔ اس نوجوان نے اسے بتایا کہ ارسلان کا کوئی دوست اس کے پاس اپنی گاڑی ٹھیک کروا رہا تھا جب ارسلان نے اپنے اس دوست کو خون کے لیے فون کیا تھا۔ وہ دوست تو تیار نہیں تھا لیکن میرا یہی خون گروپ تھا اس لیے میں آ گیا۔ صاحب اپنے پاس بہت خون ہے مسکراتے ہوئے اس نوجوان نے ارسلان سے کہا۔ ارسلان نے اس کے ہاتھوں کا تھام لیا۔ اس کے کپڑوں میں سے آنے والی ڈیزل کی بو اسے ایسے لگ رہی تھی کہ جیسے مشک و کافور ہو۔ اس کی سیاہ رنگت پرساری دنیا کی سفیدیاں قربان کرنے کا من کر رہا تھا۔ فرط جذبات میں ارسلان اس سے بولا: "جانتے ہو میری ماں کو خون دینے سے بڑا احسان کیا کیا ہے تم نے مجھ پر؟ تم نے مجھے آج یہ سکھا دیا ہے کہ میں اگر بادلوں پر بھی سواری شروع کر دوں تو بھی زمین کا ایک ذرہ بھی میرے لیے حقیر نہیں ہے۔ کہ سیاہ رنگتوں کے پیچھے شیشے کی طرح صاف دل ہوسکتے --​
 
السلام علیکم! خوبصورت اور پر تاثیر تحریر ہے لیکن اس پر ڈرامہ بھی بن چکا ہے اوریہ پہلے پرنٹ بھی ہوچکی ہے۔ معذرت کے ساتھ مجھے رسالے اور ڈرامے کا نام یاد نہیں ۔
 
Top