سلمان حمید
محفلین
آنکھیں پھٹی پھٹی ہیں تو لب ہیں سِلے سِلے
ہم اب بھی تیرے شہر کے عادی نہیں ہوئے
ہم سے ملو کہ ہم ہیں وہ بے نام سے بشر
جب سے ملے ہیں تجھ سے تو خود سےنہیں ملے
اے یار آج دیکھ تو لے راہ پر تری
پتھر پڑے ہوئے ہیں کہ ہم ہیں گرے پڑے
ہم منزلوں کی چاہ میں رستے بدل گئے
ہم سے محبتوں کے سفر طے نہیں ہوئے
جو عشق ایک عمر شریکِ سفر رہا
اُس بوجھ کو گرا کے وہ تنہا ہی چل دیے۔
نوٹ - یہ اشعار اصلاح کے لیے بھی حاضر ہیں اور تنقید و تعریف کے لیے بھی ،کیونکہ الفاظ کی کمی کے باعث مجھ سے زیادہ اشعار لکھے نہیں جاتے، مشکل الفاظ کی کمی کے باعث مشکل اشعار نہیں لکھے جاتے، مستقل مزاجی کی کمی کے باعث زیادہ غزلیں لکھی نہیں گئیں، وقت کی کمی (بے تحاشا موجود وقت کے غلط استعمال کی وجہ سے) کے باعث میں کچھ سیکھ نہیں سکا، پڑھے لکھے (ادبی) دوستوں کی کمی کے باعث تنقید اور داد سے محروم رہا۔ آیوڈین، روپے پیسے اور عقل کی کمی کے باعث جو مسئلے درپیش رہے وہ اگلی قسط میں بتا دوں گا۔ شکریہ
ہم اب بھی تیرے شہر کے عادی نہیں ہوئے
ہم سے ملو کہ ہم ہیں وہ بے نام سے بشر
جب سے ملے ہیں تجھ سے تو خود سےنہیں ملے
اے یار آج دیکھ تو لے راہ پر تری
پتھر پڑے ہوئے ہیں کہ ہم ہیں گرے پڑے
ہم منزلوں کی چاہ میں رستے بدل گئے
ہم سے محبتوں کے سفر طے نہیں ہوئے
جو عشق ایک عمر شریکِ سفر رہا
اُس بوجھ کو گرا کے وہ تنہا ہی چل دیے۔
نوٹ - یہ اشعار اصلاح کے لیے بھی حاضر ہیں اور تنقید و تعریف کے لیے بھی ،کیونکہ الفاظ کی کمی کے باعث مجھ سے زیادہ اشعار لکھے نہیں جاتے، مشکل الفاظ کی کمی کے باعث مشکل اشعار نہیں لکھے جاتے، مستقل مزاجی کی کمی کے باعث زیادہ غزلیں لکھی نہیں گئیں، وقت کی کمی (بے تحاشا موجود وقت کے غلط استعمال کی وجہ سے) کے باعث میں کچھ سیکھ نہیں سکا، پڑھے لکھے (ادبی) دوستوں کی کمی کے باعث تنقید اور داد سے محروم رہا۔ آیوڈین، روپے پیسے اور عقل کی کمی کے باعث جو مسئلے درپیش رہے وہ اگلی قسط میں بتا دوں گا۔ شکریہ
آخری تدوین: